۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
علامہ جوادی

حوزہ/حقیقی کامیابی کا راستہ خدا کی ذات پر بھروسہ کرکے ہمہ تن مصروف عمل ہونا ہے اس کے بعد ابدی سعادت اور خوشبختی کیسے قدم چومتی ہے اسے خدا کے بھروسہ پر چھوڑ دینا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی|
١٥ اپریل سنہ۲۰۰۰ عاشور کے غم والم میں ڈوبے ہوئے ماحول میں اچانک گزشتہ صدی کی منفرد علمی شخصیت سرکار علامہ ذیشان حیدر صاحب جوادی کی خبر وفات ان کے عقیدت مندوں پر بجلی بن کر گری تھی
لیکن الہی فیصلہ ہوچکا تھا اور بر صغیر ہی نہیں ساری دنیا کے علم دوست صاحبان خیر ایک نا قابل تلافی نقصان کا احساس کر رہے تھے 
علم وعمل 'فہم فراست' فقہ وتدبر 'اور ہر لمحہ جد وجہد کرنے والی ہمہ جہت شخصیت اس جہان فانی سے رخصت ہوکر اپنے معبود کی بارگاہ میں پہونچ چکی تھی اور اس مادی دنیا سے گویا اب کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن  انکے گراں قدرعلمی آثار چاہے مجالس اور تقاریر کی صورت میں ہوں یا قلمی کاوشوں کی شکل میں آج بھی اپنی پوری  آب و تاب کے ساتھ تازہ ہیں آپ نے اپنے ایک مشہور شعر کے ذریعہ اس حقیقت کی ترجمانی بھی فرمائی تھی جو جہاں ایک طرف آپ کی علمی جد وجہد کا ترجمان ہے تو دوسری طرف خداکی ذات پر توکل اور اعتماد کا کہ وہ کسی کی محنت کو ضایع نہیں کرتا 
آپ کاشعر تھا 
جب  تلک  دہر  میں  آثار  قلم  ز ندہ  ہیں 
ہم پس مرگ بھی سمجھیں گےکہ ہم زندہ ہیں 
یوں تو سوانح حیات کے حوالہ سے بہت کچھ لکھا اور بیان کیا جا چکا ہے اور کیا جاتا رہتا ہے اور دوران تعلیم کی کامیابیوں سے لیکر خدمات کی آخری کڑی تک بہت کچھ زبان و قلم کی حرکت سے لوگوں تک پہونچا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس عظیم علمی اور ہمہ جہت فعال شخصیت کا جو حق تھا وہ نہ ادا ہوسکا اور نہ اسے ادا کرنے کی راہ میں کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جارہا ہے
کاش اس منفرد شخصیت کی قلمی اور بیانی صلاحیتوں اور ان کے آثار پر تحقیق وتدقیق نیز ان کے افکار وخدمات کوآ گے بڑھانے کی راہ میں ان  سے براہ راست استفادہ کرنے والے ادارے اورافراد ان کی راہ کو آگے بڑھانے اور ان کی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کی راہ میں کوئی ہمہ گیر قدم اٹھاکر ساری دنیا کے علماء' محققین اور تعلیمی اداروں کو ان سے اس طرح متعارف کراتے کہ ان کی شخصیت اور کارناموں پر تحقیق اور تدقیق کا راستہ ہموار ہوتا اور آج کی نوجوان نسل کے علماکے لیے مشعل راہ ہوتا کہ کس طرح ابتدایی ایام تبلیغ میں وسایل کی بے انتہا کمی کے با وجود جہد مسلسل سے اپنی علمی اور فکری صلاحتوں کا لوحہ منوایا جاسکتا ہے۔
اورحقیقی کامیابی کا راستہ خدا کی ذات پر بھروسہ کرکے ہمہ تن مصروف عمل ہونا ہے اس کے بعد ابدی سعادت اور خوشبختی کیسے قدم چومتی ہے اسے خدا کے بھروسہ پر چھوڑ دینا ہے 
علامہ جوادی مرحوم کے چھوٹے فرزند برادرمحترم مولانا احسان حیدر جوادی صاحب کسی حد تک اپنے والد کے علمی اور عملی مشن کو آگے بڑھانے کی راہ میں فعال نظرآتے تھے لیکن شاید قدرت کو کچھ اور منظورتھا کہ علامہ کے اس فعال سراپا کو بھی دوسال قبل ماہ مبارک رمضان میں  اپنی بارگاہ میں بلالیا اور علامہ جوادی مرحوم کا یہ سپوت بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتا ہوا بہت تند رفتاری سے دنیا کو اپنی علمی اور فکری خدمات سے نواز گیا خداوند کریم باپ اور بیٹے دونوں پر رحمت نازل کرے اور پسماندگان خاص طور پر ان کی اولاد احفاد کو اس راہ پر گامزن رہنے اور ان کی خدمات کو آگے بڑھانے کی توفیق دے اور ہمارے اندر قدر دانی اور قدر شناسی کاجذبہ پیداکرے کہ ہم کم از کم ایسی مناسبتوں پر اپنے  پیشرو بزرگوں کی یادکو زندہ رکھ سکیں۔

با تشکر: مولانا حمید الحسن زیدی صاحب  
  الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور 
         ١۴اپریل ۲۰۲۰

تبصرہ ارسال

You are replying to: .