تحریر : محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی। مابعدجدیدیت سے مراد کیا ہے؟ جدیدیت (Modernism)اور مابعدجدیدیت(Post-Modernism) میں کیا فرق ہے ؟ اسلام کا موقف مابعد جدیدیت کےحوالے سے کیاہے ؟ سادہ الفاظ میں کہیں تو مابعد جدیدیت ایک ایسا فلسفہ ہے جو خصوصاً مذہب اور رُوحانیت کے معاملات میں کسی ہمہ گیر یا مطلق سچائی کی تصدیق نہیں کرتا ہے ۔ خدا کی حقیقت اور مذہبی کو عملی طور پر اپنانے کے بارے میں کسی سچے دعوے کا سامنا کرنے پر مابعد جدیدیت کے نقطہ نظر کی تشریح اس بیان کے ذریعے کی جاتی ہے "یہ آپ کے لئے سچا ہوسکتا ہے لیکن میرے لئے نہیں۔" لیکن مابعدجدیدیت کو سمجھنے کےلئے ہمیں اس پہلے کے زمانہ کا سمجھنا ضروری ہے یورپ کی تاریخ کو فکر لحاظ سے ہم چار ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں پہلا قبل از تاریخ (Pre-Historic)دوسرا قبل از جدیدیت (Pre-Modernism) تیسرا جدیدیت (Modernism) اور چوتھا مابعد جدیدیت(Post-Modernism) ۔ان میں موجود عقاید و افکار،ثقافت اور تمدن کی بررسی ضروری ہے ۔
قبل از تاریخ (Pre-Historic):یہ وہ دورہےجس میں لوگ پر قومی عصبیت کی حاکمیت تھی اس زمانے میں لوگ پرقوم و قبیلہ کے عقاید ، افکاراور احساسات حاکم تھے وہ اپنی قوم اور قبیلہ سے دفاع اور اپنے دشمنوں سے جنگ کرتے تھے۔اور اسی پر افتخارکرتے تھے ۔
قبل از جدیدیت (Pre-Modernism):اس دور میں لوگ دیندار ہوگئے مختلف ادیان اور مذاہب نے جنم لیا ۔اور لوگ دینی عقاید اور افکار کے پیرو ہوگئے اب دیندار ی کے لئے آپس میں جنگ اور جدال کرنے لگے دین کی تبلیغ، ترویج اور حفاظت کرنا اپنی زمہ داری سمجھنے لگے۔اور مختلف الھی اور بشری ادیان جیسے اسلام ،یہودیت ، مسیحیت ، زرتشت ،بدھ مت ، ھندو،سیک،جین وغیرہ وجود میں آگئے ۔لیکن تاریخ مغرب کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں وہاں تحریف شدہ مسیحیت کی حاکمیت تھی اور چرچ کی بالادستی تھی وہ دین کے نام پر لوگوں پر ظلم و ستم کرتے تھے وہاں مختلف اجتماعی ، سیاسی اور دینی فسادات رونماہوگئے تھے پوپ اور شہنشاہ کے درمیان مفاہمت اور اتحاد برقرار ہوگیا تھا جہاں شہنشاہ کو روحانی تقدس کا سرٹیفکیٹ دے دیا وہاں پوپ کا منصب بھی بہت مضبوط ہوگیا۔ اس نئی روش نے آنے والے وقت میں دنیا کی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے رومۃ الکبریٰ کو ’’ مقدس سلطنتِ روم‘‘ (The Holy Roman Empire) کا درجہ حاصل ہوگیا۔کیونکہ اسے عیسائیت کے اہم ترین روحانی منصب کی طرف سے تائید حاصل ہوچکی تھی۔ وہاں عدالتِ تفتیش(Inquisition) کے نام سے نئی عدالت قائم کی جسکی شاخیں پورے یورپ میں قائم کی گئیں۔ہر وہ شخص جس پر پوپ سے ذرا برابر بھی سرکشی کا شبہ ہوتا اسے گرفتار کرکے اس عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ۔اورایک طرف سے پوپ نے ’’دستاویزِ مغفرت ‘‘ (Indulgences)تیا رکرکے فروخت کرنا شروع کردیا ۔ ہر گناہ کی بخشش کی قیمت مقرر تھی اور ہر قیمت کی دستاویز برائے فروخت موجود تھی ۔ گناہگار اپنے گناہوں کے مطابق دستاویز مغفرت خرید کرتا اور ’’عاقبت سنوار لیتا۔اس طرح مفسدوں کا اچھا موقع مل جاتا تھا کہ عمر بھر گناکرتے اور آخرمیں ایک دستاویز خرید کرگناہ کو معاف کرتے ،اسطرح کے خلاف شرع اور خلاف عقل کاموں سے وہاں کا معاشرہ درہم برہم ہوچکا تھا ۔ لیکن یہ سارے کارنامہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دین کے مخالف تھا وہ عدل و انصاف کا پیام لے کے آئے تھے،انکی تعلیمات سب کے لئے عام تھی ،جنت اور جھنم ، عفو و بخشش کا حقدار فقط خدا تھا ۔
جدیدیت (Modernism): اس منحرف مذہب(مسیحیت) کے خلاف مغربی دنیا کے عام انسانی ضمیر نے بغاوت کردی۔جدیدیت ان نظریاتی،تہذیبی،سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعے کا نام ہے جو ۱۷ویں اور ۱۸ ویں صدی کے یورپ میں روایت پسندی (Traditionalism) اور کلیسائی استبداد کے ردِ عمل میں پیدا ہوئیں۔ جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکنؔ (Francis Becon)،رینے ڈیکارٹؔ (Rene Descartes)، تھامس ہوبسؔ (Thomas Hobes ) وغیرہ کے افکار میں پائی جاتی ہیں۔جدیدیت کو وجود میں لانے کے لئے تین عظیم تحریکوں نے از جملہ تحریک نشاۃ ثانیہ(Renaissance)،تحریک رفارمیشن(Reformation)اور تحریک روشن خیالی(Enlightenment) بہت کارفرما تھیں۔ حقیقت میں ان تین تحریکوں نے جدیدیت کو وجود میں لایا ہے جدیدیت کی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے خدا کا انکار کردیا اسکی جگہ انسان کو رکھ دیا یعنی خدامحوری کی جگہ انسان محوری(Humanism) نے لے لی ایک طرف سے دین کا انکار ہوا سکی جگہ لادینیت (secularism)نے لے لی۔ اور مادیت(Materialism) کو معنویت پر فوقیت مل گی اور وحی کی جگہ عقل انسانی Rationalismنے لے لی۔ پاسکلؔ ، مانٹسکیوؔ ، ڈیڈاراٹؔ ، وسلیؔ ، ہیومؔ ، والٹیرؔ جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لا محدود بالا دستی اور واحد سرچشمہ علم ہونے کے تصور کو عام کیا۔ اوراخلاقی اقدار کی جگہ لبیرالیسم liberalism نے لی اس بناپر افادیت کا تصور عام کیا۔جو رویے سماج کے لئے فائدہ مند ہیں،وہ جائز اور جو سماج کے لئے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز رویے قرار دیے گئے۔اور سیاست،حکومت،اقتصاد،بازار سب پر انسان کا بنایا ہوا قانون حاکم ہوگیا . حقیقت یہ ہے کہ ’ مذہب ‘ سے انکار کے بعد جدیدیت کے پاس انسانوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام نہ تھا ۔
مابعد جدیدیت (Post-Modernism): ما بعد جدیدیت،جدیدیت کا ردِعمل تھا جدیدیت کی اس ہمہ گیر فکری استبداد نے وہی صورتحال پیدا کردی،جو عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں مذہبی روایت پسندی نے پیدا کی تھی اور جس کے ردِ عمل میں جدیدیت(Modernism)کی تحریک برپا ہوئی تھی۔جدیدیت کے استبداد کالازمی نتیجہ شدید ردِ عمل کی شکل میں رونما ہوا اور یہی ردِ عمل ما بعد جدیدیت (Post-Modernism)کہلاتا ہے۔ اور مابعد جدیدیت کے کچھ خصوصیات ہیں ۔
۱۔ نظریہ اضافی (Relativism): مابعد جدیدیت سب سے پہلے حتمی سچائی کو ختم کرنے اور اور ہر چیز (بشمول تجرباتی علوم اور مذہب) کو کسی فرد کے اعتقادات اور خواہشات سے نسبتی قرار دیتا ہے یعنی حقیقت کوئی ثابت اور دائمی چیز نہیں ہے بلکہ نسبی اور اضافی ہے جو زمان و مکان ، دین و مذہب ، عقیدہ و افکار، قوم و ملت سے لحاظ سے الگ الگ ہوتی ہے یعنی "یہ آپ کے لئے سچا ہوسکتا ہے لیکن میرے لئے نہیں۔" مسلمان کے نزدیک یہ چیز حقیقت ہے اور ھندو کے نزدیک دوسری چیزحقیقت ہے اوردیگر مذاہب کے نزدیک کچھ اور چیزیں حقیقت ہیں خلاصہ دنیا میں کوئی چیز حتمی اور ثابت نہیں ہے بلکہ نسبی اور اصافی ہے جسکو یہ لوگ نظریہ اضافی (Relativism)سے یاد کرتے ہیں۔
لیکن سچائی کی اضافیت کا نظریہ اسلامی نقطہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعے مستنبط حقائق یقینااضافی ہیں اور شک و شبہ سے بالاتر نہیں ہیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک حقائق کا سر چشمہ وحی الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے "بے شک اللہ وہ ہے ، جس سے نہ زمین کی کو ئی چیز مخفی ہے نہ آسمان کی". اور ایک جگہ فرماتا ہے :" جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے" .
اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سر چشمہ یعنی اللہ تعالٰی کی جانب سے وحی الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صورت میں ظہو ر پزیر ہوئے ہیں وہ حتمی صداقت (Absolute Truth) ہیں.
۲۔ردِ تشکیل کا نظریہ : ما بعد جدیدیت کے نزدیک جمہور یت،ترقی،آزادی، مذہب، خدا، اشتراکیت اور اس طرح کے دعوٰوں کی وہی حیثیت ہے جو دیو مالائی داستانوں ، الف لیلوی قصوں اور عقیدوں کی ہے۔ اس لئے انہوں نے ان تمام دعوؤں کو مہابیانیوں (mega narratives) کا نام دیا۔جدیدیت کے مفکرین کا خیال ہے کہ انہوں نے بہت سی’ سچائیاں ‘ تشکیل دی ہیں اور چاہے مذہب ہو یا جدید نظریات، ان کی بنیاد کچھ خود ساختہ سچائیوں پر ہے اسلئے جدیدیت کے دور کی تہذیب، علم وغیرہ انہی مفروضہ سچائیوں پر استوار ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان تشکیل شدہ سچائیوں کی رد تشکیل (Deconstruction) کی جائے، یعنی انہیں ڈھا دیا جائے۔ چنانچہ ادب، فنونِ لطیفہ،آرٹ، سماجی اصول و ضابطے ہر جگہ ان کے نزدیک خود ساختہ سچائیاں اور عظیم بیانیے ہیں،جن کی رد تشکیل ضروری ہے تاکہ ما بعد جدیدی ادب،فنونِ لطیفہ وغیرہ میں ایسے ’ غلط مفروضوں ‘ کا عمل دخل نہ ہو۔
۳۔ پلولرالیسم (Pluralism) کی تایید:مذہبی معاملات میں وحدتِ ادیان کا نظریہ بہت قدیم ہے۔ما بعد جدیدیت نے اس طرزِ فکر کو تقویت دی ہے۔ اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لئے تیار ہیں اس لئے اس عہد کو لادینیت کے خاتمے کا عہد (Age of DE Secularization)بھی کہا جاتاہے۔ایک شخص خدا پر بھروسہ نہ رکھتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع کرسکتا ہے۔ آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے تو کل کوئی عیسائی راہب اسے مطمئن کر سکتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت ہے ۔
حج کعبہ بھی گیا، گنگا کا اشنان بھی
راضی رہے رحمٰن بھی، خوش ہو شیطان بھی
لیکن اسلام پلورالیسم نظریہ کو قبول نہیں کرتا ہے بلکہ اسلام سارے ادیان کو سچ نہیں جانتا ہے بلکہ" ان الدین عنداللہ الاسلا"م ،خداوند کے نزدیک اسلام پسندیدہ دین ہے اور دوسری جگہ فرماتا ہے "ھذا صراطی مستقیم "یہ میرا راستہ مستقیم ہے ۔اس کے علاوہ باقی راستوں کوسبل الشیطان سے تعبیر کیا جاتا ہے اس بناپر دنیا کو صحیح معنی میں اسلام ہی نجات دے سکتا ہے ۔
۴۔ اخلاقی قدار کی آفاقیت کا انکار : انکی نظرمیں خوش بختی ، بدبختی ، نیکی ، بدی ،خیر اور شر نسبی اور اضافی ہے یہ زمان ، مکان ، مذہب ،ملت کے حساب سے الگ الگ ہوتا ہے اس لئے عفت،ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن ما بعد جدیدیوں کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔ان کی نظر میں شادی مرد و عورت کے درمیان بھی ہو سکتی ہے اورمرد مرد و عورت عورت کے درمیان بھی۔کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کر سکتا ہے۔مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں تواس پر بھی ان کے ہاں کوئی اعتراض نہیں۔
عمر بھرہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالبؔ
دھُول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے
لیکن اسلام میں بہت سے اخلاقی اقدار ہے جو آفاقی ہے پیامبر اسلام نے فرمایا : "حلال محمد حلال الی یوم القیامہ و حرام محمد حرام الی یوم القیامہ "اسلام میں بہت سے اخلاقی اقدار ہے جو ہرزمان اور مکان کے لئے ہے۔ اس بناپر ہم مابعد جدیدیت پر نیک نیتی سے نظر نہیں ڈال سکتے ہیں بلکہ بابعدجدیدیت کے خوبیوں اور خامیوں کوبررسی کرتے ہوئے اس پر اسلام کے موقف کو بیان کرنا چاہئے ۔
آ سماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش/ اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائیگی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود / پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائیگی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے / یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے