۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
عبد ِالہی؛ آیت اللہ جوادی آمُلی کی علمی اور عملی زندگی پر ایک نظر

حوزہ/ فخر جہان تشیع، فقیہ بے مثل، فلسفی و عارف دوران۔ حضرت آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی مدظلہ العالی کی حیات پر برکات پر چھ قسطوں پر مشتمل بہترین ڈاکومنٹری کی پہلی قسط پیش خدمت ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی | عموماً ایسی عظیم شخصیات اپنی ظاہری حیات کے دوران عوام کیلئے ناشناختہ رہتی ہیں۔ لیکن بہ لطف خاص خدائے متعال ، انقلاب اسلامی کی برکت سے حضرات آیات عظام طبا طبائی، بہجت ، حسن زادہ آملی، امام خمینی، شہید مطہری ، رحمت اللہ علیہم و امام خامنہ ائ اور جوادی آملی مد ظلہم العالی، عوام و خواص ایران میں کافی حد تک شناختہ ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہیکہ ہم ان بزرگان اور ان کی عظیم علمی و عملی خدمات کو اپنی ملت اور عوام تک بھی پہنچا کر ان کیلئے باعث استفادہ بنائیں۔

البلاغ ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان کی جانب سے عبد الہی کی یہ سیریز اسی ضمن میں ایک بہت چھوٹی سی کاوش ہے۔ البتہ آپ برادران و مومنین اس کاوش کو عظیم بنا سکتے ہیں کہ خود اور اپنے اہل خانہ کو اس سے مستفید فرمائیں اور یہ پیغام و لنک اپنے حلقہ احباب تک بھی پہنچا کر رضائے الٰہی حاصل کریں۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: انسان جو کچھ کرنے جا رہا ہو، وہ کام ایسے ہونا چاہیے کہ وہ شخص یہ کہہ سکے کہ خدایا یہ تمہارے نام سے شروع کر رہا ہوں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ بولا کریں۔ اگر کہہ دیا تو زیادہ ثواب ملے گا۔ اگر نہیں کہا تو کوئی بات نہیں، ضروری یہ ہے کہ انسان جو کچھ کر رہا ہو، جو کچھ بول رہا ہو، جو کھانا کھانا چاہے، جو معاملہ کرنا چاہے، یہ سب ایسے ہو کہ وہ بول پائے کہ خدایا اِسے تمہارے نام سے آغاز کر رہا ہوں۔

حجۃ الاسلام روحانی: آپ کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ میں کسی دن مرحوم آیت اللہ غروی کے پاس گیا۔ کہنے لگے میں خودبازار نہیں جاسکتا تا کہ تمہارے لیے عبَا خرید سکوں، یہ سو روپے آپ کو دے رہا ہوں، مجھے پتہ ہے آپ ضرورت مند ہیں، لیکن اپنی ضرورت پر مت لگانا، بلکہ عبا خرید کر پہن لینا اور مجھے دیکھانا، سو روپے، صرف سو روپے، وہ عبَا اب بھی میرے پاس ہے، چالیس سال پہلے، کم و بیش بیس تیس سال پہلے کی بات ہے، اُس وقت عالم دین کی زندگی اچھی نہیں ہوتی تھی۔ نہیں، نہیں یہاں پر ہے۔ چراغ تلے اندھیرا۔

آقا صاحب، آیت اللہ جوادی کے والد یا دادا کے بارے میں آپ کے ذہن میں کوئی بات ہے؟ کوئی یاد وغیرہ۔

حجۃ الاسلام پاشائی: خدا غریق رحمت کرے ان کے والد کو۔ ان کی ایک یاد ہے۔ جب میں دینی طالب علم بن گیا تھا، اس کے پہلے سال، وہ مسجدِ ہاشمی میں آتے جاتے تھے، اور ان کے ایک ہی بیٹے یعنی ہمارے اور پورے عالم اسلام کے مایہ ناز آیت اللہ جوادی آملی تب پڑھائی کرتے تھے، وہ خود انہیں تعلیم دیتے تھے، وہ نہایت پیار سے انہیں آواز دیتے تھے، ان کے لیے لطف اندوز تھا یہ منظر کیونکہ اُن سےبہت پیار کرتے تھے ۔ جیسے ہی دروازے کی آواز آتی تھی، ہمیں پتہ چل جاتا تھا کہ آیت اللہ جوادی آملی ہیں، جن کی پڑھائی کا ابتدائی دور تھا، البتہ ان کی تعلیم کے تین چار سال گزر چکے تھے۔ ان کے والد جا کر ادب سے دروازہ کھول دیتے تھے، سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کرتے تھے، انتہائی احترام کے ساتھ، اور پوری طرح ادب کے ساتھ۔ جب تک ان کے والد نہیں بیٹھتے تھے وہ کھڑے رہتے تھے۔ پہلے ان کے عظیم والد بیٹھ جاتے تھے اور پھر وہ دو زانو ہو کر ادب سے ان کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ تا کہ ان کی تعلیمات اور درس سے سبق حاصل کریں۔

حجۃ الاسلام روحانی: آمل، شہر کے بیچ ایک بڑی مسجد ہے، نیچھے مسجد ہے اور اوپر دینی مدرسہ، جو کہ اب بھی برقرار ہے۔ اوپر مدرسہ ہے جس میں دس پندرہ یا بیس تک کمرے ہیں، جن میں اب بھی طالب علم رہتے ہیں، اور اب بھی اسی حال میں ہیں وہ کمرے، جنوب سے شمال کی طرف پہلا نہیں دوسرا، تیسرا، چوتھے کمرے میں میں ہوتا تھا، خدا غریق رحمت کرے ان کے معزز والد کو، جب درس دینے کے لیے آجاتے تھے، وہی کمرہ جس میں آیت اللہ جوادی رہتے تھے، ان کے معزز والد وہیں آجاتے تھے، ہم ان کی خدمت میں پہنچ جاتے تھے، قدیمی علوم کی جامع المقدمات ان کے پاس پڑھا کرتے تھے۔

حجۃ الاسلام پاشائی: ان کے مرحوم والد، مشہور واعظ تھے۔ نصیحت اور تبلیغ میں ایک عجیب مہارت کے حامل تھے۔ بہت مسلط اور نر منبر تھے۔ اور اس وقت جو شخص بڑی مجلسوں کا انتظام کرکے اسے چلا سکتے تھے، ان کے معزز والد تھے۔ انتہائی محزون آواز میں تقریر ختم کیا کرتے تھے۔ اکثر جگہوں پر انہی کی تقریر ہوا کرتی تھی۔ ان کی تقریری سرگرمی بہت زیادہ تھی۔ کیونکہ اس وقت ہم نوجوان تھے، اور کچھ ہی عرصہ پہلے مدرسہ گئے تھے، اور چند سال کے بعد وہ وفات کرگئے، اس سے پہلے ہم گاوں سے آئے تھے اور شہر میں ان کی علمی سرگرمیوں سے ناواقف تھے۔ لیکن تقریروں میں یہ وضاحت سے محسوس کرتے تھے کہ مجالس کو ٹھیک سے چلانے والے اور لوگوں کو اچھے سے سمجھانے والے واحد مقرر وہی ہیں۔

ڈاکٹر واعظ جوادی: ہمارے والد مرحوم، کو میرے خیال سے شعر و شاعری سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ دلچسپی تھی، ہمارے مرحوم دادا جو کہ مولوی تھے، انہیں بھی شاعری کا مزاج رکھتے تھے۔ مرحوم آخوند ملا فتح اللہ۔ ہمارے پر دادا، مرحوم مرزا آغا جان تھے، اور پھر مرزا محمد، یہاں تک کہ مرحوم ملا اسماعیل تک پہنچ جاتا ہے شجرہ نسب، ہمارے تقریبا ساتویں جد تھے جو کہ رسالہ عملیہ رکھتے تھے [مرجع تقلید] تھے۔

حجۃ الاسلام پاشائی: ان کی خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ جو تنخواہ اساتذہ کو ملتی تھی، وہ استعمال نہیں کرتے تھے، کیونکہ ہماری مسجد جامع میں، طالب علموں کو پیسے نہیں ملتے تھے۔ وہ جو تنخواہ لے لیتے تھے سب طالب علموں اور غریبوں میں تقسیم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہر مہینے جب اپنے مال و دولت کا جائزہ لیتے تھے، حساب کتاب کے بعد جو کچھ بچ جاتا تھا، اس سے شرعی وجوہات دے دیتے تھے۔ یہ ان کے والد کے اسی تقویٰ کا اثر ہے کہ آیت اللہ جوادی اس اونچے مقام تک پہنچ گئے۔

ڈاکٹر واعظ جوادی: کہتے تھے: ہماری سب اصل نسب عالم دین تھے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ مرحوم والد کی دو تقریریں ایک جیسی ہوں۔ جدت اور انوکھے پن کے مالک تھے۔ نئے موضوعات مطرح کرتے تھے۔ اور نہایت شجاع بھی تھے، اپنی بات کردیتے تھے۔ ربا کھانے والوں سے بہت الجھتے تھے۔ کبھی کبھار انہیں پانچ ریال یا ایک تومن تقریر کے لیے بھی دے دیتے تھے۔ اور اکثر دیتے بھی نہیں تھے۔ یا دیر سے دیتے تھے۔ مرحوم والد کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ جب پیسے نہیں ہوتے تھے کچھ نہیں خریدتے تھے، قرض پر نہیں خردیتے تھے۔
حجۃ الاسلام پاشائی:
ان کی تصویر؟
ٹیکسٹ:
جی ہاں، ان کی یا اپنی گروپ فوٹو۔

حجۃ الاسلام پاشائی: جی، بالکل۔ بہت زیادہ تصویریں تھیں ہمارے پاس، لیکن جب یہ گھر بنا رہے تھے، اوپر سے پانی پھینکا تھا، وہ نیچھے سٹور روم میں گیا اور میری سب کتابیں اور تصویریں خراب ہوگئی اس سے۔

حجۃ الاسلام روحانی: ہمارے اساتذہ ہر مہینے بیس تومن لیتے تھے۔ اور استعمال کردیتے تھے، اس وقت ضرورتیں بہت تھیں، اب کی نسبت۔ لیکن یہ عالم دین، یہ فاضل، اور یہ واعظ و متقی و پرہیزگار، یہ عبادت گزار ایک، دو، تین، چار مہینے پندرہ تومن جمع کر کے ہم طالب علموں کو اپنے گھر پر کھانے کے لیے مدعو کرتے تھے۔ اور وہ پیسے جو ان کا اپنا حق تھا، خود استعمال نہیں کرتے تھے۔

ڈاکٹر واعظ جوادی: والدہ رضوان اللہ تعالی علیہا کے بارے میں یہ کہ جب بھی وضو کرنے کے لیے جاتی تھیں، ییلاق کے پہاڑی علاقے میں جب ہم پانی لانے کے لیے جاتے تھے۔ ایک دن میرے مولا [بھائی/ آیت اللہ جوادی] گھر کے ہی کپڑوں میں بھاگ کر نکلے گھر سے تا کہ والدہ کے لیے پانی لے آئیں، میں بھی کمرے میں تھا کھڑکی سے کودا تا کہ میں پانی لے آوں میرا سر بھی لگ گیا کسی چیز سے، لیکن میں نے دیکھا کہ پانی اغا جان کے ہاتھ میں ہے اور لے جارہے ہیں۔ ماں نے دعا کی، اور ماں کی دعا کی برکت تھی کہ عبداللہ عبداللہ بن گیا۔

حجۃ الاسلام روحانی: انہوں نے جو بویا، وہ نکل آیا۔ کون؟ آیت اللہ جوادی ایسا ہونا لازمی ہے۔ نطفہ پاک بباید کہ شود قابل فیض / ورنہ ہر سنگ و گِلی لولو و مرجان نشود۔ ہم سال 25 شمسی کے طالب علم، تقریبا دس بندے تھے، اب صرف ایک دو بندے عالم دین بن گئے۔ باقی میں سے ایک جا کر ٹیچر بن گیا۔ ایک مینجر بن گیا۔ کوئی دفتر اسناد میں چلا گیا۔ کوئی استاد اور کوئی بیوپاری بن گیا۔ لیکن بعض اب تک رہ گئے ہیں۔ نہ صرف خود رہ گئے، بلکہ خود سے کچھ آثار بھی چھوڑ گئے ہیں۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: میں عبداللہ جوادی آملی، ولد ابوالحسن جوادی آملی، ولد فتح اللہ جوادی آملی، ولد ملا آغا جانی آملی ولد محمد حسن آملی ولد محمد جعفر آملی ہیں۔ یہ شجرہ نامہ ملا عبدالرزاق لاہیجی رضوان اللہ علیہ کی گوہر مراد نامی قدیم قلمی کتاب کی ابتدا میں لکھا گیا ہے۔ یہ قلمی کتاب ہمارے خاندان کی ثقافتی وراثتوں میں سے ہے۔ جب میں نے آمل میں ابتدائی تعلیم حاصل کرلی، یعنی جب میری چھٹی کلاس ختم ہوگئی، اور اس لیے کہ میرے مرحوم والد اور والدہ بھی چاہتے تھے، اور خود بھی دل سے دینی تعلیم کی طرف مائل تھا، اپنے اندر جدید دینی علوم کا شوق محسوس کیا۔
یہ دروازہ نہیں کھولیگا؟
لاک ہے۔
سوال ٹیکسٹ:
کیا یہ وہی کمرہ ہے جس میں آپ ہوتے تھے؟

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: جی ہاں، میں اسی کمرے میں ہوتا تھا۔ تقریبا سال 28 شمسی یعنی ساٹھ سال پہلے ہم اسی کمرے میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
خوش آمدید
سوال ٹیکسٹ:
اس وقت کے آپ کے ساتھی، اب کون ہیں؟

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: مرحوم شیخ جونی برھانی تھے، جو کہ مرحوم ہوگئے۔ ان کے علاوہ وہ لوگ جن کی عمر یا تعلیمی گریڈ تھوڑا کم تھا، مرحوم حبیبی تھے جو کہ وفات پاگئے۔ اور کیغبادی تھے جو کہ ایک دو گریڈ ہم سے پیچھے تھے، ان میں سے ایک ہی ہیں جو اب زندہ ہیں۔
سوال ٹیکسٹ:
آپ نے اس مدرسے کی بہت تعریف کی، کیا وجہ تھی اس چیز کی؟

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: اس مدرسے میں انسان جس توفیق کو محسوس کرتا تھا، وہ یہ تھا کہ ان ساتھیوں میں اکثر تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے، اور کبھی ترک نہیں کرتے تھے۔ اس مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے جو طالب علموں کو توفیق نصیب ہوتی تھی، وہ دوسرے مدرسوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ اس مدرسے میں جو اساتذہ تھے، دوسرے مدرسوں کی بنسبت زیادہ مسلط اور مزید پڑھے لکھے اور مزید سنجیدہ تھے۔ بعض اساتذہ اس مدرسہ سمیت دوسرے مدارس میں بھی پڑھاتے تھے، لیکن اس مدرسہ میں پڑھانے کی جو کوشش کرتے تھے، ان مدارس میں اتنی نہیں ہوتی تھی۔ اب شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ خود وہ اس مدرسے کی پاکی اور عظمت سے واقف تھے، یا اس مدرسے میں موجود کشش ان پر اثر انداز ہوئی۔ بہر حال اساتذہ جو عزت و احترام اس مدرسے کے طالب علموں کو دیتے تھے، دوسرے مدرسوں سے کافی زیادہ تھا۔ اس لیے جو توفیقات انسان کو اس مدرسے میں ملتی تھیں، دوسرے مدارس کی توفیقات سے زیادہ تھیں۔
میرے مرحوم والد کا ماننا تھا کہ جو استاد اچھے اخلاق کا مالک ہو، اور پہلا سبق اچھے سے پڑھائے اس کا اثر آخر تک باقی رہتا ہے۔ مرحوم والد کا ماننا تھا کہ مجھے پہلا سبق آمل شہر کے عظیم ترین اور اخلاقی ترین علما دین میں سے کوئی پڑھائے، مرحوم آیت اللہ ابوالقاسم فرسیو، زہد و تقوا میں اپنے زمانے کے مشہورترین شخص تھے۔
سوال ٹیکسٹ:
آپ جب یہاں تھے، کتنی عمر تھی تب آپ کی؟

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: میں، 1933 میں پیدا ہوا۔ اور ۔ ۔ ۔ تقریبا چودہ یا پندرہ سال کا تھا۔ یا شاید تقریبا سولہ سال کا۔
سوال ٹیکسٹ:
آپ کے مرحوم والد بھی ادھر ہوتے تھے؟

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: جی ہاں۔ ان کا آنا جانا تھا۔ لیکن ان کی اکثر پڑھائی مدرسہ جامع میں ہوتی تھی۔ ہاشمی میں۔ یہاں بہت کم ہوا کرتے تھے میرے خیال سے۔ لیکن مرحوم آیت اللہ غروی ہوا کرتے تھے، آیت اللہ فرسیو تھے، آیت اللہ حاجی مرزا ہاشم آملی تھے، آیت اللہ ضیاء الدین آملی، مرحوم تقی آملی کے بیٹے۔ یہ بزرگوار یہاں آتے تھے، مرحوم آیت اللہ ضیاء آملی دوسرے سے زیادہ اس مدرسے میں کوشش کرتے تھے۔ اور اس وقت کے روٹین کی پڑھائی کے علاوہ، چھٹی کے دنوں میں تفسیر پڑھاتے تھے، علم الحدیث پڑھاتے تھے۔ شیخ صدوق کی الامالی، پڑھاتے تھے یہاں۔ سورہ مبارکہ ہود پڑھاتے تھے چھٹی کے دنوں۔ یہ اس بزرگوار کے تفسیری اور حدیثی کام تھے۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: پتہ نہیں قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب بھی ہوگی یہاں؟
میرے بچپن میں سوویت اتحاد نے ایران پر حملہ کیا اور ایران کے شمال، شمال مغرب کو سوویت یونین نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اور یہ علاقے ان کے کمانڈوز کی نگرانی میں ہوتے تھے۔ مرکزی اور جنوبی علاقے بھی مغربی اور انگریزوں اور کچھ حصے امریکیوں کے قبضہ میں تھے۔ ان علاقوں کی سیکیورٹی اور مینجمنٹ انہی غاصبوں کے کمانڈروں کے ذریعے ہوتی تھی۔ کیونکہ مرکزی حکومت کا تختہ الٹ گیا تھا اور رضا شاہ بھاگ گیا یا بھگایا گیا تھا، اور مرکزی حکومت سے افراد چلے گئے یا انہیں جلاوطن کردیا گیا، وہ اس سوچ میں تھے کہ کون اس غلامی کی جگہ کو دوبارہ بھر دے۔

واعظ جوادی: میں چھوٹا تھا، جب میرے والد اور بھائی جس کی عمر تقریبا سات آٹھ سال تھی، اس وقت علما کو پکڑا کرتے تھے۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: وہ اپنے منصوبوں کے لیے تقریریں کرتے تھے، سیاسی اغراض و مقاصد کے بروشر بانٹنے تھے۔ پورے ایران میں ایسا ہوتا تھا۔

واعظ جوادی: اکثر علاقوں میں فوجی رکھے ہوئے تھے اور خواتین کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ کبھی تو ایک ایک مہینے تک میری مرحوم والدہ گھر سے نہیں نکلتی تھیں، کیونکہ سر سے چادر اتار دیتے تھے۔ ایک بندہ تھا آفیسر کلانتر کے نام سے، خدا انہیں رحمت کرے، ہمارا رشتہ دار تھا۔ وہ آ کر راستے میں کھڑے ہوجاتے تھے اور دوسرے فوجیوں کو بھیج دیتے تھے اور یہ بولتے تھے کہ میں یہاں کھڑا ہوں، تب میری مرحوم والد رضوان اللہ تعالی علیہا چادر پہن کر نکلتی تھیں اور مجھے نانی کے گھر لے کر جاتی تھیں جو اس محلے میں تھا۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: سوویت یونین کی شمال میں سرگرمی زیادہ تھی۔ کیونکہ ایرانی سرحدوں کے وسیع رقبے پر یہ سوویت یونین کے ساتھ مشترک تھے۔

واعظ جوادی: اسکول کے آخر میں، جب اس کی چھٹی کلاس تب ختم نہیں ہوئی تھی۔ ان کی صلاحیت، مختلف علوم میں زیادہ تھی۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: حزب تُودَہ ایران کے شمال مغرب میں اتنی سرگرم تھی کہ آذربائجان کو ایران سے تقریبا الگ کردیا تھا۔ صرف اس کا نقشہ اور نام ایران کے صوبوں میں شامل تھا۔ لیکن سیاسی، سماجی وغیرہ کے لحاظ سے حزب تودہ کی نگرانی میں تھا جو کہ سوویت یونین سے منسلک تھی۔

ایک کتاب ہے، گلستان سعدی کے نام سے۔ بہت سالوں سے میرے مولا [بھائی] کا تحفہ ہے میرے پاس۔ اس وقت تقی ارانی اور مرحوم طباطبائی کی کتابیں ہماری لائبریری میں موجود تھیں۔ یعنی اس دور کی کتابیں بھی پڑھا کرتے تھے۔ تا کہ یہ جان لیں کہ ڈیموکریٹس کون ہیں۔ مارکسسٹ کون ہیں۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: یہ لوگ آمل میں امام خمینی ہائی اسکول میں، جو کہ پہلے پہلوی ہائی اسکول کے نام سے جانا جاتا تھا، یہ لوگ باقاعدہ آکر اس میٹنگ کے بعد وہاں کو محاذ جنگ بنا گئے اور اسلحہ اٹھایا، اور لوگوں کے لیے سیکیورٹی مسائل بنا دیئے۔ اور بعض مومنین اس دن شہید ہوگئے۔

اصل طاقت مذہب اور مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ لیکن لوگوں کی اکثریت دیندار تھی اور وہ ان کے خلاف لڑتے تھے۔ ورنہ رضا خان نے عزاخانے خراب کردیئے تھے، اور اوقاف پر اسی کا قبضہ تھا، جماعت کے اماموں کو رضا خان نے پکڑ لیا تھا، مساجد کو رضا خان نے کھنڈر بنادیئے تھے۔ آمل میں مسجد آقا عباس، شہر کی مشہور مساجد میں سے ہے، جس کے بغل میں ایک چھوٹا سا دینی مدرسہ بھی ہے۔ یعنی کچھ کمرے ہیں اس میں۔ اسے باقاعدہ طور پر سیلری کا اسٹور روم بنا دیا گیا۔ شہر کی جامع مسجد کو عوامی اسٹور بنادیا تھا۔ یعنی اس وقت کیونکہ کارٹن وغیرہ نہین ہوتے تھے بلکہ سب چیزیں بوری میں رکھتے تھے لوگ، دکاندار طبقہ چینی اور قند کی بوریاں مسجد میں لے جا کر اسٹور کرتے تھے۔ مسجد میں قالین نہیں ہوتے تھے اور صرف انتخابات کے دنوں بچھاتے تھے۔

واعظ جوادی: کبھی میں نے انہیں غیر اخلاقی رویہ میں نہیں دیکھا۔ ہمیشہ انہیں نہایت ادب میں دیکھتا تھا۔ اور ایک جلال اور بزرگی کے مالک تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں ان سے ڈرتا بھی تھا۔ جب وہ گھر کے قریب ہوجاتے تھے میری شرارت ختم ہوجاتی تھی۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: آمل میں بہت سے ایسے افراد تھے جو مرحوم آیت اللہ ضیا اور مرحوم نائینی کے شاگرد تھے۔ ان میں سے دو افراد جو ہمیں یاد ہیں اور ہمارے دور میں زندہ تھے مرحوم آیت اللہ غروی تھے۔ مرحوم آیت اللہ فرسیو تھے جو کہ مرحوم آخوند خراسانی کے شاگرد تھے۔ انہیں اجازت تھی کہ عمامے میں رہیں۔ لیکن دیگر علما جو مرحوم ضیا اور مرحوم نائینی اور دیگر نجفی عظیم مراجع کے شاگر تھے، انہیں عمامہ پہننے کا حق حاصل نہیں تھا۔ اور مرحوم آیت اللہ غروی رہ جن کے پاس ہم قوانین الاصول پڑھتے تھے، وہ تبلیغ دین کا واحد راستہ یہ جانتے تھے کہ ہر دن عصا اٹھا کر کسی سڑک کے پاس سے گزرے تا کہ لوگ صرف اس لباس،عمامہ، عبا کو دیکھ سکیں اور یہ دیکھنے سے ان کا دین محفوظ رہ سکے۔ صرف یہی کام تھا ان کا۔

واعظ جوادی: ایک بار وہ حضرت، مرحوم آیت اللہ غروی کے گھر میں پڑھائی کے بعد آرہے تھے، میں تیسری جماعت میں تھا، ہمارا دوڑ کا مقابلہ چل رہا تھا، انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں دوڑ رہا ہوں، اور دوڑ کا مقابلہ چل رہا ہے، ہمارے ورزش کے ٹرینر جناب لطیفی صاحب مرحوم تھے۔ میں جب گھر پہنچا انہوں نے کہا اسماعیل برواشا، ہماری زبان میں، یعنی یہاں آو، تم جتنا بھی دوڑوگے، کتے سے تیز تو نہیں دوڑ سکتے نا، میں نے کہا: نہیں۔ کہنے لگا: تو بیٹھ کر اپنی پڑھائی کرو۔ میں نے کہا: سر آنکھوں پر۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: ان دنوں دینی مدرسہ جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا، مگر یہ کہ خدا عنایت کرتا۔ اگرچہ ہمیشہ خدا کی ہی عنایت ہوتی ہے، لیکن کبھی ظاہر ہوتی ہے کبھی خفیہ۔ ورنہ ما بکم من نعمۃ فمن اللہ۔ دینی علوم کے حوالے سے ہمارے اندر ایک خاص کشش پیدا ہوگئی، ہمارے مرحوم والد اس کے باوجود کہ پہلے سے ہی خبیث پہلوی کی حکومت سے بہت دباو میں تھے، لیکن پھر بھی اپنی روحانیت باقی رکھی، ان کی آرزو تھی کہ میں دینی طالب علم بنوں۔ میری مرحوم والدہ رضوان اللہ تعالی علیہما، دونوں کی یہ کوشش تھی کہ ہم دینی طالب علم بنیں۔ اور خود ہم میں یہ شوق موجود تھا۔ اس لیے اس عمل کو خدا کی عنایت کے علاوہ کسی دوسری چیز کی جانب نہیں پلٹایا جاسکتا، کیونکہ سہولیاتی وسائل نہیں تھے، کوئی روشن مستقبل نظر آنا مشکل تھا تب۔

واعظ جوادی: میرے آقا [بھائی] نے جب شادی کرلی۔ ایک دن کوہستان میں کہنے لگے کہ وہ فیملی سمیت قم جانا چاہتے ہیں۔ مرحوم والدہ آگئیں کمرے میں اور دیکھا کہ میرے مولا مطالعہ کر رہے ہیں۔ آکر کتاب بند کرکے کہنے لگی: بس کافی ہے، تم مجتہد بن گئے، اتنا کیا پڑھتے رہتے ہو۔ کہنے لگے: ٹھیک ہے امی جان۔ کہتی تھی: اگر فیملی کے ساتھ قم جاوگے تو انہی کے ساتھ جکڑے رہوگے، تمہاری فیملی ادھر ہی رہے، تم جا کر قم تعلیم حاصل کرو۔ کہنے لگا: سر آنکھوں پر امی جان۔ ماں باپ کی ایسی فرمانبرداری کرتا تھا میرا مولا، کہ بس انتہا تھی۔

حجۃ الاسلام روحانی: انسان کی یا تو میموری اچھی ہوتی ہے، باصلاحیت نہیں ہوتا، علمی لحاظ سے عرض کر رہا ہوں۔ ہم میں سے بعض لوگ باصلاحیت تھے، لیکن ہماری میموری اچھی نہیں تھی۔ اور بعض کی میموری اچھی تھی، لیکن ذہین نہیں تھے۔ ذہانت سے میری مراد یہ ہے کہ استاد پڑھاتے تھے یہ شاگرد سمجھ جاتا تھا، لیکن اسے محفوظ نہیں کرسکتا تھا ذہن میں، میموری اچھی نہیں تھی۔ بعض شاگرد دیر سے سمجھ جاتے تھے لیکن محفوظ کردیتے تھے، ان کی میموری اچھی تھی، بہت اچھی تھی، لیکن یہ بزرگوار آیت اللہ جوادی آملی، ان کی میموری بھی اچھی ہے اور باصلاحیت اور ذہین بھی ہیں۔

آیت اللہ علامہ جوادی آملی: کہتے ہیں کوئی شخص کسی کا عاشق تھا، اور اس کی جدائی میں مغموم تھا، رات کو جا رہا تھا کہیں۔ رات کے چوکیدار نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے پوچھنے لگے یہاں کیا کر رہے ہو اس وقت؟ اور ایک مجرم کی طرح اس کا پیچھا کیا۔ وہ بھاگ کر کسی باغ میں چلا گیا تا کہ رات کے ان چوکیداروں سے بچ سکے۔ جیسے باغ کے اندر جاتا ہے، دیکھ لیتا ہے کہ اس کا معشوق بھی اسی باغ میں ہے اور اپنی انگوٹھی ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ شخص اس رات کے پہریدار کے لیے دعا کرنے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ خدا کے ہاں کیا ہورہا ہوتا ہے۔ پس بد مطلق نباشد در جہان

بشکریہ: البلاغ ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان


لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .