حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایام فاطمیہ کے موقع پر مولانا تنویر عباس اعظمی نے جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کی تاریخ میں اختلاف، اور تبلیغِ دین کے مؤثر انداز پر خصوصی گفتگو کی، جسے ہم قارئین کے لیے سوال و جواب کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔
حوزہ: سب سے پہلے اپنا تعارف اور دینی و تبلیغی سفر کے بارے میں بتائیے۔
مولانا تنویر عباس: میرا نام سید تنویر عباس رضوی ہے، میں اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ شیولی سے تعلق رکھتا ہوں اور اس وقت مرادآباد میں دینی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ ابتدائی دینی تعلیم جامعہ ناصریہ جونپور میں حاصل کی، پھر جامعہ انوار العلوم الہ آباد میں تین سال تک تعلیم جاری رکھی۔ اس کے بعد جامعۃ الامام امیرالمؤمنینؑ نجفی ہاؤس، ممبئی میں تعلیم حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے چند سال قم المقدسہ میں رہا، اور 2002 میں وطن واپسی کے بعد تبلیغی سفر کا آغاز کیا۔
سب سے پہلے گجرات کے شہر بڑودہ میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، پھر ضلع کھيڑا کے قصبہ رستم پور اور بعد میں احمد آباد و آندھرا پردیش کے شہر وجے واڑہ میں پانچ سال تک امام جمعہ اور مبلغ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا رہا۔ 2016 سے اب تک مرادآباد میں محراب و منبر سے دین کی خدمت کر رہا ہوں، الحمد للہ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
حوزہ: آپ ایک بین الاقوامی مبلغ ہیں، تبلیغ کے سلسلے میں کن ممالک کا سفر کیا ہے؟
مولانا تنویر عباس: میں نے سن 2006 میں محرم کے عشرے کے موقع پر تبلیغ کے لیے دبئی کا سفر کیا۔ اس سفر میں مولانا اکبر کمال الدین صاحب قبلہ الہ آبادی بھی میرے ہمراہ تھے۔ الحمد للہ یہ سفر نہایت کامیاب اور بابرکت رہا۔
حوزہ نیوز: ایامِ فاطمیہ کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے اور انہیں مزید پررونق بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
مولانا تنویر عباس: ایامِ فاطمیہ تاریخِ اسلام کا ایک عظیم باب ہیں، انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ قرآنِ مجید میں اللہ نے فرمایا ہے: “ایامُ اللہ کو یاد کرو، اللہ تمہیں یاد رکھے گا”۔
ان ایام کو کثرت سے منانا چاہیے تاکہ امتِ محمدیہ کو معلوم ہو کہ تاریخ کا یہ عظیم سانحہ دراصل کن حقائق پر مبنی ہے۔
بی بی زہرا سلام اللہ علیہا دربار میں صرف فدک کے مطالبے کے لیے نہیں گئیں بلکہ امامت اور رسالت کی حقیقی نیابت کے دفاع کے لیے گئیں۔
ان ایام کو مزید پررونق بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں مجالسِ فاطمیہ کا انعقاد ہو تاکہ سیدہ کی مظلومیت ہر فرد تک پہنچ سکے۔
حوزہ: ایامِ فاطمیہ کو جمادی الاول سے جمادی الثانی تک کیوں منایا جاتا ہے، جبکہ شہادت کی ایک ہی تاریخ ہے؟
مولانا تنویر عباس: یہ اختلاف دراصل تاریخی روایات میں اختلاف کی بنیاد پر ہے۔ بعض مورخین نے شہادت کی تاریخ 11 تا 13 جمادی الاول بیان کی، جب کہ بعض نے 3 جمادی الثانی۔
قدیم مؤرخ ابن قتیبہ کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد 75 دن زندہ رہیں، یہی نظریہ علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے بحارالانوار میں بھی نقل کیا ہے، جبکہ بعض روایات میں 100 دن کا ذکر ہے۔
لہٰذا علما نے یہ طے کیا کہ بی بی کی یاد دونوں مہینوں میں منائی جائے تاکہ جو بھی صحیح تاریخ ہو، وہ شامل ہو جائے۔
حوزہ: بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دربار میں جو خطبہ فدک دیا، اس کا مقصد کیا تھا؟
مولانا تنویر عباس: شہزادی نے خطبہ فدک کے ذریعے اپنی صداقت اور مولا علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کو واضح کرنا چاہا، کیونکہ بعض لوگ انکار کر رہے تھے، حالانکہ خدا نے خود سیدہ کو صدیقہ قرار دیا ہے۔
جب لوگ سیدہ کی صداقت مان لیتے تو امام علیؑ کی ولایت کو تسلیم کرنا ان کے لیے آسان ہو جاتا۔ یہ مسئلہ فدک کا نہیں تھا، بلکہ امامت اور حقِ ولایت کا تھا۔
حوزہ نیوز: ایک کامیاب اور مؤثر مبلغ بننے کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
مولانا تنویر عباس: سب سے پہلے مبلغ کا باعمل ہونا ضروری ہے تاکہ اس کی بات میں اثر ہو۔
جیسا کہ ایک واقعے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک عورت نے شکایت کی کہ میرا بچہ بہت میٹھا کھاتا ہے، تو آپؐ نے فرمایا: کل آنا۔ اگلے دن آپؐ نے بچے سے کہا: میٹھا کم کھاؤ۔
عورت نے عرض کیا: آپؐ یہ بات کل بھی فرما سکتے تھے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: میں نے کل خود میٹھا کھایا تھا، اگر خود عمل نہ کرتا تو نصیحت اثر نہ کرتی۔
اسی طرح مبلغ کے اندر اخلاصِ نیت، صلاحیت، اور لہجے میں نرمی و شیرینی ہونی چاہیے۔
جیسا کہ قرآن میں اللہ نے موسیٰؑ و ہارونؑ سے فرمایا کہ فرعون کے پاس جاؤ اور نرمی سے گفتگو کرو، شاید وہ مان جائے اور ہدایت پا جائے۔
حوزہ: آج کے نوجوانوں کو دین کی طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے؟
مولانا تنویر عباس: نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کرنے کا بہترین طریقہ آئمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث اور پاکیزہ سیرت ہے۔
جیسا کہ ایک امامؑ نے فرمایا: ایک زمانہ آئے گا جب دل مردہ ہو جائیں گے، ایسے میں ہماری احادیث اور ہمارے ذکر کے ذریعے انہیں زندہ کیا جا سکتا ہے۔
حوزہ: موجودہ حالات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
مولانا تنویر عباس: آج علم کی روشنی پھیلنے کے ساتھ ساتھ جہالت اور گمراہی کے اندھیرے بھی بڑھ رہے ہیں۔
ایسے میں ہر جگہ دینی تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے تاکہ نوجوان دین کے بنیادی مسائل اور آئمہ علیہم السلام کی سیرت سے آگاہ ہوں۔
خصوصاً امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانہ غیبت میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں — اس پہ مسلسل گفتگو جاری رہنی چاہیے تاکہ نوجوانوں میں بیداری پیدا ہو۔
حوزہ نیوز: ایامِ فاطمیہ کے موقع پر مبلغین اور کنیزان سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
مولانا تنویر عباس: میرا پیغام یہ ہے کہ تمام مبلغین کو چاہیے کہ ان ایام میں شہزادی کی سیرت پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالیں۔ جو پیغام پیش کریں وہ مستند ہو، قرآن و حدیث اور تاریخ کی روشنی میں ہو قرآن اور روایات پر گہری نظر ہونی چاہیے تاکہ پیغام مؤثر بنے۔
کنیزانِ سیدہ کو چاہیے کہ وہ شہزادی کی زندگی کا مطالعہ کریں تاکہ سمجھ سکیں کہ آپؑ نے بطور بیٹی، بیوی، ماں اور ایک باحیا خاتون کے کیا مثالی کردار پیش کیا۔
حوزہ: آخر میں ہمارے قارئین کے لیے کوئی پیغام؟
مولانا تنویر عباس: میں حوزہ نیوز ایجنسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ موقع دیا۔ میری دعا ہے کہ خداوندِ عالم اپنی آخری حجت کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور حوزہ نیوز کو مؤمنین تک صحیح اور سچی خبریں پہنچانے کی مزید توفیق عطا کرے۔









آپ کا تبصرہ