حوزہ نیوز ایجنسی| ائمۂ معصومین علیہم السلام کی ایک اہم ترین ذمہ داری ان صحیح اسلامی تعلیمات اور اخلاقی فضائل و کمالات کی ترویج ہونی ہے جو انھوں نے پیغمبر اسلاؐم سے حاصل کی ہوتی ہیں تمام ائمۂ معصومین ؑاس ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے مکمل صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیںلیکن افسوس کہ عام طور پر ظالم وجابر حکمرانوں کی طرف سے پابندیوں کا سامنا رہتا ہے ظالم و جابر خلفاء خلافت غصب کر نے کے علاوہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کی اجازت بھی نہیں دیتے جن کی عام طور پر لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ائمۂ معصومین ؑکے پیرو بھی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے ان کی خدمت میں پہونچ کر اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کی جرأت نہیں کر پاتے اور مجبوراً تقیہ کی زندگی بسر کرتے ہیں خاص طور پر بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں اسلامی دنیا میں خوف اور گھٹن کا ماحول تھا اور علی ابن ابیطالبؑ اور دوسرے اہلبیت ؑکے خلاف باطل پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا لیکن امام محمد باقر ؑاور امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں اس فضا میں کچھ تبدیلی آئی اور خوف اور گھٹن کا ماحول کچھ کم ہوا تو لوگوں کواہلبیتؑ کی مظلومیت کا احساس ہوا اور لوگوں نے پیغمبر اسلاؐم کی خالص تعلیمات کی ضرورت محسوس کی جو ائمۂ معصومین ؑکے پاس امانت تھیں۔ بنی امیہ کی حکومت متزلزل ہونے لگی اور اس پر زوال کے بادل منڈلانے لگے تو انھوں نے مجبوراً کچھ پابندیاں اٹھالیں بنی عباس کی حکومت کا ابتدائی دور بھی ایسا ہی تھا ان کی حکومت ابھی مضبوط نہیں ہوئی تھی لہٰذا وہ بھی مجبوراً اہلبیت ؑپر زیادہ پابندیاں عائد نہیں کر رہے تھے۔ امام جعفر صادقؑ نے بہت سے علماء و دانشور شاگردوں کی تربیت کی اور مختلف علوم و فنون سے متعلق ہزاروں حدیثیں ان کو تعلیم فرمائیں جو آج بھی احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں اگر حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ زیادہ تر احادیث انھیں دونوں ائمہؑ سے مروی ہیں۔ کتاب مناقب میں لکھا ہے: جتنے علوم امام جعفر صادقؑ کے ذریعہ منظر عام پر آئے اتنے کسی اور کے ذریعہ نہیں آسکے بعض علماء احادیث نے آپ کے موثق راویوں کی تعداد کو شمار کیا ہے اور ان کی تعداد چار ہزار افراد بتائی ہے(١)
ابو نعیم کی کتاب حلیۃ الاولیاء میں نقل ہوا ہے کہ دینی رہنماؤں اور بزرگوں نے جعفر ابن محمد ؑسے روایات نقل کی ہیں جیسے مالک ابن انس، شعبہ ابن الحجاج، سفیان ثوری، ابن جریح، عبد اللہ ابن عمرو، روح ابن قاسم، سفیان عینیہ، سلیمان ابن بلال، اسماعیل ابن جعفر، حاتم ابن اسماعیل، عبد العزیز ابن مختار، وہب ابن خالد، ابراہیم ابن طہان ۔مسلم نے اپنی صحیح میں آپ سے روایت نقل کی ہے اوراس سے استدلال کیا ہے۔ (۲) دوسروں کا بھی کہنا ہے کہ مالک، شافعی، حسن، صالح، ابو ایوب سجستانی عمرو ابن دینار اور احمد ابن حنبل نے بھی امام جعفر صادقؑ سے روایات نقل کی ہیں۔ مالک ابن انس کا بیان ہے: ابھی تک علم و فضل، عبادت اور پرہیز گاری میں جعفر ابن محمد سے بہتر کوئی نہیں دیکھا گیا۔ (٣) امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: جو کچھ آسمان و زمین، جنت و دوزخ اور ماضی اور مستقبل میں پایا جاتا ہے میں وہ سب جانتا ہوں اور قرآن کے ذریعہ اس کو سمجھتا ہوں اس کے بعد آپ نے اپنا ہاتھ کھول کر فرمایا اس طرح خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے {فیہ تبیان کل شیٔ} (۴) صالح ابن اسود کا بیان ہے: میںنے جعفر ابن محمد سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا جو چاہو مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ اس لئے کہ میرے بعد میری طرح کوئی اور حدیث بیان نہیں کرسکتا۔ (٥) اسماعیل ابن جابر نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا خداوند عالم نے حضرت محمدؐ کو نبوت کے لئے منتخب فرمایا اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ان پر کتاب نازل فرمائی جس کے بعد کوئی اور کتاب نہیں آئے گی اس کتاب میں کچھ چیزوں کو حلال کیا ہے اور کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے خدا کی حلال کی ہوئی چیز قیامت تک حلال اوراس کی حرام کی ہوئی چیز قیامت تک حرام رہے گی ماضی مستقبل اور حال کے تمام حالات و واقعات اس آسمانی کتاب میں موجود ہیں اس کے بعد آپ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اور ان سب کو میں جانتا ہوں۔ (٦)
امام جعفر صادقؑ فرماتے تھے ہمارے علوم کی چار قسمیں ہیں :۱۔ اکٹھا کئے ہوئے علوم۔ ۲۔مکتوب ۔ ۳۔جو کچھ ہمارے دلوں میں الہام ہوتا ہے جو کچھ ہمارے کانوں میں کہا جاتا ہے کتاب جفر احمر۔ ۴۔ جفر ابیض، مصحف فاطمہ، کتاب جامعہ ہمارے پاس ہے اور ان میں انسانوں کی ضرورت سے متعلق تمام ضروری مسائل درج ہیں۔ (۷) ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے: ابو حنیفہ کے اصحاب جیسے ابو یوسف اور محمد وغیرہ نے علم فقہ ابوحنیفہ سے حاصل کیا ہے ۔ شافعی محمد ابن حسن کے شاگرد تھے جنھوں نے علم فقہ ابو حنیفہ سے سیکھا تھا احمد ابن حنبل نے علم فقہ شافعی سے حاصل کیا لہٰذا ان کا علم فقہ بھی ابو حنیفہ ہی کی طرف پلٹتا ہے اور ابو حنیفہ نے جعفر ابن محمد ؑسے علم حاصل کیا ہے۔ (۸) مسعودی نے لکھا ہے: ابو عبد اللہ جعفر ابن محمد عوام و خواص دونوں کے لئے نشستیں رکھتے تھے لوگ مختلف شہروں سے آتے تھے اور آپ سے حلال و حرام کے مسائل، تفسیر، تاویل قرآن اور قضاوت کے احکام سیکھتے، آپ کے پاس سے کوئی بھی آپ کے جوابات سے راضی اور مطمئن ہوئے بغیر واپس نہیں جاتا تھا۔ (۹)
تحریر: سید حمیدالحسن زیدی،الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
...............................................
حوالے
(١)مناقب آل ابی طالب، ج۴ ، ص۲۶۸
(۲)مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۲۶۹
(٣)مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۲۶۹
(۴)مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۲۷۰
(٥)بحار الانوار، ج۴۷، ص۳۳
(٦)بحار الانوار، ج۴۷، ص۳۵
(۷)بحار الانوار، ج۴۷، ص۲۶
(۸)شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۸
(۹)اثبات الوصیہ، ص۱۵۶