حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قرآن وعترت فاونڈیشن علمی مرکز قم ،ایران کی جانب سے امام صادق کی شہادت کی مناسبت سے قم المقدسہ ،ایران میں شام غربت کا پروگرام منایاگیا، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی امام صادق کے سلسلے سے یہ پروگرام اپنے انداز کا بہت ہی عظیم اور درجے کا حامل تھا جسمیں محوریت فقط امام صادق کے فضایل ومصایب تھے،آپکی زندگی کویاد رکھنانہایت لازم اورضروری ہے،اسی سبب اخبار میں یہ مطالب پیش ہورہے ہیں کہ:،ہمارے چھٹے رہنماکا نام ''جعفر ''کنیت ''ابو عبد اللہ ''اور لقب ''صادق''ہے آپ کے والد کا نام امام محمد باقر علیہ السلام اور والدہ کا نام ام فروہ ہے ،، آپ کی ولادت ١٧ ربیع الاول ٨٣ھمیں مدینہ میں ہوئی اور ٦٥ سال کی عمر میں ١٤٨ھ میں دنیا سے رحلت فرمائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔ آپ کے ہمعصر حکام: امام صادق ١١٤ھ میں امامت کے عہدے پر فائز ہوئے آپ کی امامت کے ہی دوران١٣٢ھ میں اموی حکومت کا خاتمہ اور عباسی حکومت کا آغاز ہوا۔ دونوں حکومتوں کے وہ حکام جو امام کے زمانے میں برسر اقتدار رہے ہیں مندرجہ ذیل ہیں: ١۔ ہشام بن عبدالملک (١٠٥ سے ١٢٥ ہجری تک )...٢۔ ولید بن یزید بن عبدالملک(١٢٥سے ١٢٦ ہجری تک)...٣۔ یزید بن ولید بن عبد الملک(١٢٦ہجری)...٤۔ ابراہیم بن ولید بن عبدالملک(١٢٦ہجری میں ٧٠ دن )....٥ مروان بن محمد جو مروان حمار کے نام سے مشہور ہے (١٢٦سے ١٣٢ہجری تک )..اور اس کے علاوہ مندرجہ ذیل عباسی خلفاء بھی تھے :١۔ عبد اللہ بن محمد جوسفاح کے نام سے مشہور ہے (١٣٢ سے ١٣٧ہجری تک .٢۔ ابو جعفر جومنصور دوانیقی کے نام سے مشہور ہے (١٣٧سے ١٥٨ہجری۔
امام صادق کی علمی منزلت:آپ کی علمی عظمت و اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل و برہان کی ضرورت نہیں بس یہ سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے محقق اور بزرگ علماء نے آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا :ابو حنیفہ ،جو حنفی مذہب کے رہنما ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد جیسا بزرگ عالم نہیں دیکھا ،مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ جب منصور دوانیقی نے جعفر بن محمد کو بلوایا تو اس سے پہلے منصور نے مجھ سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ بہت سے لوگ جعفربن محمد کے فضائل کا کلمہ پڑھ رہے ہیں لہذا اس مشکل کو برطرف کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھاو ؟! ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے چالیس مشکل مسائل آمادہ کیے۔جب منصور نے امام کو بلوایا اور مجھے بھی طلب کیا، تومیں دربار میں پہنچاکیا دیکھا کہ منصور بیٹھا ہے اور جعفربن محمد اس کے داہنی،طرف بیٹھے ہیں اور منصور کا عالم یہ تھاکہ وہ اس طرح متأثر ہوا کہ جیسے وہ اپنا وجود کھوبیٹھا ہو ! میںنے بھی پہنچ کر سلام کیا اور بیٹھ گیا ،منصور امام کی طرف متوجہ ہوکر بولا کہ یہ ابوحنیفہ ہیں امام نے جواب دیا : جی ہاں میں پہچانتا ہوں ،پھر منصور نے میری طرف رخ کیا اور کہا : اپنے مسائل کا جواب جعفر ابن محمد علیہما السلام سے طلب کرو ؟ میںنے سوال کرنا شروع کیا اور ہر ہر مسئلہ کا جواب پاتا رہا، ضمناامام فرماتے جاتے تھے: اس مسئلہ میں تمھارا عقیدہ یہ ہے، مدینہ والوں کا نظریہ یہ ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے ۔ابو حنیفہ کہتے ہیں :جب مجھے چالیس سوالوں کے جوابات مل گئے تو مجھے کہنا پڑا کہ جعفر بن محمد علیہما السلام جیسا کوئی بھی محقق و عالم نہیں ،کیوں کہ جب میں نے بعض مذاہب کے مسائل کو پوچھنا چاہا تو انھوں نے اس کا جواب انہی مذاہب کی فقہوں سے ارشاد فرمایا ،لہٰذا ایسا کوئی عالم نہیں جو کسی بھی مسئلے کا جواب اس کی فقہی کتابوں سے دیتا جائے ،مالک: مالکی مذہب کے رہنما کہتے ہیں : میں ہمیشہ امام صادق کی خدمت میں جاتا تھا اور ہمیشہ آ پ کو تین حالتوں میں دیکھتا تھا ؛نماز پڑھتے ہوئے ،روزہ رکھتے ہوئے یا قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اورمیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام نے بغیر وضو کے کسی بھی حدیث کو لکھا ہو ،امام کا تقوی اور پرہیز گاری اس مقام پر تھا کہ میری آنکھوں نے ایسا متقی اور پرہیزگار نہیں دیکھا اور ہمارے کان نے نہیں سنا اور نہ ہی ہمارے قلب نے ان کے علاوہ کسی کی گواہی دی ۔شیخ مفید کہتے ہیں : لوگوں کے درمیان امام کی علمی شہرت کا ڈنکا اس طرح بجا جیسا خاندان اہلبیت میں کسی اور کا نہیں ۔ابن حجر ہیثمی کہتے ہیں : امام صادق سے منقول شدہ علوم لوگوں کے درمیان اس طرح عام ہوئے کہ مندرجہ ذیل محدث اور فقیہوں نے آپ سے بہت ساری چیزیں نقل کی ہیں جس میں یحی بن سعید، ابن جریح ، مالک ، سفیان ثوری ، سفیان بن عینیہ، ابو حنیفہ ، شعبہ اور ایوب سجستانی وغیرہ کا نام سر فہرست ہے ۔
ابو البحر جاحظ(تیسری صدی کے محقق)کہتے ہیں : جعفر بن محمد علیہما السلام علم و دانش کی اس بلندی پر ہیں جن سے تمام لوگوں نے کسب فیض کیا اور یہی نہیں بلکہ ابو حنیفہ ، سفیان ثوری جیسے علماء نے بھی ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہیں؛ سید امیرعلی کہتے ہیں: اگرچہ دیگر افرادسے بھی علوم صادر ہوئے ہیں لیکن فلسفہ کا اصلی رنگ فاطمی سادات میں ہی دکھائی دیتا ہے ۔اگر تاریخ کو دقت کے ساتھ پڑھاجائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ چھٹے امام نے بہت سے علوم کا انکشاف کیا اور آپ نے شہر مدینہ میں علمی مرکز کی تاسیس کرتے ہوئے اصلی فلسفہ اسلامی کی بھی بنیاد ر کھی آپ کے دروس میں صرف وہی لوگ شرکت نہیں کرتے تھے جنھوں نے بعد میں مذاہب فقہی کی تاسیس کی بلکہ منطق و فلسفہ کے شاگرد بھی اس موضوع پر دور دراز سے حصول علم کے لئے آیا کرتے تھے ،حسن بصری جو بصرہ کے رہنے والے تھے اور مکتب فلسفہ کے مؤسس تھے ،یا واصل بن عطاء جو مذہب معتزلہ کے مؤسس تھے دونوں نے آپ ہی کی شاگردی میں مذکورہ علوم پر مہارت حاصل کی ۔(٤)ابن خلکان مشہور و معروف مورخ لکھتے ہیں: جعفر ابن محمد علیہما السلام مذہب امامیہ کے ان بارہ اماموں اور خاندان رسالت میں سے ایک ہیں جن کی سچائی اس طرح عام ہوئی کہ آپ کو صادق کا لقب دیا گیا زبان میں اتنی طاقت کہاں جو آپ کے فضائل کو بیان کرسکے ،قلم کا اتنا وجود کہاں جو آپ کی عظمت لکھ سکے۔
ابو موسی جابر ابن حیان طوسی جیسے اہم شخص آپ کے شاگرد تھے جابر نے ہزار اوراق تالیف کئے جو امام صادق کے ارشادات تھے۔۔۔۔۔ ان ایام میںبعض شخصیتوں نے امام علیہ السلام کے سلسلے سے علمی مطالب بھی اس پروگرام کے علاوہ پیش کئے تھے اور حجة السلام والمسلمین مولاناسیدمبین حیدررضوی نے آج اس مجلس کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا،امام علیہ السلام میں سیاسی ، سماجی اور ثقافتی حالات:ائمہ طاہرین علیہم السلام کے درمیان عصر امام صادق سیاسی ، اجتماعی اور ثقافتی اعتبار سے ایک ایسا منفرد دور تھا جو کسی اور امام کے زمانے کو حاصل نہیں ہوا، کیوں کہ سیاسی حالات کی بناپر بنی امیہ کی حکومت متزلزل ہوچکی تھی اور عباسی حکومت بر سر اقتدار آنا چاہتی تھی اور کچھ عر صہ تک یہ دونوں حکومتیں انھیں حالات میں نبرد آزماتھیں۔
ہشام ابن عبدالملک کے زمانے سے عباسیوں نے جنگ کی شروعات کردی تھی جو ١٢٩ھ سے شروع ہوئی اور ١٣٢ھ میں انھیں کامیابی ملی ،امام سجاد کے زمانے کی طرح اس دور میں بھی بنی امیہ سیاسی جھگڑے میں اس قدر پھنس چکے تھے کہ شیعیان حیدر کراراور امام صادق پر زیادہ ظلم و ستم کرنے کا موقع نہیں مل سکا کیوں کہ عباسیوں نے بھی زبانی ہی سہی مگر انتقام خون خاندان پیغمبر اکرمۖکے نعرے سے اپنی حکومت کی شروعات کی یہی وہ وجہیں تھیں جن کی وجہ سے چھٹے امام کاسیاسی ،سماجی اورثقافتی دوردیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام سے بہتر رہا اور ا آپ کو علمی اور ثقافتی امور انجام دینے کا بہترین موقع ملا۔
مولاناموصوف نے مزید فرمایا!ثقافتی مصروفیات کا سنہری موقع : چھٹے امام کے زمانے میں فکری ، علمی اور ثقافتی امور بھی دیکھنے کو ملے چونکہ اس زمانے میں لوگوں میں کافی حد تک علمی بیداریاں آچکی تھیں اور اسی وجہ سے مختلف علوم بھی منکشف ہوئے مثلاً علوم اسلامی (علم قرأت قرآن ، علم تفسیر، علم حدیث ، علم فقہ اور علم کلام ) یا علوم انسانی جیسے طب ، فلسفہ ، نجوم اور حساب جیسے علوم بھی وجود میں آئے لوگوں میں علمی ذوق و شوق اس طرح سے بڑھ چکا تھا کہ جو کوئی ذرا سا بھی ان علوم پر غور کرتا تو اس کا نتیجہ لوگوں کے درمیان آکر پیش کرتا تاکہ بازار علم گرم ہوسکے اور لوگوں میں علمی بیداریاں آسکے۔علمی بیداریوں کے مندرجہ ذیل اسباب:١۔ اسلام میں فکر اور عقیدہ کی آزادی : البتہ عباسی خلفاء بھی کم و بیش اس فکر میں ہمراہ تھے لیکن اس آزادی کا اصلی ریشہ اسلامی تعلیمات ہیںکہ اگر اس فکر کی عباسی خلفاء بھی مخالفت کرنا چاہتے تو بھی نہ کرپاتے ۔٢۔ امام صادق علیہ السلام کا زمانہ ایک اسلامی اور مذہبی زمانہ تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں مذہبی فکر اثر انداز ہورہی تھی ،چھٹے امام کے زمانے میں جو تحریک چلی اس کی اصلی اور اساسی بنیاد حصول علم کے سلسلے میں رسول اسلام ۖ کی حوصلہ افزایٔ اور علم و فکر و تعقل کے سلسلے میں قرآن کی دعوت تھی ۔٣۔ بہت سی قومیں جنھوں نے مذہب اسلام کو قبول کیا وہ فکری اور علمی سابقہ رکھتی تھیں ۔٤۔غیر مسلم افراد کے ساتھ صلح و آشتی اور ان کے ساتھ میل جول مخصوصاً اہل کتاب کے ساتھ زندگی بسر کرنا؛ اس زمانے کے مسلمان حضرات کا اہل کتاب سے رابطہ برقرار رکھنا اصول دین کے بر خلاف نہیں تھا اس زمانہ میں اہل کتاب بھی پڑھے لکھے ہوا کرتے تھے جس وجہ سے مسلمان حضرات ان سے علمی بحث و گفتگو اور مناظرہ کیا کرتے تھے۔
مذہبی تنائو: امام صادق کے زمانے میں بہت سے ادیان اور مکاتب فکر وجود میں آئے اور اس وجہ سے مسلمانوں کا عقاید اہل کتاب سے سامنا بھی ہوا اور اس کے ساتھ یونانی محققوں سے بھی مقابلہ ہوا جس کی وجہ سے بہت سے شبہات اور اشکالات پیش ہوئے ۔امام صادق کے زمانے میں معتزلہ ، جبریہ ، مرجئہ، غلات،زنادقہ(یہ فرقے خدا کے وجود کے منکر تھے اور اس زمانے کے علوم اور رواج و زبان سے بھی ناآشنا تھے ) ،مشبہہ ،متصوفہ ، مجسمہ ،تناسخیہ اور اسی جیسے بہت سے فرقے وجود میں آئے جو اپنے اپنے عقائد کی ترویج میں مشغول ہوئے۔اس کے علاوہ علوم اسلامی کے ہر مسئلے میں محققوں اور صاحب نظر افراد کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہوا کرتا تھا مثلاً علم قرأت قرآن ،تفسیر ، حدیث ، فقہ اور علم کلام جیسے موضوعات پر بحثیں اور مباحثے ہوا کرتے تھے کہ ہر کوئی اپنے عقیدے اور نظر پر اٹل رہتا تھا ۔
آجکی اس مجلس میں سوزخوانی کے فرائض مولانامختار صاحب اورمولانامہدی صاحب نے انجام دیئے،شام غربت کے عنوان سے پیش خوانی جناب عباس ثاقب اور احمد شھریار صاحب نے انجام دی۔
تصویری جھلکیاں؛