تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| زندگی میں برکت، سکون اور کامیابی کے متلاشی افراد اکثر مختلف راستے اور نسخے اپناتے ہیں۔ کوئی شخص مال و دولت کو زندگی کی کامیابی کا معیار سمجھتا ہے تو کوئی شہرت اور عہدے کو؛ لیکن جب ہم اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی برکت اللہ کی قربت اور اس کے محبوب بندوں سے توسّل میں پنہاں ہے۔
شیخ عباس قمی جیسے جلیل القدر علماء کی زندگی ہمیں اس حقیقت کی بہترین مثال فراہم کرتی ہے۔
شیخ عباس قمی کو اسلامی دنیا میں دعاؤں اور زیارتوں کے مجموعے "مفاتیح الجنان" کے مصنف کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ آپ کی اس کتاب کو جو غیر معمولی مقبولیت اور قبولیت ملی، اس کی وجہ محض کتاب کی علمی حیثیت یا دعاؤں کی ترتیب نہیں بلکہ ایک روحانی و معنوی وابستگی تھی۔ شیخ عباس قمی نے خود اس راز کو یوں بیان کیا کہ جب انہوں نے "مفاتیح الجنان" کی تالیف کا آغاز کیا، تو دل میں یہ نیت کی کہ اس کتاب کا تمام تر ثواب سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں ہدیہ کریں گے۔ اسی اخلاص اور عقیدت کی برکت تھی کہ یہ کتاب نہ صرف اسلامی دنیا کے گھروں میں بلکہ قلوب میں بھی جگہ بنا گئی۔
یہاں ہمیں ایران کے صدر شہید ابراہیم رئیسی کا واقعہ بھی یاد آتا ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر اس بات کا اعتراف کیا کہ جب بھی وہ مشکلات میں گھر جاتے تھے تو سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ توسّل کرتے تھے، اور یوں ان کی مشکلات حیرت انگیز طور پر حل ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا توسّل نہ صرف روحانی طاقت کا ذریعہ ہے بلکہ دنیاوی مشکلات سے نجات پانے کا مجرب نسخہ بھی ہے۔
یہاں سے ہمیں ایک عظیم درس ملتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں برکت ہو، ہمیں بھی اپنے اعمال کو سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیے۔ اہل بیت علیہم السلام کا توسّل، خصوصاً سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)، وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے اعمال میں برکت عطا کرتا ہے بلکہ دنیاوی اور اُخروی کامیابیوں کا دروازہ بھی کھولتا ہے۔
شیخ عباس قمی نے توسّل کی ایک خاص صورت کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں برکت ہو، تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی "صلوات خاصہ" کو پڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ صلوات ایک ایسا تحفہ ہے جو نہ صرف دنیاوی مشکلات سے نجات دلانے میں مددگار ہے بلکہ روحانی و معنوی ارتقاء کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ صلوات خاصہ کی تلاوت کے ذریعے ہم اپنی حاجات کو اللہ کے حضور پیش کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ صلوات اللہ کے محبوب بندوں کا وسیلہ بن کر ہماری دعا کو قبولیت کی سرحدوں تک پہنچاتی ہے۔
آج کے دور میں جہاں مادیت پرستی اور دنیاوی کامیابی کے پیچھے دوڑ ہماری زندگیوں میں بے سکونی اور اضطراب کو جنم دے رہی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام کے وسیلے سے اپنی زندگیوں کو برکت سے مزیّن کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی شخص اخلاص کے ساتھ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتا ہے، وہ نہ صرف دنیاوی مشکلات سے نجات پاتا ہے بلکہ روحانی و معنوی فیوض و برکات سے بھی مالامال ہوتا ہے۔
لہٰذا، ہمیں اپنی زندگیوں کو بامقصد بنانے کے لیے اہل بیت علیہم السلام خصوصاً سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے توسّل کو اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہماری زندگیوں میں حقیقی برکت، سکون اور دائمی کامیابی کا ضامن ہے۔
آخر میں، اس برکت کی دعا اور توسّل کے لیے سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی صلوات خاصہ کا ذکر کیا جاتا ہے:
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى الصِّدِّيقَةِ فاطِمَةَ الزَّكيَّةِ، حَبيبَةِ حَبيبِكَ وَنَبيِّكَ، وَأُمِّ أَحِبَّائِكَ وَأَصْفيائِكَ، الَّتي انْتَجَبْتَها وَفَضَّلْتَها وَاخْتَرْتَها عَلَىٰ نِساءِ الْعالَمينَ. اللّٰهُمَّ كُنِ الطَّالِبَ لَها مِمَّنْ ظَلَمَها وَاسْتَخَفَّ بِحَقِّها، وَكُنِ الثَّائِرَ اللّٰهُمَّ بِدَمِ أَولادِها. اللّٰهُمَّ وَكَما جَعَلْتَها أُمَّ أَئِمَّةِ الْهُدىٰ، وَحَليلَةَ صاحِبِ اللِّواءِ، وَالْكَريمَةَ عِنْدَ الْمَلإِ الْأَعْلىٰ، فَصَلِّ عَلَيها و عَلَىٰ أُمِّها صَلاةً تُكْرِمُ بِها وَجْهَ أَبيها مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَتُقِرُّ بِها أَعْيُنَ ذُرِّيَّتِها، وَأَبْلِغْهُمْ عَنِّي فِي هٰذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلَ التَّحيَّةِ وَالسَّلام۔
مذکورہ بالا صلوات ہر دن کی ابتداء میں پڑھی جانی چاہیے، تاکہ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری زندگیوں میں برکت اور کامیابی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جائے۔
مزید برآں، اہل بیت علیہم السلام کا توسّل نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی میں برکت اور سکون کا باعث بنتا ہے، بلکہ یہ اجتماعی مسائل کے حل اور امت کی سربلندی کا ذریعہ بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے مختلف مراحل میں جب بھی امت مسلمہ کو چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہوا، اہل بیت علیہم السلام کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کی گئی۔ آج بھی، اگر ہم اپنے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی زندگیوں میں اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات اور ان کے توسّل کو زندہ کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دنیاوی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی فلاح کی طرف لے جاتا ہے۔
اسی طرح، جو بھی قوم اپنی زندگی کو اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال لے، وہ قوم کبھی زوال پذیر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو بھی اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ان کے وسیلے کی اہمیت سے روشناس کرائیں، تاکہ وہ ایک ایسی قوم کی صورت میں پروان چڑھیں جو ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کر سکے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی مستحق ٹھہرے۔