۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 360050
25 مارچ 2020 - 15:21
مزدور

حوزہ/ جس طرح میری دہاڑی بند ہے تو مولانا صاحب کی مسجد بھی تو بند ہے، گھروں میں اب کوئی مولوی صاحب کو قرآن پڑھانے کے لئے بھی نہیں بلاتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی| کچھ دن تو آس پڑوس سے قرض لے کر گھر چل گیا لیکن اب تو کوئی یہ سوچ کرقرض بھی نہیں دیتا کہ جب کام نہیں ہے تو واپس کیسے ملے گا  بیماری توپھیلتی ہی جا رہی ہے ،  سڑکیں سنسان ہیں لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں ہر طرف ہاہا کار مچی ہے۔
    
آج آٹھواں  دن ہے گھر میں توا چولہے پر نہیں چڑھا، چڑھتا بھی کیسے آٹا جو نہیں روٹی کہاں سے پکے؟ ماں کا کھانستے کھانستے برا حال ہے نہ رات کو سو پاتی ہے نہ دن کو چین ہے، رات میں پرانی کھانسی نہیں سونے دیتی  دن میں بھوکے بچے نہیں سونےدیتے پورا دن انہیں بہلانے میں گزر جاتا ہے۔ڈاکٹر کے پاس لے جانےکا خطرہ کون مول لے کون سمجھائے گا یہ کھانسی ابھی کی نہیں یوں بھی مزدوروں کے بچے تو دن رات کھانستے ہی رہتے ہیں لیکن اب تو یہ کھانسی بھی مصیبت ہے منحوس بیماری کی علامت۔
 
پرانی باسی روٹیوں میں جو گھی لگا کر بقول ماں کے ملیدہ بنایا تھا۔اسی پر گزاراہ ہو رہا تھا جو کبھی بچوں کو ناشتے میں دیا جاتا تھا۔ جب دہاڑی ملتی تھی تو ماں نے کچھ دن کی کمائی اکھٹا کی اور گھی منگوایا تھا اور ڈھیر ساری باسی روٹیوں میں ڈال کرملیدہ جیسا کچھ بنا دیا تھا صبح صبح چھوٹو مونو اسکول جاتے ہیں تو جلدی جلدی تھیلی میں باندھ کر انہیں یہ باسی روٹیوں کا  ناشتہ دے دیا جاتا کہ بچے  اسکول میں بھوکے نہ رہیں  اب بے چارے بچوں کا کھانہ سارا گھر کھا رہا تھا پھر بھی بھوکا تھا۔

ایسا نہیں تھا وہ کام پر نہیں جاتا اور گھر میں پڑا رہتا وہ تو بے چارہ روز تڑکے چار بجے اٹھ کر اپنے جھولے میں ضرورت کا سامان رکھ کر چوک کی طرف نکل جاتا لیکن  شہر میں وبا ہی  ایسی  پھیلی ہے کہ کوئی اسے کام پرلے جانے کو تیار نہیں  جبکہ بےچارہ رومال سے اپنا منھ مکمل ایسے ڈھکتا کہ ماسک کیا حفاظت کرے گا۔
حکومت کی جانب سے گرچہ یہ اعلان ہے کہ جو مزدور اپنے اپنے گھر میں رہیں گے انہیں حکومت کی طرف سے امداد دی جائے گی لیکن اس کا معاملہ ہی الگ ہےنہ اسکا رجسٹریشن ہے جس سے اپنے پیشے کو ثابت کرے کہ وہ مزدور ہے اور نہ
ہی دیگر دستاویزات بے چارہ روز چوک جا رہا ہے اور روز خالی ہاتھ واپس آجاتا ہے ،خالی ہاتھ واپس ہونا بڑی مشکل ہے اس سے بڑی مشکل بچوں کو سمجھانا ہے۔
دروازے پرجیسے ہی دستک دیتا ہے بچے پیروں سے لپٹ جاتے ہیں ابا آج ہمارے لئے کیالائے ،اور اسکا سر جھک جاتا ہے بچوں کو سمجھانے کے لئے اسکے پاس بس اتناہی ہے کہ  کچھ دن کی بات اور ہے ، یہ کرونا کی وبا ٹل جائے گی تو روٹی سبزی   بسکٹ پھل دال موٹ نمکو سب لے کر آونگا  بچے بھی دل سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ جلد از جلد یہ کرونا کی بلا ٹلے تو سب کچھ پٹری پر واپس آئے۔
 
آج پھر وہ اٹھ کر چوک میں اس جگہ جانے کی تیاری کر رہا تھا جہاں سے کچھ دن پہلے کوئی نہ کوئی گاڑی آکر اسے چھوٹے موٹے کام کے لئے  لے جاتی۔
 اور وہ شام تک اپنے ہاتھوں میں ماں کی دوائیں اور گھر  کے کھانے پینے کی چیزیں لئےمسکراتا ہوا مطمئن پہنچتا کہ صاحب نے میری مزدوری کا جو حق بنتا تھا نہیں دیا لیکن خدایا تیرا شکر ہے میں نے اپنے کام کو بحسن وخوبی انجام دیا اورکسی کا حق نہیں مارا۔

 آج سویرے سویرےباہر نکلنے کے لئے اس نے گھر کا دروازہ کھوالا ہی تھا کہ  سامنے محلےکی مسجد کے مولوی صاحب اپنے بیٹے  کے ساتھ  ہاتھوں میں کچھ غلہ  و گھر کا ضروری سامان لئے نظر آئے انہوں نے  بغیر زیادہ کچھ کہے تھیلا  دروازےپر رکھ دیا  اور  ساتھ ہی جیب سے ایک  لفافہ نکال کر کہا اسے رکھ لو ، جب اس نے منع کیا تو مولوی صاحب نے زبردستی اسکی جیب میں رکھ دیا اور خداحافظ کہہ کر آگے بڑھ گئے  اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ اندر گیا اس نے
جھولا کھولا تو قریب دو ہفتوں کا راشن موجود تھا مولوی صاحب کے لئےخودبخوددل سے دعاء نکلی۔
اب لفافہ کو کھولا اس میں ساڑھے پانچ ہزار روپیہ تھے جب وہ پیسے گن چکا تو اس نے لفافے کے ایک طر ف کچھ لکھا ہواد یکھا غور کیا تو  اس پر ٹیرھی میڑھی اردو میں  لکھا تھا مام صاحب کاہدیہ کل ۵۵۰۰ روپیہ /صرف
وہ سمجھ گیا یہ امام صاحب کی ایک ماہ کی تنخواہ ہے جو پوری انہوں نے اس کے حوالے کر دی ہے بھاگتا ہوا وہ امام صاحب کے گھر پہنچا اور کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا آپ اگر مجھے دے دیں گے تو آپ کا خرچ کیسے چلے گا امام صاحب نے  کہا یہ آپ کا ہی  ہے ہرگز واپس نہ لونگا  اور جب اسے زیاہ ہی پس و پیش میں دیکھا تو مسکرا کر کہا اللہ رازق ہے اور سامنے کھلے ہوئے قرآن پر نظریں جھکا دیں۔
وہ واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑا اسکے ماتھے پر پسینےکی بوندیں تھیں وہ سوچ رہا تھا کہ جس طرح میری دہاڑی بند ہے تو مولاناصاحب کی مسجد بھی تو بند ہے ، گھروں میں اب کوئی مولوی صاحب کو قرآن پڑھانے کے لئےبھی نہیں بلاتا مولوی صاحب وہ والے بھی نہیں جنکا کوئی مدرسہ ہو، کسی کے وکیل ہوں، کہیں سے ہر مہینے انکی اعانت ہوتی ہو  یا دعا تعویذ کرانے والے مریدین انکا خیال رکھتے ہوں یا زائچہ بنانے کا ہنر انہیں آتا ہو یہ تو بے چارے نماز پڑھا کر قرآن و دینیات پڑھا کر ہی اپنا گزارا کرتے ہیں، وہ اپنے گھر کی طرف بڑھتا جارہا تھا اور اس کے ذہن پر یہ سوچ طاری تھی: "جب میری دہاڑی بند ہے تو ان مولوی صاحب کا خرچ کہاں سے چل رہا ہوگا؟…

تحریر:  سید نجیب الحسن زیدی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .