۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
فضائل امام جعفر صادق علیہ السلام

حوزہ/انسان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ انسان رسول کے ساتھ ساتھ ان کے اہلبیت پر ایمان نہ لے آئے ۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی| امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت ہر فضیلت و کمال کے اعتبار سے جامع ترین شخصیت ہے۔ اس طرح سے کہ شیعوں کے علاوہ اہل تسنن کے علماء اور عرفاء نے بھی امامؑ کی شخصیت کی تعریف کی ہے اور آپ کی حیات طیبہ کے متعدد واقعات کو نقل کیا ہے۔

اس تحریر میں ہم احمد بن حسن استرآبادی (دسویں صدی کے شیعہ عالم دین) کی امام ؑ کی ولادت و فضائل سے متعلق سب سےقدیم تحریر پیش کریں گے اور شیخ فرید الدین عطار نیشاپوری (عالم اہل تسنن) کی  تحریر کو پیش کرنےکی سعادت حاصل کریں گے۔

قرآن ناطق کا تذکرہ:

امام جعفر صادق علیہ السلام سلسلۂ امامت کی چھٹی کڑی تھے،آپ کی والدہ ام فروہ بنت قاسم ابن محمد ابی بکر تھیں۔آپ نے تاحیات مخلوقات کی رہنمائی اور بادیہ نشینوں کی ہدایت فرمائی اور ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے:ہم مخلوقات خدا پر اللہ کی حجت اور خدا کے احکام کو بندوں تک پہونچانے والے ہیں۔آج کے وہ شیعہ جنہوں نے ولایت علی علیہ السلام کے دامن سے تمسک اختیار کرلیا ہے حقیقت میں انہیں لوگوں نے آپ کے ذریعہ اپنی ملت و قوم کو درست کرلیا اور ان کی پیروی سے اپنی اور اپنی امت کی نجات کا سامان مہیا کرلیا۔

امامؑ کے بے شمار فضائل و کمالات تاریخ کے سنہرے اوراق پر موجود ہیں جن میں سے چند کو ہم تحریر کررہے ہیں:

ایک دفعہ دو لوگوں میں جھگڑا ہوگیا،ان میں سے ایک اہلبیت سے محبت کرتا تھا اور ان کی محبت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا اور دوسرا بنی امیہ کی ولایت کا حامی تھا، دونوں افراد فیصلہ کے لئے ابو حنیفہ کے پاس گئے تو ابو حنیفہ نے کہا تم لوگوں کو چاہئے کہ اس شخص کے پاس جاؤ جو عزت و منزلت، حسب و نسب کے اعتبار سے مخلوق عالم میں سب سے افضل ہےتوان لوگوں نے پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ فرمایا:
وہ امام جعفرصادق ابن محمد ابن علی ابن حسین ابن علی علیہم السلام ہیں۔ دونوں جب امامؑ کی خدمت میں پہنچے تو وہاں لوگ امامؑ کے ارد گرد موجود تھے اور امام احکام حلال و حرام کی تعلیم دے رہے تھے،قبل اس کے کہ یہ لوگ اپنا مدعا امام کی خدمت میں پیش کرتے امام اس ناصبی کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: دشمن اہلبیتؑ کا خدا کے نزدیک کوئی مرتبہ نہیں ہے اور پھر فرمایا: فریق فی الجنۃ(ہمارے چاہنے والوں کا مقام جنت ہے) و فریق فی السعیر(اور ہمارے دشمنوں کا ٹھکانا جہنم ہے )۔

جب بعض چاہنے والوں نے امامؑ کی محبت میں غلو سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ امامؑ اللہ کے شریک ہیں ۔تو امامؑ نے یہ سنتے ہی وضو کیا اور فرمایا: ہماری محبت آخرت میں نجات کا باعث ہے لیکن ہماری محبت میں افراط اور غلو کرنا موجب ندامت و پشیمانی ہے ۔اس لئے کہ ہم بندگانِ خدا میں سے ہیں اور ہم مخلوقات خدا کا حصہ ہیں۔

امامؑ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کی ملاقات کا مشتاق ہوں اور اس رجب یا شوال کے مہینہ میں اس دنیا سے کوچ کر جاؤں گا اور اللہ کی اس دعوت کے آگے’’یدعوالیٰ دار السلام‘‘پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کی قید سے رہا ہوکر جنت ماویٰ میں پہنچ جاؤں گا، اس لئے کہ دشمنوں نے مجھے زہر دے کر لباس شہادت میرے جسم پر ڈال دیا ہے۔

امامؑ کی شہادت کے بعد راوی نے ان تمام باتوں کی تصدیق کی جو امامؑ نے بتائی تھی،۶۵ سال کی عمر میں منصور کے زمانے میں جب امامؑ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا اور لوگ تدفین کے متعلق تردید کا شکار تھے آسمان سے ایک آواز آئی کہ اس بندۂ صالح کے جنازے کو اٹھاؤ اور اس کے جد اور والد کے پہلو میں سپردخاک کردو۔
(میراث مکتوب:۱۳۷۴،۵۱۰۔۵۲۱)

امام جعفرصادق علیہ السلام،عطار نیشاپور کی نظر میں :

وہ امت محمدیہ کےسلطان، حجت نبوی کے برہان، عالم کون و مکان، قلب اولیاء کاسکون، چونکہ آپ نے اہلبیت ؑسے تمام باتوں کو نقل کیا ہے لہٰذا ہم امامؑ کی چند احادیث پیش کرتے ہیں،مجھے تعجب ہے ان لوگوں پرجو یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت اور اہلبیتؑ کے درمیان فاصلہ اور جدائی ہے۔ بلکہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ انسان رسول کے ساتھ ساتھ ان کے اہلبیت پر ایمان نہ لے آئے ۔ 
(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۲۔۱۳)

امامؑ کی ہبیت 

مروی ہے کہ ایک شب خلیفہ منصور نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاؤ اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں قتل کردوں ۔
وزیر نے کہا کہ امامؑ ایک گوشہ میں عبادت الٰہی میں مصروف رہتے ہیں لہٰذا ظاہراً آپ کو امامؑ سے کوئی نقصان نہیں ہے اور ان کو قتل کرکے آپ کو کوئی فائدہ نہیں حاصل ہوگا۔لیکن منصور اپنی بات پر اڑارہا، وزیر گیا، ادھر منصور نے اپنےسپاہیوں سے کہہ دیا کہ اگر جعفر صادق علیہ السلام آئیں اور میں اپنی ٹوپی کو اتاردوں تو تم انہیں قتل کردینا۔
وزیر امامؑ کو لے کرآیا،امام ؑکو دیکھتے ہی منصور پریشانی کی حالت میں امامؑ کے سامنے گیا انہیں سینے سے لگایا اور دوزانو ہوکر امامؑ کے سامنے بیٹھ گیا اور نہایت ہی احترام سے امامؑ سے کہا کہ آپ کو زحمت کرنے کی کیا ضرورت تھی ، امامؑ نے کہا کہ کیا تم نے مجھے نہیں بلایا تھا تاکہ اطاعت الٰہیہ سے دور رکھ سکو۔
اس کے بعد منصور نے حکم دیا کہ مکمل عزت و احترام کے ساتھ امامؑ کو گھر پہنچا دیاجائے ۔منصور کے جسم میں لرزہ پیدا ہوا اور بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑا، اور تین دن بعد اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔جب غش سے افاقہ ہوا تو وزیر نے کہا یہ کیا ماجراتھا؟ منصور نے جواب دیا کہ جب امامؑ آئے تو میں نے ایک اژدھے کو دیکھا جو اپنی زبان کو تخت کے نیچے رکھ کر مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اگر تم نے ان کو تھوڑی سی بھی اذیت پہنچانے کی کوشش کی تو میں تم کو تخت سمیت نگل جاؤں گا، میں اژدھے کے ڈر سے یہ نہیں سمجھ سکا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں، اس لئے میں نے امامؑ سے عذر خواہی کی اور بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑا۔
(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۳۔۱۴)

عقلمند ترین انسان 

مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو حنیفہ سے پوچھا کہ عقلمند ترین انسان کون ہے ؟ ابو حنیفہ نے کہا کہ وہ انسان عقلمندترین ہے جو نیکی اور برائی میں فرق کرسکے ۔تو امامؑ نے فرمایا:جانور بھی نیکی اور برائی میں فرق رکھتے ہیں کہ ان کو مارا جا رہا ہے یا چارا دیا جارہا ہے،تب ابو حنیفہ نے کہا کہ آپ فرمائیں کہ آپ کی نظر میں عقلمند ترین انسان کون ہے ؟امامؑ نے فرمایا: وہ شخص جو دو نیکیوں اور دو برائیوں میں فرق کرسکے ،خیرالخیرین کو اختیار کرے اور شرالشرین کو ترک کردے ۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۵)

سخاوت امام ؑ

ایک مرتبہ کسی انسان کی دینار کی تھیلی چوری ہوگئی ۔اس شخص نے امامؑ کے اوپر الزام لگایا جب کہ وہ امامؑ کو نہیں پہچانتا تھا تو امامؑ نے اس سے پوچھا کی کتنے دینار کی تھیلی تھی؟اس نے عرض کیا: ہزار دینار کی۔ مولا نے اسے گھر لے جاکر ہزار دینار عطا کردئیے ۔
اس شخص کو شرمندگی ہوئی تو اس نے اپنی تھیلی نکالی اور امامؑ کی تھیلی واپس کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی تھی ۔
امام ؑنے فرمایا کہ جو ہم راہ خدا میں دے دیتے ہیں اسے واپس نہیں لیتے ۔جب اس نے آپ کی سخاوت دیکھی تو لوگوں سے دریافت کیا کہ آخر یہ  کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں۔یہ سن کر اسے بہت شرمندگی ہوئی۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۵۔۱۶)

امامؑ کا اخلاق

روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ امامؑ اللہ اللہ کہتے ہوئے یک وتنہا ایک راستہ سے گذر رہے تھے ۔آپ کے پیچھے ایک پریشان حال انسان بھی اللہ اللہ کہتے ہوئے جارہا تھا ۔امام نے فرمایا: اللہ میرے پاس لباس نہیں ہے فوراً لباس آگیا تو اس پریشان حال آدمی نے اما مؑ سے کہا کہ آپ اپنا کہنہ لباس مجھے دے دیجئے اس لئے کہ میں بھی ذکر الٰہی کرنے میں آپ کا شریک تھا۔یہ بات اما مؑ کو بہت پسند آئی اور آپ نے اپنا لباس اسے عطا کردیا۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۶)
 حکیمانہ ارشادات
۱۔ہر وہ گناہ جس کا آغاز خوف سے اور انتہا معذرت پر ہو وہ انسان کو حق تک پہونچاتاہےاور ہر وہ اطاعت جس کی ابتدا سکون واطمینان سے ہو اور انتہا خود پسندی پر ہو وہ انسان کو حق سے دور کردیتی ہے۔خود پسندی کے ساتھ عبادت کرنا گناہ اور گناہ کے ساتھ معذرت خواہی اطاعت الٰہی کا باعث ہے۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۷)
۲۔اما م صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ فقیر صابر کا مرتبہ بلند ہےیا یا شکر گزار امیر کا؟آپ نے فرمایاکہ اس فقیر کا مرتبہ بلند ہے جو صبر کرتا ہے، اس لئے کہ امیر کا دل اس کی جھولی میں رہتا ہےا ور صابر کا دل اللہ کے پاس ہوتا ہے۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۷)
۳۔شرک مخلوقات خدا میں کالے پتھر پر سیاہ چیونٹی کی رفتار سے بھی پوشیدہ طریقہ سے سرایت کرتا ہے۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۷۔۱۸)
۴۔انسان کا دشمن عقلمند ہو یہ انسان کی خوش نصیبی ہے۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۸)
۵۔پانچ لوگوں سے دوستی نہ کرنا:
۱۔جھوٹا:اس لئے کہ وہ ہمیشہ تمہیں دھوکہ میں رکھے گا۔
۲۔بیوقوف:وہ تمہیں فائدہ پہونچانا چاہے گا لیکن نقصان پہونچا دےگا۔
۳۔کنجوس:تمہارا بہترین وقت ضائع کردےگا۔
۴۔بددل:ضرورت کے وقت تم کو چھوڑدےگا۔
۵۔فاسق:ایک لقمہ کے عوض تمہیں بیچ دےگا اور ایک لقمہ سے کم کی بھی لالچ کرےگا۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۱۔۱۸)
۶۔دنیا میںا للہ کی ایک جنت ہے اور ایک جہنم۔عافیت جنت کا نام ہے اور بلا جہنم کا۔اپنے کام کو خدا پر چھوڑنا عافیت ہے او ر کام کو خود پر چھوڑنا بلا ہے۔(تذکرۃ الاولیاء۔ص۱۸)
اما م جعفر صادق علیہ السلام علی ابن عثمان ہجویری کی نظر میں:
علی ابن عثمان نے امام ؑکے بارے میں کہا:آپ سنت الٰہی کی تلوار،اللہ کاراستہ،معرفت خدا کاوسیلہ،نیک سیرت،آپ کا ظاہر وباطن یکسان تھا،آپ کے علوم اور افکارعلماء سلف وخلف میں مشہور ہیں۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:لاتصح العبادۃ الابالتوبۃ،فقدم التوبۃ علی العبادۃفقال اللہ تعالیٰ:التائبون العابدون۔عبادت بغیر توبہ کے صحیح نہیں ۔لہٰذا عبادت سے پہلے توبہ کرو چونکہ اللہ نے قرآن میں التائبو ن کی لفظ کوالعابدون پر مقدم کیا ہے۔
مروی ہے کہ دائود طائی ایک مرتبہ اما مؑ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: مولا مجھے نصیحت فرمادیجئے میرا دل سیاہ ہوچکاہے۔
امامؑ نے فرمایا: اے ابو سلیمان! تم خود اس زمانے کے سب سے بڑے زاہد ہو تمہیں نصیحت کی کیا ضرورت ہے ؟ابوسلیمان نے عرض کیا: اے فرزند رسول آپ مخلوقات عالم پر فوقیت رکھتے ہیں اور آپ پر واجب ہے کہ ہم کو نصیحت فرمائیں۔امامؑ نے فرمایا:اے ابوسلیمان مجھے ڈر ہے کہ کہیں روزقیامت میرےجدمجھ سے سوال نہ کریں کہ تم نے حق کی پیروی کیوں نہیں کی؟توابو سلیمان نے کہا کہ اے پروردگار جس شخص کی خلقت میں آب نبوت استعمال کیا گیا اور جو دنیا میں سب سے بلند ہےجب اس کا یہ حال ہے تو میری کیا حیثیت ہے۔ (کشف المحجوب۔۱۳۸۴۔ص۱۱۶۔۱۱۸)

تحریر: محمد رضا (مبلغ جامعہ امامیہ)

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .