۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
ماہ رمضان میں اٹھائیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے کے نوافل اور مستحبات سے میرا حصہ بڑھا دے، اور مجھ پر کرم کر کہ میں مسائل( شرعیہ) کو جان سکوں، وسیلوں میں سے جو وسیلہ تجھ تک جلدی پہنچا دے ،مجھے اس کے ذریعہ قریب کر دے، اے وہ جس کو اصرار کرنے والوں کا اصرار (دوسروں سے) غافل نہیں کرتا۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان میں اٹھائیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔’’أللّهُمَّ وَفِّرْ حَظِّي فيہ مِنَ النَّوافِلِ وَأكْرِمني فيہ بِإحضارِ المَسائِلِ وَقَرِّبْ فيہ وَسيلَتي إليكَ مِنْ بَيْنِ الوَسائِلِ يا مَن لا يَشْغَلُهُ إلحاحُ المُلِحِّينَ‘‘
خدایا! اس مہینے کے نوافل اور مستحبات سے میرا حصہ بڑھا دے، اور مجھ پر کرم کر کہ میں مسائل( شرعیہ) کو جان سکوں، وسیلوں میں سے جو وسیلہ تجھ تک جلدی پہنچا دے ،مجھے اس کے ذریعہ قریب کر دے، اے وہ جس کو اصرار کرنے والوں کا اصرار (دوسروں سے) غافل نہیں کرتا۔
انسان پر الہی احکام کی دو قسمیں ہیں ایک واجب یعنی جس کی ادائیگی ہر مکلف پر لازم ہے اور اگر کوتاہی کرے گا تو سزا ملے گی۔ دوسرے مستحب ہیں یعنی جن کی ادائیگی افضل ہے لیکن اگر انجام نہیں دیا تو سزا نہیں ملے گی۔
منزل کمال تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان مستحبات اور نوافل کی پابندی سے ادائیگی کرے۔ سنتوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک اگر کوئی ساری سنتوں کو ترک کر دے تو وہ حرام کا مرتکب ہوگا۔
سنت و نوافل کی ادائیگی کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات قابل غور ہیں۔
الف۔ نوافل و مستحبات کی ادائیگی کے تین اہم اثر ہیں۔
۱۔ انسان کے گناہ محو ہو (مٹ) جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔’’ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ ۔‘‘ اور دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم رکھو ۔بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ (سورہ ہود، آیت ۱۴)
حدیث میں آیا ہے کہ مومن کی نماز شب دن میں انجام دئیے گئے گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ (جامع احاديث الشيعہ، جلد7، صفحہ 107)
بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نماز وتر گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ (جامع احاديث الشيعہ، جلد7 ، صفحہ 107، 108)
واضح رہے کہ 8 رکعت نماز شب کے بعد 2 رکعت نماز شفع ہے اور آخر میں ایک رکعت نماز وتر ہے۔ جس کے دنیا و آخرت میں بے انتہاء فوائد ر و برکات روایات میں بیان ہوئے ہیں۔
۲۔ واجب نمازوں میں غفلت اور بے توجہی کے سبب جو کمی رہ جاتی ہے وہ نوافل سے پوری ہو جاتی ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاـ: ’’ إنَّما جُعِلْتَ النّافلةُ لِيَتُمَّ بها ما يَفْسُد منَ الْفريضةِ ‘‘۔ بے شک نافلہ نمازوں کو اس لئے مقرر کیا گیا تا کہ واجب نمازوِں میں جو کمی رہ جائے اسے پورا کیا جا سکے۔ (جامع احاديث الشيعہ، ج 7 / صفحات 116، 118)
دوسرے مقام پر آپ نے فرمایا: ’’ إنَّ تباركَ و تعالي أتمَّ صلوةَ الْفريضةَ بصلوةِ النّافِلةِ‘‘۔ خدا وند عالم نے واجب نماز کو نافلہ نماز سے مکمل کیا ہے۔ (جامع احاديث الشيعہ، ج 7 / صفحات 116، 118)
ابوحمزہ ثمالی کا بیان ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: کوئی بھی نماز بغیر حضور قلب کے قابل قبول نہیں۔ تو میں نے عرض کیا کہ پھر ہم ہلاک ہو گئے۔ فرمایا: نہیں! بلکہ اسے نافلہ کے ذریعہ کامل ہو۔ (جامع احاديث الشيعہ، ج 7 / صفحہ 135)
۳۔ تقرب پروردگار (انسان اپنے خدا سے قریب ہو گا۔ )
ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ‘‘ حقیقی صاحبان ایمان رات کے سناٹے میں بستر سے الگ خوف و امید کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں۔ اور جو اللہ نے انہیں دیا ہے (اسکی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے (اچھے) اعمال کے صلہ میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ (سورہ سجدہ، آیت ۱۶، ۱۷)
’’وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ‘‘اور رات کے ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں یہ آپ کے لئے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پروردگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچادے گا۔ (سورہ اسراء، آیت ۷۹)
حدیث قدسی میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’و ما تقرَّب إليَّ عبدٌ بشيْ ءٍ احبُّ إليَّ ممّا افْترضْتُ عليهِ و انَّهُ ليتقرَّبُ إليَّ بِالنّافلةِ حتي اُحبَّهُ فَإذا احْبيْتُهُ كُنْت سَمْعَهُ الّذي يسْمع بِهِ، و بصرهُ الَّذي يُبْصرُ بِهِ و لِسانَهُ الّذي ينْطقُ بِهِ وَيَدَهُ التَّي يَبْطِشُ بها، إنْ دعاني أجبتُهُ، و إنْ سَئلني أعْطَيْتُهُ‘‘ کسی بھی بندے نے واجبات کی ادائیگی کے ذریعہ میرا تقرب حاصل نہیں کیا۔ بلکہ اس نے نوافل کی ادائیگی کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کیا تا کہ میں اس سے محبت کروں۔ اور جب میں کسی سے محبت کرتا ہوں تو وہ وہی سنتا ہے جو میں چاہتا ہوں، وہی دیکھتا ہے جو میں دکھاتا ہوں، وہی بولتا ہے جو میں پسند کرتا ہوں، وہی کرتا ہے جو میری مرضی ہوتی ہے۔ جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں اور جب وہ سوال کرتا ہے تو عطا کرتا ہوں۔ (جامع احاديث الشيعہ، ج 7 / صفحہ 99)
حدیث میں آیا ہے کہ ’’صلوةُ النَّوافِلِ قُربانُ كلِّ مؤمنِ‘‘ نافلہ نماز مومنین کے لئے اللہ سے تقرب کا وسیلہ ہے۔ (جامع احاديث الشيعہ، ج ۷ / صفحہ ۱۰۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’أشرف اُمَّتي حملةُ الْقرانِ و اصْحاب اللَّيلِ‘‘ ہماری امت کے با عظمت لوگ حاملان قرآن اور راتوں میں عبادت کرنے والے ہیں۔ (جامع احاديث الشيعہ، ج ۷ / صفحہ ۱۰۲)
ب۔ مستحبات پر عمل کا قطعاًیہ مطلب نہیں کہ انسان ایک بار انجام دے بلکہ مسلسل انجام دیتا رہے۔ یا کم از کم ایک مدت تک انجام دے۔
ج۔ نوافل کی ادائیگی کا ہرگز یہ بھی مطلب نہیں کہ انسان سب کو انجام دے بلکہ جتنا ممکن ہو اتنا انجام دے۔
د۔ مستحبات و نوافل میں جن کی تاکید زیادہ ہے جیسے نماز شب اس کی ادائیگی پر خاص توجہ دے۔
واضح رہے کہ مستحبات میں سب سے زیادہ تاکید نماز شب کی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ ہمارے بزرگ علماء جیسے آیۃ اللہ العظمیٰ بہجت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ عزاداری امام حسین علیہ السلام اور آپ ؑ پر گریہ نماز شب سے افضل اور مفید ہے۔
صاحب المیزان مفسر قرآن علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کمال تک پہنچنے کے لئے صرف دو ہی جگہ اور دو ہی وقت ہیں ایک زیارت حسینؑ دوسرے مجلس حسین علیہ السلام ۔
’’وَ أَکْرِمْنِی فِیهِ بِإِحْضَارِ الْمَسَائِلِ‘‘ خدایا! مجھ پر کرم کر کہ میں مسائل( شرعیہ) کو جان سکوں۔ کیوں کہ جب تک انسان کو احکام کی معرفت نہیں ہو گی اس پر عمل ممکن نہیں ہو گا۔
’’وَ قَرِّبْ فِیهِ وَسِیلَتِی إِلَیْکَ مِنْ بَیْنِ الْوَسَائِلِ‘‘ وسیلوں میں سے جو وسیلہ تجھ تک جلدی پہنچا دے ۔مجھے اس کے ذریعہ قریب کر دے۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں اللہ تک پہنچنے کے بہترین وسیلہ اہلبیت علیہم السلام ہیں۔ ہمیں ان سے توسل اور تمسک کرنا چاہئیے ۔ بلکہ یاد رکھنا چاہئیے کہ بغیر اہلبیتؑ کے خدا تک پہنچنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ کیوں کہ حدیث میں ہے کہ اگر اہلبیتؑ نہ ہوتے تو نہ کوئی اللہ کی معرفت حاصل کر سکتا تھا اور نہ ہی کوئی اسکی عبادت کر سکتا تھا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .