۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
آیت الله العظمی جوادی آملی در دیدار با مفتی اعظم مرکزی روسیه:

حوزہ/آیۃ اللہ جوادی آملی نے روسی مفتی اعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ برادرانِ اسلامی سے کہیں کہ وہ دن رات میں اپنے وقت کا ایک اہم حصہ، علم و تفسیر اور قرآن کی تلاوت و درایت اور تشریح کے لیے وقف کریں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکزی روسیہ کے مفتئ اعظم آنار رمضان اف نے آیۃ اللہ العظمی جوادی آملی سے ان کے دفتر میں ملاقات اور گفتگو کی ہے۔

روسی مفتی اعظم سے ملاقات میں، گفتگو کرتے ہوئے آیۃ اللہ جوادی آملی نے کہا کہ امام راحل رحمۃ اللہ علیہ نے گورباچوف کے نام اپنے خط میں جو کچھ فرمایا تھا اس کا جزوی طور پر اس اہم مسئلے سے تعلق ہے کہ انسان کی روح ثابت ہے نہ کہ ساکن، ہمارا خدا ابدی و ازلی ہے اور انسان موت سے فنا نہیں ہوتا، بلکہ انسان کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا، لہٰذا اسے اپنی موت کے بعد والی زندگی کے لیے حساب و کتاب کا اہتمام کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خدا کے انبیاء علیہم السلام بالعموم اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالخصوص ہمیں یہ سمجھانے کے لیے آئے ہیں کہ انسان موت سے فنا نہیں ہوتا، بلکہ انسان کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اگر انسانوں میں یہ سوچ اور فکر اجاگر ہو جائے تو وہ گمراہ نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی کا راستہ روکے گا۔

آیۃ اللہ آملی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قتل عام سے دنیا پرسکون نہیں ہوتی، کہا کہ انسان ابدی مخلوق ہے، لہٰذا اسے اپنی ابدی زندگی کے لئے سوچنا چاہیے؛ اگر یہ نظریہ عالمی بن جائے تو جنگوں کا کوئی تصور باقی نہیں رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ الٰہی رہبروں کی طرف سے جس چیز پر زیادہ اصرار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان اور دنیا کو پیدا کیا نیز خدا نے ہی انسان اور دنیا کے درمیان تعلقات کو منظم کیا ہے اور جس طرح ریفریجریٹرز اور ٹیلی ویژن وغیرہ جیسے آلات کے مینوفیکچررز کے طور پر، اس صنعت سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے اپنے ساتھ کتابچہ بھیجتے ہیں، لہٰذا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمارے لیے ایک دستور العمل بھیجا ہے، قرآن ہمارے لئے دستور العمل ہے کہ ہم اپنے ساتھ کس طرح سے پیش آئیں، دنیا اور دنیا والوں کے ساتھ کیسا تعامل ہو اور اپنے تعلقات کو کیسے منظم کریں۔

آیۃ اللہ العظمی جوادی آملی نے روسی مفتی اعظم کو مخاطب کرکے مزید کہا کہ برادرانِ اسلامی سے کہیں کہ وہ دن رات میں اپنے وقت کا ایک اہم حصہ، علم و تفسیر اور قرآن کی تلاوت و درایت اور تشریح کے لیے وقف کریں اور جب وہ قرآن کی تعلیمات سے بخوبی واقف ہوں تو انہیں قرآن کی تعلیم کے ذریعے روسی اور دیگر پڑوسیوں سے گفت و شنید کرنی چاہیے۔ علمی بحث کریں اور گفتگو کرتے ہوئے انہیں یاد دلائیں کہ یہ طاقت، ذہانت، سوچ اور فکر جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے وہ فنا ہونے کے لیے نہیں ہے۔

آخر میں، آیۃ آملی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک نورانی حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر آپ کسی سواری جیسا کہ گدھے پر سوار ہوں تو اس گدھے کے سوار پر کئی حقوق ہیں، جب آپ کا پانی سے گزر ہو تو وہاں سے گزرنے میں جلدی نہ کریں ممکن ہے اسے پیاس لگی ہو؛ دوسرا، اگر آپ کسی سبز باغ اور گھاس والی جگہ پر پہنچیں تو جلدی سے نہ گزریں، شاید اسے بھوک لگی ہو اور اگر یہ گدھا چلنے میں سست ہو جائے، ٹھیک سے نہ چل سکے اور سوار اسے مارنا چاہے تو اسے گدھے کے منہ پر نہیں بلکہ اس کے پہلو پر مارنا چاہیے۔ یہ دین جو گدھے کو پیاسا اور بھوکا رکھنے کی اجازت نہیں دیتا، یہ دین جو گدھا اور جانوروں کے احترام کا قائل ہے، کیا یہ انسانوں کی حرمت کا قائل نہیں؟! غریب آبادیوں اور ملکوں کو بھوک اور پیاس میں رکھنے والی یہ سپر طاقتیں، خدا کو کیا جواب دیں گی؟

انہوں نے آخر میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ ماسکو کے لوگوں تک بالعموم اور روس کے اسلامی بھائیوں تک بالخصوص ہمارا سلام پہنچائیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان شاء اللہ سب انسانیت کی بلند ترین منزل تک پہنچ جائیں اور ایک ایسے دن کی آرزو کرتے ہیں کہ دنیا میں عقل اور انصاف کی حکمرانی ہو اور کوئی جنگ و خونریزی نہ ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .