حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمٰی جعفر سبحانی نے جامعۃ المصطفٰی العالمیہ کے جدید تعلیمی سال کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:انقلاب اسلامی سے پہلے حوزہ علمیہ قم میں غیر ایرانی طلاب کی تعداد بہت کم تھی لیکن آج انقلاب اسلامی ایران کی برکتوں سے دنیا بھر سے علوم اسلامی کے پیاسے اس عظیم یونیورسٹی میں موجود ہیں۔
آیت اللہ جعفر سبحانی نے گذشتہ روز مدرسہ امام خمینیؒ میں قدس نامی کانفرنس ہال میں جامعۃ المصطفٰی العالمیہ کے جدید تعلیمی سال کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے تبلیغ کو اہم اسلامی اصولوںمیں سے قرار دیتے ہوئے کہا:جو چیز اسلام کو آگے لےکر گئی ہے وہ تبلیغ ہے۔
انہوں نے کہا:اسلام کبھی جنگوں سے نہیں پھیلاہے۔جنگیں صرف تبلیغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تھیں۔
آیت اللہ سبحانی نے کہا:مسیحیت میں خوشخبری اور بشارت سے استفادہ کیا جاتا ہے لیکن ہم قرآنی آیات سے الہام لیتے ہوئے تبلیغ سے استفادہ کرتے ہیں۔
اس مرجع تقلید نے کہا: تبلیغ کے مؤثر واقع ہونے کے لیے خودسازی شرط ہے اور خودسازی کے دو مرحلے ہیں۔پہلا مرحلہ علمی ہے اگر مبلغ کے پاس علم نہ ہو تو اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہو گا۔
انہوں نے کہا:ایک مبلغ کو علوم اسلامی کے اصولوں سے مکمل آگاہ ہونا چاہیے کیونکہ آج ہمارے سارے مخاطب کہ جن کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے مکتب اسلام کو صرف علمی بنیادوں پر قبول کرتے ہیں۔
آیت اللہ جعفر سبحانی نے امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:اگر ایک عالم چاہتا ہے کہ وہ لوگوں پر اثر انداز ہو تو اسے اپنے زمانے اور اس کے حالات سے باخبر ہونا چاپیے اور سو سال قبل لکھی جانےوالی تبلیغی کتابیں اس زمانے کے حالات سے سازگار تھیں آج وہ زیادہ مؤثر نہیں ہیں اگرچہ اس زمانے اور آج لکھی جانے والی کتابوں کے مضامین ایک ہی کیوں نہ ہوں۔لیکن ان مضامین کو پیش کرنے کا انداز موجودہ دور کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا:آج انٹرنیٹ جیسی سہولت موجود ہے جس میں بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے خطرات بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا:دینی مدارس اور جامعۃ المصطفٰی کو طلاب کی اس انداز سے تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ہر ملک کے حالات کے مطابق بہترین انداز میں حقیقی اسلام کی تعلیمات کی ترویج کر سکیں۔
انہوں نے تاکید کی کہ جامعۃ المصطفٰی کے طلاب عربی زبان اور قرآن فہمی کو باقاعدہ ایک درس کے طور پر پڑھیں۔
انہوں نے دین کے پھیلنے کا دوسرا مرحلہ اخلاق کو قرار دیتے ہوئے کہا: جامعۃ المصطفٰی کے طلاب کو اپنے معاشروں میں اخلاق کا نمونہ ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا:بہت سے ممالک میں دین اسلام مسلمان تاجروں کے ذریعے پھیلا ہے کہ ان کے اخلاق نے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا۔
آیت اللہ سبحانی نے اخلاق کے تین مرحلے قرار دیتے ہوئے کہا:پہلا مرحلہ علم اخلاق ہے اور بہت ساری کتب سے اس علم کو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن توجہ کرنی چاہیے کہ علم اخلاق صرف نسخہ ہے اور ہمیں دوا کی بھی ضرورت ہے۔
دوسرا مرحلہ ایسے اخلاق کو حاصل کرنے کا نام ہے جو سکھاتا ہے کہ کیسے فضائل کو حاصل کریں اور بری خصلتوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔اس مرحلے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ تیسرے مرحلے میں معاشرے میں ایسے افراد ہونے چاہئیں جو اخلاق کا نمونہ اور اسوہ ہوں۔
آیت اللہ سبحانی نے کہا: مرحوم آیت اللہ صدوقی نقل کرتے تھے:امام خمینیؒ جب بھی مدرسہ فیضیہ میں داخل ہوتے تھے تو ان کی حرکات و سکنات طلاب کے لیے نمونہ ہوتی تھیں۔
انہوں نے کہا:ہمیں معاشرے کی ہدایت کے لیے نمونے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے موجودہ معاشرے کو نمونہ اور اسوہ قبول کرنے والا معاشرہ قرار دیتے ہوئے کہا:یہ نمونہ اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔
آیت اللہ سبحانی نے کہا:اگر علماء کرام میں سادہ زیستی رائج ہو جائے تو یہ لوگوں کے لیے بہت اچھا اور مؤثر نمونہ ہے اور ایک عالم دین کا کردار اس کے کلام سے زیادہ مؤثر ہے۔
آیت اللہ جعفر سبحانی نے جامعۃ المصطفٰی کی تاسیس کو انقلاب اسلامی کے اہم ترین ثمرات میں سے قرار دیتے ہوئے کہا:انقلاب اسلامی سے پہلے حوزہ علمیہ قم میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلاب کو انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا لیکن آج انقلاب اسلامی ایران کی برکت سے دنیا کے کونے کونے سے اسلامی معارف کے پیاسے اس عظیم یونیورسٹی میں موجود ہیں۔جامعۃ المصطفٰی کے اساتذہ کو اپنے شاگردوں میں دنیا بھر میں تعلیمات اہل بیتؑ کی ترویج کا انگیزہ پیدا کرنا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ