۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
اتر پردیش اسمبلی الیکشن

حوزہ/ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فتویٰ نما اپیلوں اور سیاسی مشوروں سے خودکو دور رکھا ہے۔یہ ایک سمجھداری سے پر حکمت عملی ہے۔اس لیے کہ الیکشن کے موقع پر جاری ہونے والی اس طرح کی اپیلوں سے ہندوستانی مسلمانوں کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا ہے۔

تحریر: سراج نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی اتر پردیش اسمبلی الیکشن میں فتح کا سہرا کس پارٹی کے سر بندھتا ہے اور کس کس کو شکست کا منھ دیکھنا پڑ سکتا ہے،اس کا پتہ تو دس مارچ کو ہی چل پائیگا،لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ بی جے پی اس الیکشن میں اس جارحانہ موڈ میں ابھی تک نظر نہیں آئی ہے جو مودی اور شاہ کے دور میں اس کی پہچان بن گئی ہے۔حالانکہ حاشیہ بردار میڈیا کے سروے عوام کے سامنے اب بھی بی جے پی کی جیت کو یقینی بتا رہے ہیں،لیکن ہر الیکشن کے موقع پر اپوزیشن پارٹیوں کے باغیوں کو اپنے خیمے میں لا کر مخالفین کے حوصلے پست کرنے والی پارٹی کے سامنے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب بی جے پی کا دامن تھامنے والے اپوزیشن کے باغیوں کی تعدا د بہت کم ہے،جب کہ اس کے برعکس حکمراں جماعت سے اسمبلی رکنیت اور کرسی وزارت تک کو چھوڑنے والوں کی تعدا کافی زیادہ ہے۔بی جے پی کے یہ باغی حالانکہ زیادہ تر سماجوادی پارٹی کا رخ کر رہے ہیں،لیکن اس بنا پرکوئی رائے قائم کرنا بھی جلد بازی ہوگی۔البتّہ اس سے ہوا کے رخ کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ہوا کے اس رخ کو بدلنے کی کوشش کے تحت ہی بی جے پی نے ملائم سنگھ کی چھوٹی بہو اپرنا یادو کو بی جے پی میں شامل کیا ہے،لیکن کہنے کی ضرورت نہیں کہ اپرنا یادو کا اپنا کوئی سیاسی قد نہیں ہے۔گذشتہ اسمبلی الیکشن میں اپرنا سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر شکست سے دوچار ہوئی تھیں۔اس بار اگر وہ الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کر بھی لیتی ہیں تو بی جے پی کیڈر کے ووٹ کی بنا پر انھیں یہ جیت حاصل ہوگی،لیکن اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی دوسری پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کے معاملے میں اس مرتبہ سماجوادی پارٹی سے کا فی پیچھے نظر آتی ہے۔

بات صرف یہی نہیں ہے کہ سماجوادی پارٹی بی جے پی میں توڑپھوڑ کرنے اور باغیوں کو اپنے خیمے میں لانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔بلکہ اکھیلیش نے بی جے پی کی کئی حلیف پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ کھڑا کرکے بھگوا برگیڈ میں مایوسی پیدا کر دی ہے۔اب بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ اپنا دل اور نشاد پارٹی سے سمجھوتہ کرنے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ بی جے پی کا کنبہ یا این ڈی اے اب اپوزیشن پر بھاری ہے۔بی جے پی نے اعلان کر دیا ہے کہ اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر وہ ریاست کی تمام 403سیٹوں پر الیکشن لڑیگی،لیکن پارٹی کایہ اعلان ابھی تک بی جے پی کیڈر میں وہ جوش نہیں بھر سکا ہے جو اس سے پہلے تک دیکھا جاتا رہاہے۔

اس الیکشن کا ایک خاص اور اہم پہلو مسلم پارٹیوں کی الیکشن کے تعلق سے بڑی حد تک عدم فعالیت ہے اس عدم فعالیت کا سبب کوئی سیاسی حکمت عملی ہے یا کچھ اور یہ کہنا مشکل ہے،لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بہرحال یہ ہے کہ اس سے اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹوں کی تقسیم کم سے کم ہوگی۔مجلس اتحاد المسلمین نے کئی سیٹوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے،لیکن یہ تعداد ابھی تک 100 کے قریب نہیں پہنچی ہے۔اس کے مثبت پہلو بھی انتخابی منطر نامے کو اپوزیشن کے حق میں کر سکتے ہیں۔

جبکہ کہا یہ جا رہا تھا کہ مجلس سو یا اس سے زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار سکتی ہے۔مسلمانوں کے تعلق سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ بھلے ہی کوئی اپوزیشن پارٹی مسلمان یا ان کے مسائل پر بات کرنے سے گریزاں ہو لیکن کانگریس،بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی ان سب نے ہی مسلمانوں کو کا فی تعداد میں ٹکٹ دیے ہیں۔بی جے پی کا اس معاملے میں پرانا ریکارڈ برقرار ہے۔حالانکہ بی جے پی کے اقلیتی سیل نے پارٹی سے درخواست کی تھی کہ کم از کم بیس مسلمانوں کو اسمبلی الیکشن میں ٹکٹ دیا جائے،لیکن بیس تو کیا فی الحال دو مسلمانوں کو بھی بی جے پی سے ٹکٹ ملتا نظر نہیں آتا۔البتہ اسٹار پرچارکوں کی فہرست میں مختار عباس نقوی کو شامل کرکے بی جے پی مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔لکھنؤ میں شیعہ علماء سے اتر پردیش کے وزیر قانون برجیش پاٹھک کی ملاقات اسی سلسلے کی ایک کوشش نظر آتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مینکا گاندھی اور ورون گاندھی کو اسٹار پرچارکوں کی فہرست میں نہیں رکھا گیا ہے۔جبکہ یہ دونوں ہی لیڈر پیلی بھیت اور لکھیم پور کھیری میں پارٹی کے لیے فائدہ مند ہو سکتے تھے۔خصوصاً اس لیے کہ لکھیم پور میں کسانوں پرمرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے کے ذریعہ گاڑی چڑھانے کے معاملے کے بعد اس علاقے میں پارٹی کو کسانوں سے سخت چیلنج مل رہا ہے۔شائد پارٹی ورون اور مینکا سے زیادہ اہمیت نوکر شاہی کے تعاون کو دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔کانپور میں اے ڈی جی پولیس رہے اسیم ارون کا ملازمت سے استعفیٰ اور چند روز بعد بی جے پی میں شمولیت سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔

سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فتویٰ نما اپیلوں اور سیاسی مشوروں سے خودکو دور رکھا ہے۔یہ ایک سمجھداری سے پر حکمت عملی ہے۔اس لیے کہ الیکشن کے موقع پر جاری ہونے والی اس طرح کی اپیلوں سے ہندوستانی مسلمانوں کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا ہے۔البتّہ ’مسلم پرسنل لاء بورڈ آف انڈیا‘ نام کی ایک تنطیم نے لکھنؤ میں اپنے ایک اجلاس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے سامنے کچھ مطالبات پیش کیے ہیں۔ان پارٹیوں میں صرف مبینہ سیکولر پارٹیاں ہی شامل نہیں بلکہ بی جے پی بھی شامل ہے۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جس پارٹی کا مسلمانوں کے تعلق سے موقف جگ ظاہر ہے اس کے سامنے کوئی بھی مسلم تنطیم مطالبات پیش کرکے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟لیکن اس بات کے باوجود ملک کی اہم ملی تنظیموں کا اس معاملے میں موقف مناسب ہی کہا جائیگا۔

مسلمانوں کے علاوہ دلتوں میں بھی حکمراں جماعت کے خلاف ایک بے چینی ضرور ہے لیکن اہم اپوزیشن پارٹیاں خصوصاً سماجوادی پارٹی اس سے کتنا فائدہ اٹھا پائیگی یہ کہنا مشکل ہے۔چندر شیکھر آزاد سماجوادی پارٹی کے ساتھ انتخابی مفاہمت چاہتے تھے،لیکن اکھیلیش نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی۔اکھیلیش نے ان دلت ووٹوں کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے جو مایاوتی سے بد ظن ہونے کے سبب اس مرتبہ نئے ٹھکانے تلاش کر رہے ہیں۔حالانکہ یہ ووٹ ہمیشہ ہی اتر پردیش کی سیاست میں اہم رہاہے اور تمام تر بکھراؤ کے باوجود اب بھی اہم ہے۔ بہرحال ایک بات تو واضح ہے کہ حکمراں جماعت کے خلاف عوام میں کئی اسباب سے ناراضگی ہے۔یہ ناراضگی مرکز کی مودی حکومت کے خلاف بھی ہے،اور اتر پردیش کی یوگی حکومت کے خلاف بھی،لیکن اس سے اپوزیشن کو کتنا فائدہ ہوگا یہ انتخابی نتائج سے ہی واضح ہوگابشرطیکہ الیکشن کمیشن شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کرانے میں کامیاب ہو جائے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .