حوزہ نیوز ایجنسی|مجلس خبرگان رہبری ،جامعہ مدرسین اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے اہم رکن آیة اللہ ابراہیم امینی نجف آبادی کی رحلت سے پوری دنیا میں علم دوست افراد کے یہاں غم والم کی لہر دوڑ گئی۔٩٥برس کی با برکت عمر پانے والے آیة اللہ امینی کی رحلت پر مولانا سید حیدر عباس رضوی نے بیان کیا کہ مسجد اعظم کے محراب کی زینت رہے آیة اللہ امینی ماہ خدا میںحقیقی مہمان خدا قرار پائے۔
پانچ برس کے سن میں باپ کے سایۂ عاطفت سے محروم ہونے والے مرحوم آیة اللہ ابراہیم امینی اپنی ابتدائی تعلیم ایک غیر سرکاری اسکول میں حاصل کرتے رہے اور پھر درجۂ ششم کے بعد ماں سے اجازت لے کر حوزۂ علمیہ قم کا رخ کرتے ہیں جہاں امام خمینی جیسے بزرگ اساتذہ کے سامنے آپ نے زانوئے ادب تہہ کیا اور خود کو ممتاز علماء کی فہرست میں شامل کرنے کا شرف حاصل کیا۔امام خمینی کے سلسلہ میں مرحوم آیة اللہ فرماتے تھے:''ہمیشہ امام خمینی کا رویہ ،تمام شاگردوں سے یکساں اور مساوی ہوتا تھا اور کبھی بھی آپ نے کسی شاگرد کو اپنے ذاتی خواہشات کے سبب ،دوسروں پر فوقیت نہ دی۔اور نہ ہی کبھی یہ دیکھنے کو ملا کہ آپ اپنے شاگردوں میں امتیاز برتیں۔آپ اپنے قدیم اور جدید دونوں طرح کے شاگردوں سے یکساں پیش آتے تھے۔اس صفت نے میرے وجود میں امام سے میری محبت میں مزید اضافہ کیا''۔امام خمینی کے علاوہ آپ نے آیة اللہ العظمیٰ بروجردی، شیخ رمضان علی ملائی،شیخ مرتضیٰ اردکانی،آقائے بہاء الدینی،آیة اللہ مرعشی،آیة اللہ گلپائیگانی،علامہ طباطبائیوغیرہ سے کسب فیض کیا۔
آپ کے ساتھیوں اور دوستوں میں خصوصیت کے ساتھ استاد شہید مطہری،شہید بہشتی، شیخ عبد القاسم محمدی،شیخ عباس ایزدی اور آیة اللہ العظمیٰ جوادی آملی کا نام لیا جا سکتا ہے۔
علم وعمل سے سرشار آیة اللہ ابراہیم امینی ہمیشہ علمی وتبلیغی سرگرمیوں میں پیش پیش نظر آتے۔ایران سمیت بیرون ممالک میں آپ نے مختلف سیمینار می شرکت کی ۔آپ کے تحقیقی مقالات آج بھی دستیاب ہیں ۔دسیوں کتاب کے مؤلف رہے آیة اللہ امینی کی متعدد کتب کا فارسی سے اردو زبان میںبھی ترجمہ ہوا۔جسے اردو داں حضرات پڑھ کر آپ کی علمی جلالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔آیة اللہ حکیم کی رحلت کے بعد امام خمینی کی مرجعیت کی تائید کرنے والے١١افراد میں ایک مرحوم آیة اللہ امینی بھی تھے۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اضافہ کیا حوزہ علمیہ قم میں دوران تحصیل پہلے تو مصلائے قدس میں آپ کی امامت میں نماز جمعہ ادا کرنے کاشرف ملا جہاں آپ کے ذریعہ بیان ہونے والے خطبہ ہائے جمعہ آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔اس کے بعدایک طویل عرصہ تک کہنسالی اورناتوانی کے باجود آپ نماز مغربین کی امامت کے لئے حرم معصومہ سلام اللہ علیہا سے متصل مسجد اعظم تشریف لاتے۔علماء وافاضل نیز مومنین کی بڑی تعداد آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرتی۔بعد نماز تا دیر محراب میں بیٹھ کر نماز گزاروں سے محو گفتگو رہتے کبھی استخارہ تو کبھی کسی کی راہنمائی کرتے ہی آپ کو پایا جاتا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ کو مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں ۔اس انقلاب کی کامیاب مہم میں آپ امام خمینی کے مدافع رہے۔آپ رہبر انقلاب کی ہمہ جہت حمایت فرماتے جو آپ کی بصریت وآگہی اور انقلابی فکر کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔اس اسلامی انقلاب کے عظیم حامی اور پشت پناہ کی رحلت یقیناً ایک بڑا خسارہ ہے۔شب اول ماہ رمضان١٤٤١ ہجری میں اس مرد مجاہد کی خبر رحلت کے بعد بے ساختہ یہ کہنا پڑا کہ انقلاب کا ایک اور ستون منہدم ہو گیا۔لیکن ہمیں مایوسی اور نامیدی ہرگز نہیں ۔کریم پروردگار غیب سے اس خسارہ کی تلافی فرمائے گا۔اس غم والم کے موقع پر حوزہ ہائے علمیہ،رہبر معظم انقلاب اور مرحوم آیة اللہ امینی کے خانوادہ سمیت تمام ایرانی عوام کو تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہیںاورآپ سے مرحوم کے علو درجات کی خاطر قرآن مجید کی تلاوت کی گزارش ہے۔
تحریر:مولانا سید حیدر عباس رضوی