۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رہبر

حوزہ/رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی(رحمه‌الله) کی 31 ویں برسی کے موقع پر براہ راست ٹیلیویژن سے خطاب میں ایرانی قوم سے گفتگو کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی(رحمه‌الله)  کی 31 ویں برسی کے موقع پر براہ راست ٹیلیویژن سے خطاب میں ایرانی قوم سے گفتگو کی۔

رہبر معظم انقلاب کے بیانات کا خلاصہ:

ہمارے عظیم امام اپنی رحلت کے سالوں بعد بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں اور انہیں زندہ رہنا بھی چاہیئے، اور ہمیں ان کی موجودگی سے اور ان کی معنویت و روحانیت اور انکی فکر اور انکی رہنمائی سے فیضیاب ہونا چاہیئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

آج، میں عظیم المرتبت امام کی ایک اہم خصوصیت پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ البتہ بے شک، وہ کئی تہہ در تہہ پہلو لیے ذوابعاد انسان اور متعدد عمدہ خصوصیات کے مالک تھے، یہ خصوصیت جس پر ہم آج گفتگو کر رہے ہیں وہ عظیم المرتبت امام کی ایک بہت ہی اہم اور نمایاں خصوصیات میں شامل ہے، اور  وہ چیز ہے  عظیم المرتبت امام میں موجود بیدار رہنے اور بیداری لانے اور تحوّل و تبدیلی  اور بدلاؤ کا جذبہ۔ امام، اندرونی طور پر اور روحاً تحوّل خواہ بھی تھے اور تحول آفرین بھی تھے[معاشرے میں بیداری کے خواہاں بھی تھے اور بیداری لانے کی کوشش میں بھی لگے رہتے تھے] تبدیلی کے معاملے میں، انکا کردار صرف ایک استاد اور معلم و مدرّس کی ہی طرح نہیں تھا؛ جنگ کے میدان کے بیچوں بیچ کھڑے ایک کمانڈر کی طرھ تھا اور صحیح معنوں میں وہ پوری طرح ایک بھرپور رہبر کی تمام خصوصیات کے مالک تھے۔

سب سے پہلے تو، اس عظیم الشان انسان کے وجود میں ایک عرصے سے تبدیلی کا جذبہ موجود تھا، وہ ایک تحوّل خواہ انسان تھے۔ جسکی بہترین دلیل وہ تحریریں اور نوٹس ہیں جو انہوں نے اپنی عمر کے تیس کے عشرے میں اورجوانی کے دنوں میں مرحوم وزیری یزدی کے دفتر میں لکھا تھا، امام کی بعینہ اسی تحریر کو  مرحوم وزیری نے مجھے دکھایا تھا، میں نے اسے دیکھا ہے بعد وہ تحریر پرنٹ ہوکر دوسروں تک بھی پہنچ چکی ہے،اس تحریر میں وہ«قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّـهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ»اس آیت کریمہ کا سہارا لے کر لوگوں کو قیام للہ کی دعوت دیتے ہیں، انمیں کچھ اس طرح کا جذبہ پایا جاتا تھا۔

وہ بیداری اور تبدیلی لانے کے معاملے میں میدان عمل میں رہے، صرف تقریر اور حکم دینے کی ہی حد تک نہیں، قم میں نوجوان طلباء میں روحانی تبدیلی کی پرورش سے لے کر پورے ایران میں وسیع تر تبدیلی تک۔

بیداری کی اس مہم میں امام خمینی کا مخطاب ایرانی قوم تھی، امام کی تحریک کے آغاز سے پہلے، جدوجہدیں کی گئیں،دسیوں سال سے، مختلف گروہوں نے [جدوجہد کی]، لیکن ان کا دائرۂ کار صرف ایک تعداد تک محدود تھا، مثلاً مان لیجیئے 100 یا 150 اسٹوڈنٹ تک۔ لیکن امام کی گفتگو کسی محدود گروہ یا کسی محدود گروپ یا کسی خاص پیشے سے تعلق رکھنے والوں سے نہیں تھی انکی بحث کو موضوع پوری ایرانی قوم تھی۔ پھر قوم کا ایشو سمندر کی طرح ہے۔ سمندر میں طوفان بپا کردینا ہر ایک کا کام نہیں ہے؛ کیوں؟ ایک تالاب میں موجیں لائی جاسکتی ہیں، لیکن میں موجیں پیدا کردینا ایک بہت بڑا اور عظیم کام ہے۔ قوم ایک سمندر ہے ، اور امام نے اس کام کو انجام دیا۔

ایک اور تبدیلی اور بیداری جو امام نے پیدا کی وہ اپنے اور اپنے معاشرے کے بارے میں لوگوں کے نظریہ میں تبدیلی تھی۔ ایرانی قوم اپنی بہ نسبت ایک حقیرانہ نظریہ رکھتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قوم طاقتوں اور سپر پاوروں کی مرضی سے آگے بڑھ سکتی ہے ایسا کسی کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا،صرف عالمی طاقتوں کی مرضی کے خلاف ہی نہیں بلکہ داخلی طاقتوں کی مرضی کے خلاف یا کسی سیکیورٹی یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کے انچارج کی مرضی کے خلاف بھی بولنے کی جسارت نہیں تھی اور کسے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے۔

لوگوں میں احساس حقارت موجود تھا خود کو کسی قابل نہیں سمجھتے تھے اور انمیں احساس قدرت کا فقدان تھا؛ امام نے اسے احساس عزت و وقار میں بدل دیا، خود اعتمادی کے احساس میں بدل دیا۔

 ایک اور تبدیلی جسے امام نے پیدا کی وہ دین و مذہب کے بارے میں تھی، لوگ مذہب کو صرف ذاتی معاملات، عبادت کے معاملات ، یا زیادہ سے زیادہ ذاتی مسائل سے وابستہ سمجھتے تھے۔ صرف یہی مسئلہ یا نماز اور روزہ اور مالی فرائض اور شادی اور طلاق کی حد تک؛ وہ دین کی ذمہ داری اور مذہب کی ذمہ داری اور مذہب کے مشن کو ان چیزوں تک ہی محدود سمجھتے تھے۔
دین و مذہب کے لیے امام نے نظام سازی، تہذیب و تمدن، معاشرہ سازی ، انسان سازی اور اسی طرح کی دیگر چیزوں کی وضاحت کی اور پھر اس طرح مذہب کے بارے میں لوگوں کا نظریہ مکمل طور پر بدل گیا۔

ایک اور بیداری اور تبدیلی مستقبل کو لیکر تھی۔ ایسے وقت میں جب تحریک شروع ہوچکی تھی اور امام میدان میں داخل ہوچکے تھے، اس وقت وہ تمام نعرے کہ جسے کچھ جماعتین اور گروہوں اور ان جیسے چھوٹے موٹے گروپ لگاتے تھے جو کہ بہت ہی محدود بھی تھے اور چھوٹے پیمانے پر تھے انکا لوگوں کی نگاہ میں کوئی مستقبل نہیں تھا۔ یعنی، لوگوں کی نگاہوں کے سامنے مستقبل کا افق روشن نہیں تھا۔ یہ ساری چیزی امام کے بعد  ایک نئی اسلامی تہذیب کو اجاگر کرنے میں تبدیل ہوگئی؛ یعنی اگر آج آپ ایرانی قوم کو دیکھیں تو محسوس کرینگے کہ یہ امام کا مبارک ہاتھ ہے جس نے یہ کیفیت پیدا کی ہے؛ عوام ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل اور اسے پروان چڑھانے کی فراق میں ہیں،ایک عظیم اسلامی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں،  اسلامی امت کی تشکیل کے لئے کوشاں ہیں۔

ایک اور اہم بیداری اور تبدیلی جو امام نے پیدا کی-کہ جو شاید مذکورہ تبدیلیوں میں سے زیادہ اہم ہے- وہ ہے عالمی طاقتوں اور سپر پاوروں کے نظریات میں تبدیلی ہے۔ کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ امریکہ کی مرضی کے خلاف اور اسکی باتوں کے سامنے کوئی اپنی بات رکھ سکتا ہے، امریکہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ امام نے کچھ ایسا کیا کہ خود امریکی صدور نے کہا کہ انہون نے ہمیں ذلیل کرڈالا، اور واقعتاً ایسا ہی تھا۔امام اور امام کے ماننے والوں نے اور وہ نوجوان جو امام کے رہنمائی میں اپنا سفر طئے کررہے تھے، انہوں نے سپر پاور کو حقیقی معنوں ذلیل و رسوا کیا۔ امام نے دکھایا کہ سپر پاور کو بھی جھکایا جاسکتا ہے وہ کمزور  اور قابل شکست ہیں اور مستقبل نے اسے اور واضح و روشن کردیا، آپ نے سابق سوویت یونین کا حشر دیکھا جو ہوا، اور آج کا یہ امریکہ ہے کہ جسکی حالت آپ موجودہ امریکی معاملات کو دیکھتے ہوئے لگاسکتے ہیں۔امام نے اسے اس دن ہی لوگوں کے دلوں میں ڈال دیا تھا، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ وہ قابل شکست اور کمزور ہیں۔

ان ساری تبدیلیوں اور بیداریوں کو عظیم المرتبت امام نے لباسِ وجود عطا کیا، جو صحیح معنوں میں اور پوری طرح سے «امام بیداری» تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .