پیر 28 اپریل 2025 - 20:12
آیت اللہ کوہستانی کے زہد و تقویٰ کی ایک پر اثر حکایت

حوزہ/ 28 اپریل 1972 (۱۳ ربیع الاول ۱۳۹۲ قمری) کو ایک ایسی عظیم روحانی شخصیت نے دنیا سے رخت سفر باندھا، جسے علم و عرفان، زہد و تقویٰ اور سادگی و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ مانا جاتا تھا۔ آیت اللہ حاج شیخ محمد کوہستانی مازندرانی، جنہیں "آقاجان کوہستانی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نہ صرف ایک بزرگ فقیہ بلکہ ایک مجسمۂ اخلاق و عرفان تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، 28 اپریل 1972 (۱۳ ربیع الاول ۱۳۹۲ قمری) کو ایک ایسی عظیم روحانی شخصیت نے دنیا سے رخت سفر باندھا، جسے علم و عرفان، زہد و تقویٰ اور سادگی و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ مانا جاتا تھا۔ آیت اللہ حاج شیخ محمد کوہستانی مازندرانی، جنہیں "آقاجان کوہستانی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نہ صرف ایک بزرگ فقیہ بلکہ ایک مجسمۂ اخلاق و عرفان تھے۔

آیت اللہ کوہستانی نے ابتدائی تعلیمات اپنے آبائی علاقے کوهستان (مازندران) میں حاصل کیں اور پھر بابل، مشہد اور نجف اشرف کے حوزات علمیہ میں اپنی علمی پیاس بجھائی۔ انہیں آیات عظام سید ابوالحسن اصفهانی، میرزای نائینی اور آقا ضیاءالدین عراقی جیسے بزرگوں سے اجازۂ اجتہاد حاصل ہوا۔ علامہ طباطبائی نے، جو کہ مشہور تفسیر "المیزان" کے مصنف ہیں، ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جب میں نے آیت اللہ کوہستانی کو آیت اللہ میلانی کے گھر میں دیکھا، اس کے بعد کبھی انہیں فراموش نہ کر سکا۔

بزرگ علماء جیسے آیت اللہ العظمی گلپایگانی، آیت اللہ مرعشی نجفی اور آیت اللہ سید عبدالکریم کشمیری نے ان کی زہد و تقویٰ کی گواہی دی۔ آیت اللہ نوری همدانی کے بقول، ان کی زندگی سراپا سادگی اور خدا پرستی کی تصویر تھی۔

تقویٰ اور پرہیزگاری کی روشن مثالیں

آیت اللہ کوہستانی کی زندگی کے کئی پہلو زہد و ورع کی روشن علامت ہیں۔ وہ صرف اسی غذا کو استعمال کرتے تھے جو ان کی وراثتی زمین سے حاصل ہوتی تھی، اور دوسروں کی چیزوں سے حتی المقدور پرہیز کرتے تھے۔ ایک واقعہ میں، جب کسی نے انہیں ایک گھوڑا فراہم کیا تاکہ وہ جنازے کی نماز کے لیے دوسرے گاؤں جائیں، انہوں نے گھوڑے کی ملکیت کے بارے میں سوال کیا۔ جب معلوم ہوا کہ اس گھوڑے میں ایک یتیم بچے کا بھی حصہ ہے، تو انہوں نے اس پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور پیدل روانہ ہو گئے۔

بے معنیٰ گفتگو سے اجتناب

ان کا مشہور قول تھا کہ لغو اور بے فائدہ گفتگو انسان کی روح کو مردہ کر دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی طلبگی کے دور میں ایک ہم حجرہ دوست کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ بغیر ضرورت کے کوئی غیر ضروری بات نہ کریں گے۔ اس عہد پر وہ برسوں عمل پیرا رہے۔

مرگ اور عالم قبر کے بارے میں نصیحتیں

آیت اللہ کوہستانی موت اور قبر کے بارے میں اکثر گفتگو کرتے اور فرماتے کہ حقیقی کامیابی اسی شخص کی ہے جو اس دنیا میں عمل کا ذخیرہ اکٹھا کر لے۔ ان کا کہنا تھا کہ موت ایسی ہے جیسے ایک گندا لباس اتار کر صاف لباس پہن لینا ہو۔ انہوں نے خاص طور پر طلبہ کو تاکید کی تھی کہ دعائے "رضیت باللہ رباً..." کو یاد کرلیں اور ہر نماز کے بعد پڑھیں تاکہ قبر میں نکیر و منکر کے سوالات کا سامنا کرتے وقت زبان خود بخود حق کا اقرار کرے۔

دنیوی مال کی بے قدری

آیت اللہ کوہستانی دنیاوی زینتوں کی طرف میلان کو ناپسند کرتے تھے۔ ایک واقعے میں جب انہوں نے بازار میں پھل دیکھ کر فوری خریداری کی، تو بعد میں خود کو ملامت کرتے ہوئے کہا کہ: "شیخ محمد! تم اتنی جلدی دنیا کی چمک دمک سے متاثر ہو گئے؟"

دعائے ثابت قدمی اور عشق ولایت

ان کا معمول تھا کہ ہمیشہ دعا کرتے: "ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هدیتنا..." تاکہ ہدایت پر ثابت قدم رہیں۔ ولایت اہل بیت (علیہم السلام) کے بارے میں ان کا نظریہ تھا کہ ہم اگرچہ کامل شیعہ نہ ہوں، لیکن امیر المؤمنین علی (ع) کے محب ضرور ہیں اور یہی محبت نجات کے لیے کافی ہے۔

امام زمانہؑ کے دیدار کا راز

جب ان سے ملاقات امام زمانہؑ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: "اگر ہم اچھے بن جائیں تو امام خود ہماری طرف آئیں گے۔"

شاگرد اور علمی ورثہ

ان کے شاگردوں میں شہید حجت الاسلام سید عبد الکریم ہاشمی نژاد، آیت اللہ ابوالحسن ایازی اور آیت اللہ حسین محمدی لایینی جیسے نامور علماء شامل تھے، جنہوں نے ان کے مدرسے میں تحصیل علم کی۔

آیت اللہ کوہستانی 28 اپریل 1972 کو دار فانی سے رخصت ہوئے اور ان کی وصیت کے مطابق حرم مطہر امام رضا علیہ السلام میں دفن کیے گئے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha