ہفتہ 13 ستمبر 2025 - 04:51
آئمہ علیہم السلام سے مدد مانگنا، "ایاک نستعین" کے خلاف یا عینِ قرآن؟

حوزہ/ دینی ماہرین نے آئمہ علیہم السلام سے توسل اور آیت «ایاک نستعین» کے درمیان تضاد کے شبہے کا جواب دیا ہے۔ اس تجزیے میں کہا گیا ہے کہ توسل کا مطلب یہ ہے کہ انسان اولیائے الٰہی کو خدا سے مانگنے کے لیے "وسیلہ" اور "ذریعہ" بنائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I

سوال: قرآن کہتا ہے: "ایاک نستعین" (یعنی صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)، تو پھر شیعہ حضرات اپنے اماموں سے مدد کیوں مانگتے ہیں اور ان سے توسل کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ شرک نہیں ہے؟

جواب: انسان اپنی روزمرہ زندگی میں دوسروں کی مدد کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا مراد یہ نہیں ہے کہ ہر طرح کی مدد طلب کرنا ممنوع ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ کوئی بھی مخلوق خود سے مستقل اثر رکھنے والی نہیں ہے۔ اصل مددگار اور ناصر صرف خدا ہے، باقی سب اسی کے حکم اور اذن سے وسیلہ بنتے ہیں۔

اہل بیتؑ سے توسل بھی انہی وسیلوں میں سے ہے جسے خدا نے مقرر کیا ہے اور قرآن نے اس کی اجازت دی ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ خود سے نہیں بلکہ خدا کے حکم سے مددگار ہیں تو یہ ہرگز شرک نہیں ہے، بلکہ قرآن نے بھی اس کی تاکید کی ہے: "وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ" (اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو)۔

تفصیلی وضاحت:

۱. "ایاک نستعین" کا مطلب: سورہ فاتحہ کی آیت ہے: "ایاک نعبد و ایاک نستعین"۔

یعنی صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مددگار کو "خود سے مستقل" سمجھ کر پکارے تو یہ شرک ہے۔ لیکن اگر یہ عقیدہ ہو کہ اصل مدد خدا کی طرف سے ہے اور باقی سب صرف اس کے وسیلے اور حکم سے مددگار بنتے ہیں، تو اس میں شرک نہیں۔

۲. انسان دوسروں کا محتاج ہے: اگر یہ آیت ظاہری طور پر لی جائے تو پھر انسان تو اپنے عقل، جسم، دوستوں اور دنیا کی کسی چیز سے بھی مدد نہیں لے سکتا! حالانکہ انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے اور دوسروں کی مدد کا محتاج ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ حکیم خدا ایسا حکم دے جو انسانی فطرت کے خلاف ہو؟ ہرگز نہیں۔ اسی لیے استعانت یعنی مدد لینا مطلقاً منع نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عقیدے سے ہے۔

۳. قرآن خود مدد لینے کی اجازت دیتا ہے: قرآن میں کئی جگہ ایک دوسرے سے مدد لینے کی تاکید کی گئی ہے: "وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى" (مائدہ: ۲) – نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔

"فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ" (کہف: ۹۵) – ذوالقرنین نے کہا: مجھے طاقت سے مدد دو۔

"فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ" (انفال: ۷۲) – مسلمانوں سے کہا گیا کہ اگر دوسرے مسلمان دین کے معاملے میں مدد چاہیں تو ان کی مدد کرو۔

پس مدد لینا خود قرآن کی نظر میں درست ہے، بشرطیکہ اسے مستقل اور بالذات نہ سمجھا جائے۔

۴. قرآن میں توسل کا ذکر: "وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ" (مائدہ: ۳۵) – اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔ اس میں ہر وہ ذریعہ شامل ہے جو خدا کے قریب کرے، جیسے اہل بیتؑ۔

"لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ" (نساء: ۶۴) – منافقوں کو حکم دیا گیا تھا کہ گناہ کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تاکہ آپ ان کے لیے دعا کریں۔

"سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي" (یوسف: ۹۸) – یوسفؑ کے بھائیوں نے اپنے والد یعقوبؑ سے دعا کی درخواست کی۔

یہ سب واضح کرتا ہے کہ اہل اللہ سے توسل قرآن کے مطابق ہے۔

۵. قرآن نے غیر مادی وسیلوں کو بھی بتایا: قرآن کہتا ہے: "وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ" (بقرہ: ۱۵۳) – صبر اور نماز سے مدد لو۔

یہی اس بات کی دلیل ہے کہ خدا نے خود وسیلوں کے ذریعے مدد طلب کرنے کی اجازت دی ہے۔

۶. "ایاک نستعین" کا حقیقی مطلب: اصل پیغام یہ ہے کہ موثرِ حقیقی صرف خدا ہے۔ آگ کو جلانے کی طاقت، سورج کو روشنی اور پانی کو حیات بخشنے کی صلاحیت بھی خدا نے دی ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی وسیلے کا سہارا لیتے ہیں تو دراصل ہم خدا کی ہی قدرت کو کارفرما مانتے ہیں۔

نتیجہ:

"ایاک نستعین" کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کسی سے بھی مدد نہ مانگے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کو اصل مددگار اور مستقل موثر مانا جائے۔ وسیلے اور اسباب، جیسے اہل بیتؑ، خدا کی اجازت سے مددگار بنتے ہیں۔ قرآن نے توسل کی تاکید کی ہے، اور یہ شرک نہیں۔

🔹 خلاصہ کلام:

اماموں یا اولیاء اللہ سے مدد مانگنا شرک نہیں، بشرطیکہ انہیں مستقل مؤثر نہ سمجھا جائے بلکہ وسیلہ اور خدا کے حکم سے مددگار مانا جائے۔ اصل مددگار ہمیشہ صرف خدا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha