۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
مولانا حیدر عباس رضوی

حوزہ/٩منٹ اگر علمی تحقیقات کے لئے طلب کئے گئے ہوتے تو یقینا پوری دنیا میں اسے آئیڈیل قرار دیا جاتا لیکن جس کام کے لئے ٩منٹ کا مطالبہ ہے اس سے دنیا بھر میں علم دوست افراد کو تکلیف پہنچی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پوری دنیا میں ''کورونا''نے اپنا قہر مچا رکھا ہے ایسے میں ترقی پسند افراد علمی تلاش وکوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ۔لیکن ماضی ہی کی طرح آج بھی توہمات وخرافات کا بازار گرم ہے۔کبھی مسلمانوں کو قرآن مجید میں بال دکھائی دیتا ہے تو کبھی ہمارے ملک کے وزیر اعظم معینہ وقت پر تھالی اور تالی بجانے کی عوام سے گزارش کرتے ہیں۔اور پھر ایک بار ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وزیر اعظم نے ٥اپریل کی رات ١٣٠کروڑ عوام سے ان کی زندگی کے ٩منٹ مانگے ہیں ۔

ان تمام موضوعات کا تجزیہ کرتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس رضوی لکھنؤ نے کہا کہ یہ ٩منٹ اگر علمی تحقیقات کے لئے طلب کئے گئے ہوتے تو یقینا پوری دنیا میں اسے آئیڈیل قرار دیا جاتا لیکن جس کام کے لئے ٩منٹ کا مطالبہ ہے اس سے دنیا بھر میں علم دوست افراد کو تکلیف پہنچی ہے۔

عرصہ قبل ویلٹر نامی فرانسوی دانشور نے اپنی کتاب میں خرافات کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہر وہ کام جو عقل ومنطق کے خلاف ہو اسے توہمات وخرافات کا نام دینا چاہئے۔ موصوف نے مزید وضاحت کی کہ جب انسان دو چیزوں کے درمیان ایک ایسا رابطہ تلاش کرنے لگے جن میں عقلی رابطہ نہ پایا جاتا ہو تو اسے اوہام کہا جانا چاہئے۔مثال دیتے ہوئے اس دانشور نے اضافہ کیا کہ انڈا پھوڑ کر نذر بد دور کرنا اسی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ ان دونوں میں عقل کسی رابطہ تک نہیں پہنچتی۔

ویلٹر نے مزید وضاحت کے لئے اپنے ایک دوست کا قصہ بھی بیان کیا کہ میرے دوست نے ایک پلاٹ خریدا۔ جب گھر کی تعمیر کا ارادہ کیا ابتدائی کاموں کے لئے بیلچہ لے گیا۔ لیکن بیلچہ زمین پر پڑتے ہی ٹوٹ گیا۔ اب اس کے ذہن میں یہ بات گھر کر گئی کہ زمین میں نحوست ہے! جبکہ اسے سوچنا چاہئے تھا کہ ممکن ہے یہ بیلچہ ٹوٹنے والا ہی تھا کیونکہ اب اس کی عمر پوری ہو چکی ہے۔ اتفاقاً ان سب کے باوجود اس نے مکان تعمیر کیا لیکن نئے مکان میں منتقل ہوتے ہی اس کے والدین سمیت بھائی اور بیوی کا انتقال ہو گیا۔ جبکہ یہاں بھی اسے سوچنا چاہئے تھا کہ ان لوگوں کی عمر مکمل تھی اسی لئے فرشتۂ موت اذن الٰہی سے آیا اور روح قبض کر لی۔بس یہیں سے اس کی تنزلی کا آغاز ہوتا ہے۔

مولانا حیدر عباس نے عرب سماج میں توہمات وخرافات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عرب سماج میں بھی توہمات و خرافات رائج تھے۔ ایرانی محقق ڈاکٹر علی جواد نے اپنی کتاب''عرب پیش از اسلام'' میں لکھا: عربوں کو خرافات پر بڑا اعتقاد تھا۔متعدد مثالیں اس ضمن میں لکھی ہیں ۔جن میں ایک یہ کہ جہالت زدہ عرب سماج میں اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوتی تو وہ اپنا پیرہن بر عکس پہنتا یعنی آگے کا حصہ پیچھے اور پیچھے کا آگے۔ انہیں اس عمل سے یہ یقین ہو جاتا کہ ایسا کرنے سے ان کی گمشدہ چیز مل جائے گی۔ اگر کسی خاتون کے یہاں بچہ پیدا نہ ہوتا تو اسے جنازے کے پاس لے جاتے تا کہ وہ جنازے کے اوپر نیچے سات مرتبہ کودے۔ اس طرح اس کی گود بھر جائے گی۔ اگر کسی کا دانت ٹوٹتا تو وہ اس دانت کو ہاتھ میں لے کر سورج کی طرف پھینک دیتا اور اس کا یہ عقیدہ ہوتا تھا کہ اس طرح اس عمل سے اسی جگہ دوسرا دانت نکل آئے گا۔ جبکہ سب کو معلوم ہے کہ دانت اپنے معینہ وقت پر ہی نکلے گا۔ سورج کی طرف ٹوٹے دانت کو اچھالنے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ اس قسم کے اوہام کی ایک طویل فہرست ہے جسے کتابوں میں دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔سردست میں اپنے سماج سے مخاطب ہوکر کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا!آج کے دور میں ان اوہام پرستیوں سے خود کو دور رکھئے۔جہالت کی تاریک وادیوں سے نکلنے کا واحد راستہ خود کو زیور علم سے آراستہ کرنا ہے۔

مولانا حیدر عباس نے مزید کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں جہالتوں کے خاتمہ کی خاطر مبعوث برسالت ہوئے اور آپ نے فرمایا:''بعثت بین الجھالتین''۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی ان جہالتوں سے مقابلہ کیا۔تفصیل کے لئے نہج البلاغہ میں موجود حکمت نمبر٤٠٠ کا مطالعہ کیجئے۔جس کے ضمن میں علامہ جوادی نے لکھا:''کاش کوئی شخص ہمارے معاشرہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیتا اور اسے باور کرا دیتا کہ بدشگونی ایک وہمی امر ہے اور اس کی کوئی حقیقت وواقعیت نہیں ہے اور مرد مومن کو صرف حقائق اور واقعیات پر اعتماد کرنا چاہئے۔مگر افسوس کہ معاشرہ کا سارا کاروبار صرف اوہام وخیالات پر چل رہا ہے...''۔

آخر میں یہ امید کرتے ہوئے اپنی گفتگو ختم کیا کہ اوہام وخرافات سے بچتے ہوئے ہم ان دنوں اپنے گھروں میں ہی رہیں گے اور تمام تر احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا رہ کر اپنے تہذیب یافتہ ہونے کا ثبوت پیش کریں گے تا کہ دنیا میں ہماری جگ ہنسائی نہ ہو۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .