۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ/ اس حدیث کی بہترین توجیہ  یہ ہے کہ امام علی علیہ السلام کے سچے عاشق کبھی گناہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتےہیں چہ جائیکہ یہ افراد گناہ  انجام دیں  لہذا امام علی علیہ السلام کی محبت اور ان سےعشق ،انسان کو گناہوں سے دور رکھنے کا بہترین عامل ہے۔

تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسی امام علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہونے والی احادیث میں سے ایک حدیث جو مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے اور شیعہ و سنی منابع میں موجود  ہے۔یہ روایت ہے:(حُبُّ عَلِیٍّ حَسَنَةٌ لَا یَضُرُّ مَعَهَا سَیِّئَةٌ وَبُغْضُ عَلِیٍّ سَیِّئَةٌ لَا یَنْفَعُ مَعَهَا حَسَنَة) [۱] علی (ع) سے محبت کرنا ایک نیکی ہے جس کی موجودگی میں کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور علی سے دشمنی ایک ایسا گناہ ہے جس کی موجودگی میں کوئی بھی نیکی فائدہ نہیں دیتی ہے۔اس روایت کے بارے میں یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ کیا امام علی علیہ السلام کی محبت کی موجودگی میں کسی قسم کا کوئی گناہ نقصان اورضرر نہیں پہنچا سکتاہے اور کیا صرف امام علی علیہ السلام کی محبت ہی کافی ہے اور دوسرے اعمال کو بجا لانے کی ضرورت نہیں ہے؟
آیت اللہ مرعشی نجفی رہ نے اپنی کتاب شرح احقاق الحق میں اس روایت کو تین طریقوں سے نقل کیا ہے اور ہر طرق میں کچھ سنی راوی موجود ہے۔یہ روایت عبداللہ ابن عباس، [۲] معاذ ابن جبل، [۳]انس ابن مالک [4] اور ابن عمر [5] سے متعدد سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔اگر ایک روایت متعدد سند کے ساتھ نقل ہو جائے تو یہی کثرت سند کے ساتھ نقل ہونا اس روایت کے معتبر ہونے اورمستفیضہ ہونے کا باعث بنتا ہےجس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ روایت بھی سند کے اعتبارسے معتبر ہے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جو روایت مناقب اور فضائل کے بارے میں ہو تو اس روایت کی روایات کی سندی اعتبارسے بررسی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یہاں تک علماء اہل سنت جیسے احمد بن حنبل کہتے ہیں: ہم صحابہ کے فضائل کے بارے میں سخت گیری نہیں کرتے ہیں ۔ یعنی اگر مناقب اورفضائل کے بارے میں کوئی ضعیف روایت بھی ملے تو اس پر عمل کرتے ہیں ۔لہذا وہ روایات جو یہ بات ثابت کرتی ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی محبت اور دوستی کی موجودگی میں کوئی گناہ اور عصیان انسان کو نقصان نہیں پہنچاتی ہے وہ روایات قابل قبول ہیں ۔
اگر ہم اس روایت کی سند کو قبول کریں تب بھی اس روایت کی متن کی جانچ پڑتال اور وضاحت ضروری ہے۔
پہلا حصہ :«حُبُّ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ حَسَنَةٌ، لَا یَضُرُّ مَعَهَا سَیِّئَةٌ»
روایت کا یہ حصہ قابل فکر ہے کیونکہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو نیکیوں کی تباہی اور انجام دینے والے کو جہنم میں داخل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ خواہ وہ گناہ گار معصومین علیہم السلام کے چاہنے والوں میں سے ہی کیوں نہ ہومگر یہ کہ وہ اپنے گناہ پر توبہ کر لیں ۔ [6] اس روایت کی توجیہ کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں:
۱۔اس روایت میں ضرر اور نقصان سے مراد : جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے ۔ اگر کوئی گنہگار بھی امام علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین علیہم السلام سے محبت اوردوستی کرےتو وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ ان کی محبت اس کے عذاب کوختم کر دے گا۔
2۔حقیقی محب اور دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کی عزت اوراحترام کا خیال رکھے اور کوئی ایسا کام انجام نہ دے جو اس کی ناراضگی کا باعث بنتا ہو۔ جوبھی امام علی علیہ السلام کا حقیقی اورسچا عاشق ہو گا وہ گناہ کا مرتکب نہیں ہوسکتا اوروہ گناہ کے برے اور مضر اثرات سے دور ہے گا۔
3۔ جس شخص کی امام علی علیہ السلام سے سچی محبت اوردوستی ہو گی وہ توبہ کرنے میں کامیاب ہو گا اور اس کے گناہ مٹ جائیں گے یا آپ کی شفاعت کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا[7] ۔
4۔ امیر المومنین علیہ السلام کی مکمل محبت کامل ایمان ہے اور جو مکمل ایمان رکھتا ہو تو گناہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ خدا وند متعال امام علی علیہ السلام کی محبت اور احترام کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ایسی بات نہیں کہ ان کے گناہوں اور خطاؤں کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہوگا بلکہ حساب و کتاب ہونگے لیکن امام علی علیہ السلام سے محبت کی وجہ سے خداوند متعال اسے معاف کر دے گا۔
لیکن مومنین کو مختلف احتمالات پر بھروسہ کرنے کے بجائے تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرنا چاہیے۔ اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کو امید رکھنی چاہیے کہ ان کے گناہ معاف ہو جائیں گے، لیکن وہ گناہ جو سہوا ،غیر عمدی اوراتفاقی اس سے سرزد ہو چکا ہو لیکن ایسے افراد کے گناہ معاف نہیں ہوں گے جن کی صبح و شام عادت ہی گناہ بجا لا نا ہو۔
امام علی علیہ السلام کی محبت،انسان کے عمل میں آشکار ہو تو یقیناً ایسی محبت انسان کو جہنم سے دور رکھتا ہےلیکن عمل کے بغیر صرف زبان کی حد تک محبت ہو تو شاید یہ کوئی فائدہ نہ دے ۔ سچا عاشق وہ ہوتا ہے جو اپنی محبت کو اپنے عمل سے ثابت کرے۔ امام علی علیہ السلام سے محبت کی سب سے واضح نشانی انسان کے عملی زندگی میں اس کا ظہور ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "ہمارے شیعہ متقی ، پرہیزگار ،دیانتدار، امانت دار اور صاحب زہد و عبادت ہے"[8]۔
اَبُو عَلِیٍّ الْاَشْعَرِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ وَ اَحْمَدَ بْنِ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ عَنْ اَبِیهِ جَمِیعاً عَنْ اَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ (علیه‌السّلام) قَالَ قَالَ لِی یَا جَابِرُ اَیَکْتَفِی مَنِ انْتَحَلَ التَّشَیُّعَ اَنْ یَقُولَ بِحُبِّنَا اَهْلَ الْبَیْتِ فَوَ اللَّهِ مَا شِیعَتُنَا اِلَّا مَنِ اتَّقَی اللَّهَ وَاَطَاعَهُ وَمَا کَانُوا یُعْرَفُونَ یَا جَابِرُ اِلَّا بِالتَّوَاضُعِ وَالتَّخَشُّعِ وَالْاَمَانَةِ وَکَثْرَةِ ذِکْرِ اللَّهِ وَالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ وَالْبِرِّ بِالْوَالِدَیْنِ وَالتَّعَاهُدِ لِلْجِیرَانِ مِنَ الْفُقَرَاءِ وَاَهْلِ الْمَسْکَنَةِ وَالْغَارِمِینَ وَالْاَیْتَامِ وَصِدْقِ الْحَدِیثِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَکَفِّ الْاَلْسُنِ عَنِ النَّاسِ اِلَّا مِنْ خَیْرٍ وَکَانُوا اُمَنَاءَ عَشَائِرِهِمْ فِی الْاَشْیَاءِ قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا نَعْرِفُ الْیَوْمَ اَحَداً بِهَذِهِ الصِّفَةِ فَقَالَ یَا جَابِرُ لَا تَذْهَبَنَّ بِکَ الْمَذَاهِبُ حَسْبُ الرَّجُلِ اَنْ یَقُولَ اُحِبُّ عَلِیّاً وَاَتَوَلَّاهُ ثُمَّ لَا یَکُونَ مَعَ ذَلِکَ فَعَّالًا فَلَوْ قَالَ اِنِّی اُحِبُّ رَسُولَ اللَّهِ- فَرَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) خَیْرٌ مِنْ عَلِیٍّ (علیه‌السّلام) ثُمَّ لَا یَتَّبِعُ سِیرَتَهُ وَلَا یَعْمَلُ بِسُنَّتِهِ مَا نَفَعَهُ حُبُّهُ اِیَّاهُ شَیْئاً فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْمَلُوا لِمَا عِنْدَ اللَّهِ لَیْسَ بَیْنَ اللَّهِ وَبَیْنَ اَحَدٍ قَرَابَةٌ اَحَبُّ الْعِبَادِ اِلَی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَاَکْرَمُهُمْ عَلَیْهِ اَتْقَاهُمْ وَاَعْمَلُهُمْ بِطَاعَتِهِ یَا جَابِرُ وَاللَّهِ مَا یُتَقَرَّبُ اِلَی اللَّهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی اِلَّا بِالطَّاعَةِ وَمَا مَعَنَا بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَلَا عَلَی اللَّهِ لِاَحَدٍ مِنْ حُجَّةٍ مَنْ کَانَ لِلَّهِ مُطِیعاً فَهُوَ لَنَا وَلِیٌّ وَمَنْ کَانَ لِلَّهِ عَاصِیاً فَهُوَ لَنَا عَدُوٌّ وَمَا تُنَالُ وَلَایَتُنَا اِلَّا بِالْعَمَلِ وَالْوَرَع. [۹]
جابر کہتے ہیں: امام باقر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: اے جابر! کیا شیعہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے لیے ہمارے خاندان کی محبت کا دم بھرنا کافی ہے؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ خدا سے ڈرو اور اس کی اطاعت کرو۔ اے جابر! ان کی پہچان نہیں ہونی چاہیے: سوائے عاجزی، انکساری، امانت داری اور ذکر الٰہی کے کثرت سے، روزہ، نماز، والدین کے ساتھ حسن سلوک، غریب و مسکین پڑوسیوں، قرض خواہوں، یتیموں کے حقوق کی رعایت ،سچائی ،قرآن کی تلاوت اور سوائے لوگوں کی نیکیوں کو بتانے کے علاوہ اپنی زبان کی حفاظت کرنا اور وہ اپنے خاندان کے امانتدار ہیں ۔
جابر کہتے ہیں کہ میں نے کہا:یا ابن رسول اللہ! ہم آج ان صفات کے حامل کسی کو نہیں جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: اے جابر! مختلف راستوں سے دھوکہ نہ کھائیں! کیا آدمی کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ میں علی سے محبت کرتا ہوں اور ان کی پیروی کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود کوئی دینی فعالیت انجام نہ دے ۔پس اگر وہ کہے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سے افضل ہیں۔پھر وہ اپنے عملی زندگی میں آپ کی پیروی نہ کرے اورآپ کی سنت پر عمل نہ کرے تو اس محبت کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، لہذا خدا سے ڈرو اور خدا کے فرامین پر عمل کرو، خدا وند متعال کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے ۔ خدا وند متعال کے نزدیک کے سب سے زیادہ عزیز وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی اور فرمانبردار ہے۔
اے جابر! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے علاوہ کسی اورطریقہ سے قرب خداوندی کو حاصل نہیں کر سکتا ہے اور جہنم سے آزاد نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو خدا پر حجت ہے، جو بھی خدا کی اطاعت کرے گا وہ ہمارا دوست ہے اور جو بھی خدا کی نافرمانی کرے گا وہ ہمارا دشمن ہے۔ ہماری ولایت سوائے تقویٰ الہی کے حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔
اس روایت میں شیعوں اور امیر المومنین علیہ السلام کے چاہنے والوں کی کم از کم دس خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور امام محمد باقر علیہ السلام خود فرماتے ہیں کہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے ،اورتقرب کا وسیلہ فقط اورفقط اطاعت اور تقویٰ الہی ہے۔ آخر میں آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا : کہ جس کے پاس تقویٰ الہی نہیں ہوگا وہ ہماری ولایت اور محبت کو حاصل نہیں کر سکے گا۔
اس روایت کے مطابق ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام سے محبت اور عشق کی وجہ سے انسان سے دوسرے واجبات ساقط نہیں ہوں گے بلکہ اس روایات کے مطابق امام علیہ السلام کے ساتھ محبت اور عشق سبب بنتی ہے کہ انسان اللہ تعالی کی طرف سے جو ذمہ داریاں اور تکالیف معین ہوئے ہیں ان پر پہلے سے زیادہ عمل کریں کیونکہ محبت کرنے والا اورعاشق ہمیشہ محبوب اور معشوق کی رضایت حاصل کرنا چاہتا ہے اورامام علی علیہ السلام کی رضایت اورخوشنودی خدا وند متعال کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے۔لہذا اگر کوئی خداوند متعال کی اطاعت کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے تو گویا وہ سچا محب اورعاشق بھی نہیں ہے۔
بنابر این امیر المومنین علیہ السلام سے محبت خدا وند متعال اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سےمشتق ہے۔ لہذا انسان کو اپنے اعمال کے ذریعہ اس کا انعکاس کرنا چاہیے اور اس کا پہلا مرحلہ خداوند متعال کے اوامر کی اطاعت اورنواہی سے اجتناب کرنا ہے ۔ عقلی نقطہ نظر سے بھی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کوئی خدا وند متعال اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا زبانی دعویٰ کرتا پھرے لیکن عملی طور پر ان کے دستورات کے برعکس عمل کرے۔
قرآن کریم نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے: (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونی یُحْبِبْکُمُ اللَّهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحیمٌ) [۱۰]
کہہ دو کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تاکہ خدا تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخش دے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسرا حصہ: «بُغْضُهُ سَیِّئَةٌ لَا تَنْفَعُ مَعَهَا حَسَنَة»
روایت کے اس حصہ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام سے دشمنی رکھ کر کوئی بھی نیکی بجا لائے تو اس کا کوئی فائدہ اورثواب نہیں ہے اور یہ اسے جہنم میں داخل کرنے کا باعث بنتا ہے۔ کوئی بھی نیک عمل اس قسم کے افرادکو جہنم سے نہیں بچا سکتامگر یہ کہ اس کے عذاب میں کچھ تخفیف ہو۔ کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لئے شرط ہے کہ وہ امام علی علیہ السلام سے محبت کرے یا حد اقل آپ سے دشمنی نہ رکھتا ہو۔ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ : اگر کوئی امام علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہو تو اس دشمنی کی تکوینی اثر کی وجہ سے وہ نیک اعمال بنا لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں [۱۱]۔
بےشمار احادیث میں امام علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے ۔سیوطی آیت کریمہ (وَلَتَعْرِفَنَّ هُمْ فىِ لَحْن ِالْقَوْل) (اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے)کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ :آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے۔[۱۲] اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے :(ما کنا نعرف المنافقین علی عهد رسول الله{ص}الا ببغضهم علی ابن ابی طالب{ع})[۱۳] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتےتھے ۔نسائی {متوفی 303ھ}نے خصائص امیر المومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرادیا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین حدیثیں نقل کرتےہیں جن میں آپ ؐفرماتے ہیں :امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا {اسی طرح}منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے ۔[۱۴]
خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں[۱۵] جن کے مضامین اس طرح کے ہیں:
1۔ (انی افترضت محبة علی ابن ابی طالب علی خلقی عامة)حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے ۔
2۔ (لواجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار) اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت پر متفق ہو جاتےتو خدا وند جہنم کو خلق نہ کرتا ۔
3۔اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلام کی اس عمر کے برابر(جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری)عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفاو مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن {حضرت}علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔
4۔(من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی)جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے ۔
5۔(ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء) ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے ۔
6۔(من زعم انه امن بی و بما جئت به و هو یبغض علیا فهو کاذب لیس بمومن)جوشخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہومگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتاہوتو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے ۔
اسی طرح شبلنجی شافعی نےنور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیاہے :
1۔مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے :(والذی فلق الحبة و برا النسمة انه لعهد النبی الامی بانه لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق)خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کےسوا کوئی مجھ سےبغض نہیں کرتا ۔
2۔ترمذی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں :(کنا نعرف المنافقین ببغضهم علیا) [۱۶] ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بے شمارحدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں[۱۷] کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

نتیجہ بحث:
مجموعی طور پراس حدیث سے پانچ نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:
۱۔ اس حدیث کے مستفیضہ ہونے اور ادعا شہرت کی وجہ سے سندی اعتبار سے جائزہ لینے کی پھر ضرورت نہیں ہےلیکن اگر روایت کی سند کا جائزہ لیں تب بھی اس حدیث کے صحیح ہونے کا علم اور یقین ہو جاتا ہے۔
۲۔ امام علی علیہ السلام سے محبت اورعشق جو سب سے بڑی نیکی ہے، اس کے ساتھ گناہ بھی انجام دے تو یہ دائمی عقاب کا باعث نہیں بنتا ہےکیونکہ جس کے دل میں امام علی علیہ السلام کی محبت اورعشق موجود ہو اوروہ گناہگار بھی ہو تو اس کا عقاب کچھ مدت تک کے لئے ہو گا اور کچھ مدت کے بعد امام علی علیہ السلام کی شفاعت کی وجہ سے یا بعض مراحل میں جیسے جان کنی کے عالم میں یا عالم برزخ اورقیامت میں کچھ عقاب اورسزا کو تحمل کرنے کے بعد معاف کر دیا جائے گا۔
۳۔امام علی علیہ السلام سے محبت اورمودت گناہوں سے دوری اختیار کرنے اور توبہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔
۴۔ اس حدیث کی بہترین توجیہ یہ ہے کہ امام علی علیہ السلام کے سچے عاشق کبھی گناہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتےہیں چہ جائیکہ یہ افراد گناہ انجام دیں لہذا امام علی علیہ السلام کی محبت اور ان سےعشق ،انسان کو گناہوں سے دور رکھنے کا بہترین عامل ہے۔
۵۔امام علی علیہ السلام سے محبت اور مودت سبب نہیں بنتا کہ دوسرے تمام الہی فرائض کالعدم ہو اورانسان واجبات کو انجام نہ دیں اور محرمات کو ترک نہ کریں بلکہ اس روایت کے مطابق امام علی علیہ السلام سے محبت اورمودت انسان کو پہلے سے زیادہ احکام الہی کا پابند بنا دیتا ہے کیونکہ عاشق اور محب معشوق اورمحبوب کی رضایت کو حاصل کرنا چاہتا ہےاور امام علی علیہ السلام کی رضایت اورخوشنودی اطاعت خداوندی میں ہے اورجو شخص خدا وند متعال کی اطاعت نہ کریں تو حقیقت میں وہ عاشق اورمحب نہیں ہے۔


حوالہ جات:
1. ابن شازان قمی، ابو الفضل سدید الدین، الروضہ فضائل امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام، محقق، تصحیح، شکرچی، علی، ص. علامہ حلی، حسن ابن یوسف، نہج الحق و کشف الصادق، ص 259، بیروت، دار الکتاب البانی، پہلا ایڈیشن، 1982۔ ابو شجاع دیلمی ہمدانی، شیرویہ ابن شہردار، الفردوس مع اثر الخطاب، ج2، ص 2۔
2. الروضہ ان فضیلت میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام، ص 28۔
3۔ الفردوس بمثور الخطاب، ج 2، ص 142; سیوطی، عبدالرحمٰن بن ابی بکر، الحوی برائے فتویٰ، ج2، ص53، بیروت، دار الفکر برائے طباعت و اشاعت، 1424ھ۔
4۔ شافعى إیجى، ‏ احمد بن جلال الدین، فضائل الثقلین من کتاب توضیح الدلائل على ترجیح الفضائل‏، ص 227، تهران، المجمع العالمى للتقریب بین المذاهب الإسلامیة، المعاونیة الثقافیة، چاپ اول، 1428ق.
5۔ ابن شہر اشوب مازندرانی، مناقب آل ابی طالب (ص)، جلد 3، صفحہ 197، قم، علامہ پبلی کیشنز، پہلا ایڈیشن، 2000۔
6۔ آغا جمال خوانساری، محمد، آغا جمال خنساری کی تفصیل غر الحکم اور دار الکلام پر، محقق، پروف ریڈر، حسینی ارماوی محدث، جلال الدین، جلد 2، صفحہ 482، تہران یونیورسٹی.
7۔شرح الحکم اور دار الکلام پر جناب جمال خوانساری کی تفسیر، جلد 2، ص 482۔
8۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 65، ص 167، بیروت، دار الاحیاء التراث العربی، دوسرا ایڈیشن، 1403ھ۔
9۔ الکلینی الرازی، ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق (متوفای۳۲۸ ه)، الاصول من الکافی، ج۲، ص۷۵، ناشر:اسلامیه، تهران، الطبعة الثانیة، ۱۳۶۲ ه. ش.
۱۰۔ آل عمران ، آیه۳۱.
۱۱۔شرح الحکم اور دار الکلام، جلد 2، صفحہ 481-482
۱۲۔الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۱۳۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۱۴۔خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
۱۵۔المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
۱۶۔نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
۱۷۔الریاض النضرۃ ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .