۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علامہ امینی

حوزہ/آپ کے تبلیغی اور علمی کارناموں کی فہرست طویل ہے آپ ہمیشہ ملک کے مختلف علاقوں میں تبلیغ کیلئے جاتے تھے ۔اس کے علاوہ ملک اور بیرون ملک سیمیناروں میں شرکت کرتے  اور اپنے تحقیقی مقالے پڑھاکرتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بایوگرافی 
میں ابراہیم امینی فرزند حسین ۱۳۰۴  شمسی  میں نجف آباد میں  متولد ہوا  میں چھ سال کا تھا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا میں نے چھٹی جماعت تک پرایویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی اور اسی زمانے سے مجھے دینی علوم کا شوق تھا ۔بالآخرہ ۱۳۲۱ شمسی میں دینی علوم کے حاصل کرنے کی غرض سے قم چلا آیا تین مہینے قم میں رہا وہ دور میرا  خوبصورت دور تھا میں امام خمینی علیہ الرحمہ کے درس اخلاق میں شرکت کیا کرتا تھا ۔اسی زمانے میں گرمیوں کی چھٹیاں ملیں تو مجبورا نجف آباد لوٹ گیا ۔گرمیوں کی چھٹیوں میں نجف آباد ہی میں پڑھتا رہا ۔شاہ کے دور میں نجف آباد میں گذر بسر بڑی مشکل سے ہوتی تھی اس لئے اصفہان چلاگیا مگر وہاں بھی یہی حال تھا لیکن رہائش اور ماہر اساتید کی سہولت تھی خاص طور سے سطحیا ت کیلئے اصفہان کے مدارس بہت غنی تھے پہلے میں مدرسہ نوریہ اس کے بعد مدرسہ کاسہ گران اور آخر میں مدرسہ جدہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا ۔
آگے کی کہانی
۱۳۲۶ میں آیت اللہ امینی اعلی تعلیم کیلئے قم چلے آئے تاکہ قم کے استادوں سے بھی کسب فیض کرسکیں وہاں آپ نے فقہ ، اصول اور حکمت کے ماہر استادوں سے تعلیم لی اور اسی کے ساتھ تہذیب نفس اور اخلاقی دروس میں میں مشغول رہے  اور تدریس بھی کرتے رہے۔
آپ کے اساتید اور دوست 
آیت اللہ ابراہیم امینی اپنی تحصیلات میں کئی ایک علماء اور اساتید کی خدمت میں شرفیاب ہوئے آپ نے شیخ رمضان علی ملایی،شیخ ہاشم جنتی، سید محمد ہاشمی قہدیجانی جیسے ماہر اساتید سے مقدمات کی تعلیم لی۔آپ نے شرح لمعہ اور معالم شیخ محمد حسن سے پڑھی اور منطق منظومہ کیلئے آپ نے آقا صدر ہاطلی کوہپیمایی کے درس کا انتخاب کیا اور رسائل آپ نے سید عباس دہکردی اور حیدر علی برومندسے پڑھی اور قوانین آپ نے سید علی اصغر محقق اور مکاسب سید علی سلطانی ، حاج آقای بہاالدینی اور آقائے مجاہدی سے پڑھا۔کفایہ کی جلد اول آپ نے آیت اللہ مرعشی نجفی سے اور جلد دوم آیت اللہ گلپائیگانی سے پڑھی منظومہ سے حکمت کے حصہ کو آپ نے علامہ محمد حسین طباطبائی سے حاصل کیا اور علامہ طباطبائی کے خصوصی درس جو  شب جمعہ اور جمعہ میں ہوتے تھے علامہ امینی اس میں با ضابطہ شرکت کرتے تھے آپ نے اسفار ،تمہید القواعد،اور بحار کی چند جلد اور منطق شفا وہیں پڑھیں ۔اس کے بعد  آپ نے آیت اللہ بروجردی اور آیت اللہ امام خمینی کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی ۔آپ نے اپنے دوران تحصیل بہت سارے دوست احباب بنائے جس کے ساتھ آپ باضابطہ مباحثہ [پڑھے ہوئے درس پر ڈسکشن]کرتے تھے ۔آپ کے خاص الخاص  دوستوں میں سید کمال  الدین موسوی،شیخ عبد القاسم محمدی ، شیخ عبد اللہ جوادی آملی ، شیخ عبا س ایزدی کا نام لیا جاسکتا ہے۔وہ کبھی فریضہ تدریس سے غافل نہیں ہوئے آپ نے کافی کتابیں تدریس کی ہیں۔
علمی اور  ثقافتی کارنامے
آپ کے تبلیغی اور علمی کارناموں کی فہرست طویل ہے آپ ہمیشہ ملک کے مختلف علاقوں میں تبلیغ کیلئے جاتے تھے ۔اس کے علاوہ ملک اور بیرون ملک سیمیناروں میں شرکت کرتے  اور اپنے تحقیقی مقالے پڑھاکرتے تھےکہ ان میں سے کئی مقالے زیور چاپ سے آراستہ  بھی ہوچکے ہیں۔آپ نے ۱۳۴۴ شمسی میں مشہور کتاب"دادگستر جہان"لکھی آپ نے یہ کتاب اس وقت لکھی جب عقیدہ مہدویت پر حملے ہوا کرتے تھےاس وقت کئی جوانوں نے آپ سے خواہش کی کہ وہ امام زمانہ کی حیات سے آشاو ہونا چاہتے ہیں۔
تصنیف و تالیف 
آپ کی مشہور تالیفات میں چند یہ ہیں جس میں سے کئی ایک کتابیں دنیا کی زندہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں :
۱۔بررسی مسائل کلی امامت
۲۔ہمہ باید بدانند
۳۔بانوی نمونہ اسلام فاطمہ زہرا
۴۔اسلام اور تمدن غرب
۵۔آموز ش دین  چہار جلدی
۶۔آئین ہمسر داری
۷۔آئین تربیت
۸۔خود سازی
۹۔دروس من الثقافۃ الاسلامیہ
۱۰۔انتخاب ہمسر
۱۲۔اسلام و تعلیم و تربیت
۱۳۔آشنائی بامسائل کلی اسلام
۱۴۔وحی در ادیان آسمانی
۱۵۔در کنفرانسہا
۱۶۔تعلیمات دینی دورہ ابتدائی ، راہنمائی،تحصیلی
۱۷۔الگوہای فضیلت
۱۸۔خدا شناسی
۱۹۔پیامبر شناسی و پیامبر اسلام
۲۰۔زن در اسلام
۲۱۔نماز نور چشم پیامبر اعظم
۲۲۔مہم ترین واجب فراموش شدہ
۲۳۔دادگستر جہان
۲۴۔امامت و امامان
۲۵۔تربیت
۲۶۔پرتوی از اسلام
۲۷۔گفتارہای اخلاقی و اسلامی
۲۸۔جہاد بانفس
۲۹۔انضباط اقتصادی
۳۰۔عدالت در اسلام

تدریس:
آپ خود کہتے ہیں کہ میں نے حوزہ میں فقہ و اصول اور کلام کی تدریس کی ہے لیکن انقلاب اسلامی  کی کامیابی کے آغاز میں  اسلامی حکومت بن جانے کی وجہ سے یونیورسٹی کے نوجوان اور پڑھے لکھے افراد حوزہ کی جانب رخ کرنے لگےتاکہ اسلامی نظریات سے آشنا ہوں ۔وہ ہر چیز میں یہاں تک کہ ورزش اور کشتی کو اسلامی نگاہ سے دیکھنا چاہتے تھے۔شعبہ تعلیم و تربیت اور یونیورسٹی کے اساتید اور شاگردوں میں یہ شوق بڑھتا جارہا تھا مگر اس وقت تک حوزہ علمیہ ان سوالات کا متقن جواب دینے کیلئے پوری طرح تیار نہیں تھا۔کیونکہ یہ ساری باتیں اس وقت تک حوزوی دروس کا حصہ نہیں تھیں۔نئی حکومت کے استحکام اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق دین کی جوابدہی کیلئے ہمیں دو چیزوں کی ضرورت تھی ۱۔جدید علوم سے مربوط مسائل میں تحقیق اور  درسی متون کی تیاری ۲۔اور ملک بھر میں سیمیناروں میں شرکت کے ذریعہ موجودہ دور کے اٹھتے ہوئے شبہات اور سوالات کا قانع کنندہ جواب  بیرونی ملک کے سفر  بھی اسی غرض سے تھےحوزہ میں درس و تدریس  کرنا یا نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری سنبھالنا  ان میں سےکسی  ایک کو چننا تھا اکثر علماء نے حوزہ میں درس و تدریس کو اہمیت دی مگر میں  نے دوسری راہ چننا لازمی سمجھا۔اس لیے کہ حوزہ میں استادوں کی کمی نہ تھی لیکن   نئے علمی اور ثقافتی تقاضوں کو پورا کرنا ضروری تھا خاص طور سے تعلیم و تربیت  اور جوانوں کے مسائل اور گھر زندگی کے مسائل و مشکلات کی جانب توجہ ضروری تھی اس لئے میں نے  اپنا سارا وقت جدید مسائل کی تحقیق میں لگادیا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کتابیں لکھنے لگا ایران کے مختلف شہروں کا سفر کرتا رہا اور کلچرل پروگراموں میں اور سیمیناروں میں شرکت کرتا رہا کبھی یہ سفر پندرہ دن تو کبھی چالیس تک  کھنچ جاتے تھے لیکن میں اس روش تبلیغ کو انتخاب کرنے پر شرمندہ نہیں ہوں ۔
علامہ طباطبائی کی پر برکت علمی نشستیں
علامہ کی علمی نشستیں معمولا جمعرات اور جمعہ کو ہوتی تھیں اور ہر ہفتہ کسی نہ کسی کے گھر یہ جلسات رکھے جاتے تھےجو لوگ ان علمی نشستوں میں شرکت کرتے تھےوہ یہ ہیں:
شیخ حسین علی منتظری، شیخ مرتضی مطہری، سید محمد بہشتی، سید عباس ابوترابی قزوینی،شیخ عبدالکریم نیری،شیخ ناصر مکارم شیرازی،شیخ جعفر سبحانی،شیخ عباس ایزدی نجف آبادی،شیخ علی اصغر علامہ تہرانی،شیخ علی قدوسی نہاوندی،سید مرتضی جزائری تہرانی،شیخ عبد الحمید شربیانی،شیخ محمد تقی مصباح یزدی،شیخ عبد اللہ جوادی آملی،شیخ حسن حسن زادہ آملی،شیخ مہدی حائری تہرانی،شیخ یحیی انصاری شیرازی،شیخ ابو القاسم محجوب شیرازی،شیخ اسماعیل صائینی،اویسی قزوینی،محمد مفتح ہمدانی۔یہ جلسے بہت مفید اور پر برکت ہوا کرتے تھےان جلسات میں مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی تھی فلسفی، عرفانی،اخلاقی ، تفسیری،علمی، حدیثی ، تاریخی اور فقہی مباحث زیر بحث آتے تھے۔شہید مطہری کی "اصول فلسفہ و روش ریالیسم"انہی جلسات کی یادگار ہے یہ کتاب شہید مطہری کے عالمانہ اور محققانہ حاشیے کے ساتھ پانچ جلدوں میں چاپ ہوئی ہے۔یہ جلسات علامہ کی عمر کے آخری دور تک چلتے رہے لیکن افراد بدلتے رہتے تھے مگرمیں جب تک علامہ قید حیات رہے  تک پابندی سے شرکت کرتا رہا اور اسے اللہ کی توفیقات میں سے ایک سمجھتا ہوں ۔
آیت اللہ ابراہیم امینی کی سیاسی زندگی خودانہی کی زبانی
۱۳۴۱ شمسی کی بات ہے جب میں ایک مخفیانہ جلسہ میں شریک ہوا جس میں  حاج شیخ عبد الکریم ربانی شیرازی،شیخ علی مشکینی، شیخ علی قدوسی، شیخ حسین علی منتظری، شیخ محمد تقی مصباح یزدی،شیخ مہدی حائری، شیخ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی، شیخ مہدی حائری تہرانی، شیخ احمد آذری قمی، سید محمد خامنہ ای، سید علی خامنہ ای  موجود تھے۔اس گروہ کا ایک مفصل اساس نامہ تھا جو ان اہداف کو لیے ہوئے تھا۔
۱۔حوزہ علمیہ قم کی اصلاح
۲۔اسلام کی تبلیغ
۳۔امر بالمعروف و  نہی عن المنکر
۴۔اسلام کے سیاسی ،سماجی اور معیشتی احکام کا اجراء 
یہ جلسہ مکمل طور پر مخفیانہ اور منظم تھاہر ایک کو ان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں تھی بعد میں یہی گروہ جامعہ مدرسین کی بنیاد بنا ۔
۱۳۴۲ شمسی میں شاہ کی حکومت کے خلاف جنگ کا آغاز ہوچکا تھا اور اپنی ہویت کو آشکار کرے بغر۲ یہی گروہ امام خمینی  کی خدمت میں لگا ہوا تھا اور ان کی حمایت کرتا تھا۔اعلانات اور اشتہارات کو چھاپنا ، علماء کو ہمکاری کیلئے ابھارنا، لوگوں کو دھرنے کیلئے تیار کرنا ،دوسرے شہر ٹاون اور گاوں کا سفر کرنا اور لوگوں کو مختلف علاقوں میں بھیجنا،حکومت کے خلاف اعلامیوں پر علماء سے دستخط لینا یہ سب اسی گروہ کا کام تھا میں بھی اسی گروہ کا حصہ تھا اور کبھی اکیلے ہی اپنے طور پر ان امور کو انجام دیتا تھا۔
جب پندرہ خرداد۱۳۴۲ کو امام خمینی کو گرفتار کیا گیا اس کے بعد میں لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے اور قم اور مختلف شہروں کے علماء کو امام خمینی کی حمایت کیلئے تیار کرنے میں لگا رہتا تھا ۔ جب امام خمینی کوپہلے  ترکیہ پھر نجف اشرف تبعید کردیا گیا تو یہ گروہ امام سے ارتباط میں تھا اور لوگوں کو امام کی تحریک سے جوڑے رکھتا تھا میں بھی ان تمام امور میں دوسرے افراد کے ساتھ سرگرم عمل رہا۔
۱۳۴۲ ہی میں جب امام کو گرفتار کیا گیا تھا اس وقت تہران کے کچھ  علماء امام کی آزادی کیلئے نکل پڑے تو میں بھی انہی کے ساتھ تھا  انہی کے ساتھ لوگوں میں جلسات کو تشکیل دیتا تھا ۔ اعلامیہ چھاپنے میں مدد کرتا وغیرہ
میں ان گیارہ لوگوں میں تھا جوآیت اللہ  محسن حکیم کی رحلت کے بعد امام خمینی کی مرجعیت کے اعلان پر دستخط کیے تھے  جب امام نجف سے پاریس گئے تو میں بھی امام سے ملنے پاریس گیا اور ایران کے مسائل پر آپ سے بات چیت کی۔
انقلاب کی کامیابی کے بعدجامعہ مدرسین کے اعضا کےساتھ اور کبھی  اکیلے ہی میں بھی امام کے ساتھ رہا اور انقلاب کی کامیابی کے پندرہ دنوں بعد امام کی جانب سے مجھے اس کام پر مامور کیا گیا کہ میں ہرمزگان بندر عباس اور کیش کے مسائل کی رسیدگی کروں وہاں نو بنا  ادارات اور فوج کی حالت کو سنبھالوں اور علمائے اہل سنت اور حوزات علمیہ کے امور کی رسیدگی کروں۔ ۔
جب ہرمزگان سے لوٹا تو امام نے مجھے مازندران اور خاص طور سے ترکمن بھیج دیا تاکہ وہاں کے امور کی رسیدگی کروں  اور مذکورہ مقامات پر  امام کی جانب سے شہریہ کی تقسیمی کا کام میرے ہی حوالے تھا۔ امام کی جانب سے عفو کا فرمان لیکر ہمدان ، ملایر، نہاوند اور نائین بھی گیا۔
آٹھ آٹھ سالہ تین دور وںمیں  چہار محال بختیاری کی جانب سے مجلس خبرگان رہبری کا نمائندہ رہا مگر چوتھے دورہ میں اصرار کے باوجود میں نے عہدہ  قبول نہیں کیا کیوں کہ اب  مجھ میں کام کی ویسی طاقت باقی نہیں رہی تھی ۔
یہ قصہ اور بھی طولانی ہے انقلاب اسلامی ایران کے آغاز سے لیکر اس کے پروان چڑھنے تک  آپ کی خدمات بہت زیادہ ہیں  آپ سالہا سال سے مسجد اعظم کے پیش امام اور قم مقدس کے امام جمعہ تھے۔
آج ۲۵ تاریخ ۳۰ شعبان کو آپ نے پربرکت زندگی گذارنے کے بعد آپ آپ کو خلق حقیقی کےحوالے کردیا۔

مترجم: محمد عباس مسعود حیدرآبادی

منبع: آفیشل سائٹ، آیت اللہ امینی 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .