۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
آیت الله جوادی آملی

حوزہ/ شیعہ مرجع تقلید نے کہا کہ قرآن کی بہت ساری آیات مادّہ پرست لوگوں کے شکوک و شبہات کا جواب ہیں۔ یہ شکوک و شبہات آج اس دور میں بھی اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا ان کا جواب دینے کیلئے ہمیں قرآن پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیۃ اللہ العظمی جوادی آملی نے مرکزِ حکمتِ اسلامی کے ارکان کے 23ویں اجلاس اور علومِ عقلی کے اساتذہ کے 13ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علماء اور دانشور حضرات بعض اوقات صرف کتابوں اور اساتذہ کرام سے استفادہ کرتے ہیں، لیکن کچھ علماء کرام ایسے بھی ہیں جو کتابوں سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی عقل اور اندرونی سوالات کو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔

انہوں نے حوزہ علمیہ میں علامہ طباطبائی کے علمی مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے جب دیکھا کہ حوزہ ہائے علمیہ میں فقہ اور اصول پر بحث کی جاتی ہے، لیکن تفسیر اور فلسفہ پر بحث نہیں ہوتی تو انہوں نے اس ضرورت کو درک کرتے ہوئے تفسیر اور فلسفہ پر کام شروع کیا اور دن رات اس پر محنت کی۔

آیۃ اللہ آملی نے کہا کہ اگر انسان عقلمند ہو تو وہ معاشرے کیلئے باعثِ برکت ہے، لیکن اگر وہ عقل پر قائم رہے اور عقل سے بخوبی استفادہ کرے تو اس کی برکتیں بہت زیادہ ہیں۔

انہوں مزید کہا کہ «وقوم یعقلون» جو قرآن میں آیا ہے، اس سے کوئی خاص نسل یا قوم مراد نہیں، بلکہ اس کا مطلب عقل پر قائم و استوار رہنا ہے نیز اگر کسی معاشرہ میں عقل و استدلال کی بالا دستی ہو تو وہ معاشرہ، عقلمند معاشرہ کہلائے گا۔ ایسا معاشرہ نہ خود گمراہ ہوگا اور نہ ہی کسی کا راستہ روکے گا۔

آیۃ اللہ جوادی آملی نے قرآن مجید کی روشنی میں عقل کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے عقل کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے نیز لوگوں کو عقل و استدلال پر قائم رہنے کی تاکید کی ہے۔

انہوں نے بیان کیا کہ اگر خدا نے انبیاء علیہم السلام نہ بھیجے ہوتے تو لوگ قیامت کے دن اپنی عقل سے خدا کے خلاف احتجاج کرتے، کہ کیوں ہمیں دین بتانے کے لئے الٰہی نمائندوں کو نہیں بھیجا؟ آپ کو معلوم تھا کہ ہم مرنے کے بعد یہاں آئیں گے، کیوں رہنما نہیں بھیجا؟ اس نکتہ کا مطلب یہ ہے کہ عقل خدا کے خلاف احتجاج بھی کر سکتی ہے، لیکن رسول بھیجنے کے بعد کوئی عذر باقی نہیں رہتا اور عقل پر رسول کی پیروی واجب ہے۔

قرآن کریم کے مفسر نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اگر عقل نفس کی قید سے آزاد ہو جائے تو علوم و معارف کے چشمے پھوٹ پڑیں گے، کہا کہ قرآن مجید نے خود عقل پیدا کرنے کی ذمہ داری لی ہے، اس لئے پہلے عقل کی بات کرتا ہے، پھر ”قوم یعقلون“ کی بات کرتا ہے اور اس کے بعد بھی انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ عقل کی اہمیت اور قابلِ قدر ہونے کے سبب ہی اسے یہ مقام حاصل ہے کہ انسان اسکے ذریعے اللہ تعالیٰ کے خلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن مجید ان مطالب و مفاہیم کے لیے ذمہ دار ہے جس کے لئے کوئی علم و حکمت ذمہ دار نہیں ہو سکتی۔ قرآن مجید میں انسانی معاشروں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا یکے بعد دیگرے ذکر کیا گیا ہے اور پھر ان کا جواب دیا گیا ہے۔

شیعہ مرجعِ تقلید نے کہا کہ یاد رکھیں! اگر شبہ استادِ فکر کے مقابلے میں ہو تو ایسے شکوک و شبہات، وہم اور تخیل کی نذر ہو جاتے ہیں، اگر استادِ محرک کے مقابلے میں ہو تو ایسے شکوک و شبہات ہوس اور غصے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یقیناً آپ امام علیہ السلام کی کتبِ ادعیہ سے واقف ہوں گے، امام سجادؑ علیہ السلام سے منقول ان نورانی دعاؤں کو روزانہ کی بنیاد پر ضرور پڑھیں، کیونکہ یہ کتاب دوسری کتابوں سے مختلف ہے، یہ ہمیں علوم الٰہی کی جانب دعوت دیتی ہے اور تجزیہ و تحلیل کرتی ہے کہ کہاں شک ہے اور کہاں ہوس؟!

آیۃ اللہ آملی نے کہا کہ اگر شک اور ہوس کو عقلِ نظری سے لیا جائے تو استادِ فکر و محرکِ فکر دونوں آزاد ہو جائیں گے اور اس صورت میں انسان عاقل اور عامل بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ قرآن کی بہت ساری آیتیں، مادّہ پرست لوگوں کی طرف سے اٹھائے گئے شکوک و شبہات کا جواب دیتی ہیں۔ یہ شکوک و شبہات آج بھی اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا ان کا جواب دینے کے لئے ہمیں قرآن کریم پر عبور حاصل کرنا چاہئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .