۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 395396
23 دسمبر 2023 - 16:27
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ سوال یہ ہے کہ اس عصر غیبت میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اگرچہ ہم منتظر ہیں اور انتظار بہترین عبادت ہے لیکن یہ عبادتِ انتظار کس طرح ہو گی اس پر توجہ ضروری ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی عبادت ہو ، نماز وہو یا روزہ، حج ہو یاتلاوت قرآن سب کے اپنےاحکام اور شرائط ہیں اور یہ عبادتیں اسی وقت قبول ہوں گی بلکہ عبادت کہی جائیں گی جب یہ احکام و شرائط کی روشنی میں انجام پائیں ۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | قادر مطلق خالق اکبر نے انسان کو خلق کرنے کے بعد اسے لاوارث نہیں چھوڑا ۔ جہاں اس نے خلقت کا اہتمام کیا وہیں ہدایت کا بھی انتظام کیا بلکہ اس نےہدایت پانے والوں کو بعد میں بھیجا ہدایت دینے والوں کو پہلے بھیجا ۔ اللہ نے انسان کی ہدایت کےلئے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو بھیجا ، کتب و صحف نازل کئے۔ آخر میں ہمارے نبی سرکار ختمی مرتبت احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیجا ۔

ہمارے نبی ؐ پر سلسلہ نبوت و رسالت کو ختم کیا اور ہدایت کے لئےسلسلہ امامت کا آغاز کیا ، جس کا اعلان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم خدا سے آخری حج سے واپسی پر مقام غدیر خم پر کیا۔ میدان غدیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف ایک امام یعنی فقط امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا اعلان نہیں کیا بلکہ ۱۲ اماموں کی امامت کا اعلان فرمایا۔ جسمیں پہلے امام امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ہاتھوں پر بلند کے فرمایا: ‘‘جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؐ بھی مولا ہیں ’’ یعنی جس معنیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت کے مولا ہیں اسی معنیٰ میں امیرالمومنین علیہ السلام بھی امت کے مولا ہیں اور نہ صرف امیرالمومنین علیہ السلام بلکہ باقی گیارہ ائمہ علیہم السلام بھی اسی معنیٰ میں مولا ہیں۔ اس زمانے میں اسی معنیٰ میں ہمارے مولا منجی عالم بشریت قطب عالم امکان لنگر زمین و زمان حضرت صاحب الزمان امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف و صلواۃ اللہ و سلامہ علیہ و علیٰ آبائہ الطاہرین ہیں ۔

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ غدیر میں بیان فرمایا: ‘‘أَلا إنَّ خاتَمَ الأَئِمَّةِ مِنَّا الْقائِمَ الْمَهْدِی. أَلا إنَّهُ الظّاهِرُ عَلَی الدّینِ. أَلا إنَّهُ الْمُنْتَقِمُ مِنَ الظّالِمینَ. أَلا إنَّهُ فاتِحُ الْحُصُونِ وَهادِمُها. أَلا إنَّهُ غالِبُ کُلِّ قَبیلَةٍ مِنْ أَهْلِ الشِّرْکِ وَهادیها۔ أَلا إنَّهُ الْمُدْرِکُ بِکُلِّ ثارٍ لاِءَوْلِیاءِ اللّه‏ِ. أَلا إنَّهُ النّاصِرُ لِدینِ اللّه‏ِ. أَلا إنَّهُ الْغَرّافُ مِنْ بَحْرٍ عَمیقٍ. أَلا إنَّهُ یسِمُ کُلَّ ذی فَضْلٍ بِفَضْلِهِ وَکُلَّ ذی جَهْلٍ بِجَهْلِهِ. أَلا إنَّهُ خِیرَةُ اللّه‏ِ وَمُخْتارُهُ. أَلا إنَّهُ وارِثُ کُلِّ عِلْمٍ وَالْمُحیطُ بِکُلِّ فَهْمٍ۔ أَلا إنَّهُ الْمُخْبِرُ عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُشَیدُ لاِءَمْرِ آیاتِهِ. أَلا إنَّهُ الرَّشیدُ السَّدیدُ. أَلا إنَّهُ الْمُفَوَّضُ إلَیهِ۔ أَلا اءنَّهُ قَدْ بَشَّرَ بِهِ مَنْ سَلَفَ مِنَ الْقُرُونِ بَینَ یدَیهِ۔ أَلا إنَّهُ الْباقی حُجَّةً وَلا حُجَّةَ بَعْدَهُ وَلا حَقَّ إلاّ مَعَهُ وَلا نُورَ إلاّ عِنْدَهُ ۔ أَلا إنَّهُ لا غالِبَ لَهُ وَلا مَنْصُورَ عَلَیهِ. أَلا وَإنَّهُ وَلِی اللّه‏ِ فی أَرْضِهِ، وَحَکَمُهُ فی خَلْقِهِ، وَأَمینُهُ فی سِرِّهِ وَعَلانِیتِهِ’’

یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدی ہے ، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے، وہی قلعوں کو فتح کر نے والا اور ان کو منہدم کر نے والا ہے ،وہی مشرکین کے ہر گروہ پر غالب اور ان کی ہدایت کر نے والا ہے۔آگاہ ہوجاؤ وہی اولیاء خداکے خون کا انتقام لینے والااور دین خدا کا مددگار ہے جان لو! کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کر نے والا ہے۔ عمیق دریا سے مراد میں چند احتمال پائے جا تے ہیں ،منجملہ دریائے علم الٰہی، یا دریائے قدرت الٰہی، یا اس سے مراد قدرتوں کا وہ مجمو عہ ہے جو خداوندعالم نے امام علیہ السلام کو مختلف جہتوں سے عطا فر مایا ہے “ وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جاہل پر اس کی جہالت کا نشانہ لگا نے والا ہے۔آگاہ ہوجاوٴ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے، وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احاطہ رکھنے والا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ وہی پروردگار کی طرف سے خبر دینے والا اورآیات الٰہی کو بلند کر نے والا ہے وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے۔ اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے۔ وہی حجت باقی ہے اور اس کے بعد کو ئی حجت نہیں ہے، ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے، اس پر کو ئی غالب آنے والا نہیں ہے وہ زمین پر خدا کا حاکم، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ہر مسئلے میں اس کا امین ہے۔ (خطبہ غدیر)

سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام معجز بیان کی روشنی میں ہمارے ولی و وارث حضرت بقیۃ اللہ المنتظر امام مہدی علیہ الصلوٰۃ و السلام ہی کائنات کی آخری امید ہیں ، دنیا میں تڑپتی انسانیت کے مسیحا فقط آپؑ ہیں ۔ صرف ہم شیعہ ہی نہیں بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب بھی اسی منجی عالم بشریت کے منتظر ہیں کہ جب وہ آئے گا تو دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پُر کرے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم اثناء عشری شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے بارہویں امام یعنی اللہ کی آخری حجت کی ولادت با سعادت ہو چکی ہے ، جب کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ انکی ولادت ہو گی۔ اسی طرح دیگر آسمانی اور غیر آسمانی ادیان میں بھی آپؑ کے وجود اور ظہور کا عقیدہ کثرت سے ملتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس عصر غیبت میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اگرچہ ہم منتظر ہیں اور انتظار بہترین عبادت ہے لیکن یہ عبادتِ انتظار کس طرح ہو گی اس پر توجہ ضروری ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی عبادت ہو ، نماز وہو یا روزہ، حج ہو یاتلاوت قرآن سب کے اپنےاحکام اور شرائط ہیں اور یہ عبادتیں اسی وقت قبول ہوں گی بلکہ عبادت کہی جائیں گی جب یہ احکام و شرائط کی روشنی میں انجام پائیں ۔

تمام عبادات میں کچھ چیزیں مشترک ہیں ، باطنی طہارت کے ساتھ ساتھ جسم کی ظاہری طہارت بھی لازمی ہے، لباس اور جگہ کا پاک اور حلال ہونا بھی ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر نیت ہے جسمیں ‘‘قربۃ الی اللہ’’ لازم ہے۔ یعنی جو بھی عبادت انجام دیں چاہے وہ نماز ہو یا روزہ ہو ، حج ہو یا کوئی اور عبادت ، ان سب میں ضروری ہے کہ ہم صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دیں ، غیر اللہ کا تصور نہ لائیں ،المختصر نہ کسی تعریف کرنے والے کی تعریف سے خوش ہوں اور نہ ہی کسی تنقید یا مخالفت کرنے والے کے عمل سے نالاں ہوں۔

اسی طرح انتظار جیسی بہترین عبادت میں ہمیں مذکورہ احکام و شرائط کی رعایت کرنی ہوگی تا کہ ہمارا انتظار صرف لقہ لقہ زبانی نہ ہو بلکہ واقعی ہو۔ انتظار کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھ جائیں بلکہ اس کے لئے عمل لازمی ہے، صرف دعا اور اشک فشانی نہیں بلکہ ہمیں اس کی تیاری کرنی ہو گی، ہمیں اس لائق بننا ہوگا کہ جب ہمارےآقا ظہور فرمائیں تو ہم ان کی رکاب میں شامل ہو سکیں ۔ ہم اس لائق ہوں کہ ہم اپنے امام کے سامنے حاضر ہو سکیں ، ہمارے برے عقائد اور بد اعمالیاں ہمیں امام ؑکے سامنے جانے سے نہ روک سکیں۔

لہذا عصر غیبت میں صرف انتظار ، اشک و گریہ ہی نہیں بلکہ کچھ اہم ذمہ داریاں بھی ہیں ، جنمیں چند مندرجہ ذیل ہیں ۔

۱۔ معرفت امام زمانہ علیہ السلام : امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے ، اللہ کی حمد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد فرمایا: ‘‘ائے لوگو! اللہ نے بندوں کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ اس کی معرفت حاصل کریں، جب معرفت حاصل کر لیں گے تو اس کی عبادت کریں گے اور جب خدا کی عبادت کریں گے تو اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں گے ۔ ’’ کسی نے پوچھا : فرزند رسولؐ! اللہ کی معرفت کیا ہے؟ فرمایا: ہر دور کے لوگوں پر اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کرنا جنکی اطاعت سب پر فرض ہو۔ (بحار الانوار، جلد ۵، صفحہ ۳۱۲)

اسی سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور و معروف حدیث ہے جسے شیعہ اور اہل سنت دونوں نے نقل کیا ہے ‘‘من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة الجاهلیة’’ جو اس عالم میں دنیا سے گذر جائے کہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو اسکی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ (بحار الانوار جلد ۸ صفحہ ۳۶۸ اور جلد ۳۲ صفحہ ۳۲۱) اہل سنت کتاب مسند احمد بن حنبل جلد ۲۸ صفحہ ۸۸ میں ایک لفظ کے فرق کے ساتھ یہی حدیث نقل ہوئی ہے ‘‘مَنْ مَاتَ وَ لَیسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةٌ جَاهِلِیةٌ’’ جو بغیر امام کے اس دنیا سے گذر جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔

اس لئے ہمیں معرفت امامؑ کی کوشش کرنی چاہئیے اور دعا بھی کرنی چاہئیے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے جلیل القدر صحابی اور نامور شاگرد جناب زرارہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو زمانہ غیبت کے سلسلہ میں دعا تعلیم فرمائی۔

‘‘اَللّهُمَّ عَرِّفْنى نَفْسَكَ فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى نَفْسَكَ لَمْ اَعْرِف نَبِيَّكَ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى رَسُولَكَ فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى رَسُولَكَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَكَ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى حُجَّتَكَ فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دينى’’ (اصول کافی، ج ۱، ص ۳۳۷، اسکے علاوہ مفاتیح الجنان میں بھی یہ دعا موجود ہے۔)

بارالٰہا؛ تو مجھے اپنی معرفت(شناخت) عطا کر اس لئے کہ اگر تونے مجھے اپنی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے نبی کی معرفت حاصل نہ ہوگی .خدایا ! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا کر اس لئے کہ اگر تونے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے حجت کی معرفت حاصل نہ ہوگی۔ میرے اللہ: تومجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تونے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہیں عطا کی تو میں اپنے دین ہی سے گمراہ ہوجاوٴوں گا۔

۲۔ ولایت میں ثابت قدمی: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘طُوبى لِشيعَتِنَا الْمُتَمَسِّكينَ بِحُبِّنا فى غَيْبَةِ قائِمنا اَلثّابِتينَ عَلى مُوالاتِنا وَالْبَرآئَةِ مِنْ اَعْدآئِنا اُولئِكَ مِنّا وَ نَحْنُ مِنْهُمْ وَ قَدْ رَضُوا بِنا اَئِمَّةً وَ رَضينا بِهِمْ شيعَةً وَ طُوبى لَهُمْ، هُمْ وَاللّه ِ مَعَنا فى دَرَجَتِنا يَوْمَ الْقِيامِةِ’’ (کمال الدین تمام النعمۃ، جلد ۲، صفحہ ۲۶۱)

خوش نصیب ہیں ہمارے شیعہ جو ہمارے قائم ؑ کی غیبت کے زمانے میں ہماری محبت سے متمسک ہیں ، ہماری ولایت اور ہمارے دشمنوں سے برأت میں ثابت قدم ہیں۔ وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں ، وہ ہماری امامت سے راضی ہیں اور ہم انکی شیعیت سے خوشنود ہیں ، خوش نصیب ہیں وہ ، خدا کی قسم ! قیامت کے دن وہ ہمارے ساتھ ہوں گے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘مَن ثَبَتَ على وَلايتِنا في غَيبةِ قائمنا أعطاهُ اللّه ُ أجرَ ألفِ شهيدٍ ، مثلِ شُهَداءِ بدرٍ و اُحدٍ’’ (کمال الدین تمام النعمۃ، جلد ۱، صفحہ ۴۳۹)

جو بھی ہمارے قائمؑ کے عصر غیبت میں ہماری ولایت پر ثابت قدم ہو گا اللہ اسے بدر و احد کے شہداء جیسے ہزار شہیدوں کا اجر و ثواب عطا کرے گا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب ان کا امام غائب ہو گا۔ جناب زرارہؒ نے پوچھا مولا! ایسے عالم میں لوگوں کو کیا کرنا چاہئیے ؟ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘یتمسکون بالامر الذی هم علیه حتی یتبین لهم’’ لوگ امر ولایت سے تمسک کریں یہاں تک کہ وہ ظاہر ہو جائیں ۔ (کمال الدین ، جلد ۲، صفحہ ۳۳)

۳۔ انتظار فرج

عصر غیبت میں مومنین کا ایک اہم فریضہ انتظار فرج ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کاسب سے افضل عمل انتظار فرج ہے۔ (مجمع البحرین، صفحہ ۲۹۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: بندے اس وقت اللہ سے نزدیک ہیں اور وہ بندوں سے اس وقت سب سے زیادہ راضی ہے جب حجت خدا غائب ہو، انہیں معلوم نہ ہو، انہیں انکی جگہ کا علم نہ ہو۔ اس کے باوجود انکا عقیدہ ہو کہ حجت خدا اور میثاق باطل نہیں ہے۔ اس وقت ہر صبح و شام انتظار کرو۔ (کافی، جلد ۲، صفحہ۱۲۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب سے فرمایا: تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ جنمییں سے ایک کو تمہارے پچاس لوگوں کے برابر اجر ملے گا۔ اصحاب نے پوچھا : یا رسول اللہؐ! ہم نے جنگ بدر و احد اورحنین میں آپؐ کے ساتھ شرکت کی ، کیا ہمارے سلسلہ میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے؟ حضورؐ نے فرمایا: جو کچھ ان کے ساتھ ہوگا اگر وہ تمہارے ساتھ ہو تو تم صبر نہیں کر سکتے۔ (کافی، جلد۸، صفحہ۳۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: صبر کے ساتھ انتظار فرج عبادت ہے۔ (الدعوات، صفحہ ۴۱)

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: کتنا اچھا ہے صبر اور انتظار فرج۔ (بحار الانوار، جلد۵۲، صفحہ ۱۲۹)

۴۔ تہذیب نفس

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کےاصحاب میں شامل ہونے پر خوش ہو اسے چاہئیے انتظار کرے، تقویٰ اور نیک اخلاق سے پیش آئے تو وہی (حقیقی )منتظر ہے۔ (غیبت نعمانی، صفحہ ۲۰۰)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: بے شک صاحب امر کے لئے غیبت ہے لہذا بندگان خدا تقویٰ اختیار کریں اور دین سے متمسک رہیں۔ (کافی، جلد ۲، صفحہ ۱۳۲)

۵۔ اصلاح معاشرہ

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو نصیحت فرمائی : تمہارے طاقتور کمزوروں کی مدد کریں، مالدار فقراء پر مہربانی کریں، ہر انسان اپنے برادر دینی کو وہ نصیحت کرے جو اس کے لئے مفید ہو۔ (بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضیٰ، صفحہ ۱۱۳)

۶۔ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کو یاد کرنا۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: وہ (امام مہدی علیہ السلام) لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں لیکن مومنین کے دل انکی یاد سے روشن ہیں۔ (کمال الدین، جلد۲، صفحہ ۲۲۱)

ذکر و یاد امام عالی مقام کا بہترین ذریعہ دعائے عہد اور دعائے ندبہ ہے۔ چاہنے والوں کو اس کی پابندی کرنی چاہئیے۔

۷۔ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف سے محبت

انسان جس سے محبت کرتا ہے اسکا ذہن ہمیشہ محبوب کی یاد سے روشن ہوتا ہے، اس کے دل کی ہر ڈھڑکن محبوب کی محبت کا پتہ دیتی ہے۔ اس کی زندگی، اس کا کردار، اسکی رفتار، اسکی گفتار محبوب کی ترجمانی کرتی ہے۔ اب اگر وہ محبوب حجت کبریا، ولی خدا، امام الہدیٰ ہو کہ جس کی محبت حکم الہی کے مطابق اجر رسالت ہو تو اسکی اہمیت و عظمت کا اندازہ لگانا ناممکن نہ بھی ہو تو مشکل ضرور ہے۔

بے شک خاتم الاولیاء یوسف زہرا ؑ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے محبت انسان کے ہدایت یافتہ ، نجات یافتہ اور سعادت مند ہونے کی دلیل ہے اور ان سے دوری گمراہی، ذلت و رسوائی اور ناکامی و نامرادی کا سبب ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے نور نظر یعنی ہمارے مولا و آقا حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:‘‘ واعلم ان قلوب اهل الطاعة و الاخلاص نزع الیک مثل الطیر الی او کاره’’ جان لوکہ اہل طاعت و اخلاص کے قلوب تم سے قریب ہوتے ہیں جیسے پرندے اپنے آشیانوں سے نزدیک ہوتے ہیں ۔ (کمال الدین ، جلد ۲، صفحہ ۳۴۸)

ایسا نہیں ہے کہ یہ محبت ایک طرفہ ہے بلکہ امام معصوم خود بھی اپنے چاہنے والوں سے محبت کرتے ہیں بلکہ امام کی محبت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘الامام الامین الرفیق، و الاخ الشفیق، و کالام البرة بالولد الصغیر’’ امام امین و رفیق اور برادر شفیق ہوتے ہیں اور جیسے ایک ماں چھوٹے بچے پر مہربان ہوتی ہے ویسے ہی امام اپنے چاہنے والوں پر مہربان ہوتے ہیں۔ (تحف العقول ، صفحہ ۳۲۴)

امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے چاہنے والوں سے فرمایا: ‘‘انا لنفرح لفرحکم و نحزن لحزنکم’’ ہم تمہاری خوشی سے خوش ہوتے ہیں اور تمہارے غم سے محزون ہوتے ہیں ۔ (مکیال المکارم ، جلد ۱، صفحہ ۹۴)

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ہمارا کوئی شیعہ خوش نہیں ہوتا مگر یہ کہ ہم بھی اسکی خوشی میں خوش ہوتے ہیں، ہمارا کوئی شیعہ محزون نہیں ہوتا مگر یہ کہ ہم بھی اس کے غم میں محزون ہوتے ہیں۔ ہمارا کوئی شیعہ ہم سے دور نہیں ہے چاہے مشرق میں رہتا ہو یا مغرب میں ۔ (مکیال المکارم ، جلد ۱، صفحہ ۲۵۴)

امام مہدی آخر الزماں علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘انه انهی الی ارتیاب جماعة منکم فی الدین وما دخلهم من الشک والحیرة فی ولاة امرهم، فغمنا ذلک لکم لا لنا، وساءنا فیکم لا فینا’’ مجھے تم (شیعوں) کے ایک گروہ کے دین میں شک و شبھہ اور والیان امر کے سلسلہ میں حیرانی اور پریشانی کا علم ہوا تو ہمارا غمگین ہونا تماهرے لئے تھا نہ کہ اپنے لئے، میں تمہارے لئے متاثر ہوا نہ کہ اپنے لئے۔ (بحارالانوار، جلد ۵۳، صفحہ ۱۷۸)

مذکورہ روایتیں جہاں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے محبت کی دعوت دیتی ہیں وہیں یہ بھی واضح ہو گیا کہ امام عالی مقام ہم چاہنے والوں سے کتنی محبت کرتے ہیں ، ہمارے غم میں غمگین اور ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں ۔ ائے کاش! کبھی ہم بھی اس زاویہ سے سوچیں اور محبت کے تقاضوں کی ادائیگی کی کوشش کریں۔

یہی محبت آپؑ کی غیبت میں محبت کرنے والوں کے حزن کا سبب ہے کہ ہماری آنکھیں سب دیکھ رہی ہیں سوائے اس کو جسے دیکھنے کے لئے بے چین ہیں ، سب سے ملاقات کر رہے ہیں سوائے اس کے جسکی زیارت ہر محبت کرنےوالے کے دل کی پہلی آرزو ہے۔ یہی محبت آپؑ کے مقام و مرتبے کو سمجھنے اور احترام کی دعوت دیتی ہے کہ آل محمد علیہم السلام سے کسی کا قیاس ممکن نہیں ہے۔ آل محمد علیہم السلام کی محبت و اطاعت ہی دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی کی ضامن ہے، یہی محبت ہمارے ضمیر کو بیدار کرتی ہے کہ تمہاری سب سے پہلی اور اہم دعا ظہور میں تعجیل کی دعا ہو ۔ یہی محبت ہمیں بتاتی ہے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ محبوب امام کا ذکر ہمارے ورد زباں ہو۔ دعائے عہد اور دعائے ندبہ کی پابندی کریں۔

خدا ہمیں امام ؑکی معرفت اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے اور آپؑ کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔ آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .