حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ سے گفتگو کے دوران ادارہ الحرمین کے بانی، معلم، محقق، مؤلف و مترجم جناب محترم سید ذوالفقار علی زیدی نے اپنی زندگی کی مختلف دینی، قلمی و تعلیمی سرگرمیوں کے متعلق مفصل گفتگو کی ہے۔ جسے حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنا تعارف کرائیں اور اپنی تعلیمی و تبلیغی سرگرمیوں سے ہمیں آگاہ کریں۔
محترم سید ذوالفقار علی زیدی:
میرا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع استور سے ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے فارسی، ایم اے اردو اور ایل ایل بی کی ڈگریاں مکمل کیں۔ اس کے بعد تقریباً نو برس تک سرکاری اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیں، تاہم دینی تعلیم کے شوق اور جذبے کے پیشِ نظر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
میں نے دینی تعلیم کے لیے کراچی میں دارالحکمہ میں داخلہ لیا، جہاں شہید سلطانیؒ کے زیرِ تربیت رہا۔ بعد ازاں مدرسہ جعفریہ میں تعلیم حاصل کی اور آقای ایوب صابری کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
حوزہ: تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے کن اداروں میں خدمات انجام دیں؟
محترم سید ذوالفقار علی زیدی:
میں نے ادارہ فرہنگ کراچی میں لائبریرین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف اسکولوں میں تدریسی فرائض انجام دیتا رہا، جہاں طلبہ کے ساتھ فکری و علمی مباحثوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مزید برآں عباس ٹاؤن جامع مسجد میں امامِ جمعہ کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔

حوزہ: آپ کی پہلی کتاب کب شائع ہوئی؟ اس کے علاوہ کن موضوعات پر کتابیں تحریر یا ترجمہ کر چکے ہیں؟ اور کون سی کتب زیادہ مقبول رہیں؟
محترم سید ذوالفقار علی زیدی:
میری پہلی کتاب “ہزار و یک دلیل” کا ترجمہ تھا، جو 1980ء میں شائع ہوئی۔ الحمدللہ اب تک میری 72 کتب شائع ہو چکی ہیں۔ میری بیشتر مطبوعات قرآن و حدیث، سیرت اور اخلاقیات سے متعلق ہیں۔ مقبول کتب میں “فرہنگِ برہنگی” از حداد عادل، “اخلاقِ اہلِ بیت” مرحوم مہدی صدر، “پیارا گھر” (دو جلدیں) از آیت اللہ مظاہری، “آدابِ تلاوتِ قرآن” (ابتدائی طلبہ کے لیے)، “ارشاداتِ رسول” اور “آدابِ انتظار” خاص طور پر قارئین میں مقبول رہیں۔
حوزہ: کتاب کی اہمیت کے متعلق ہمارے قارئین کو آگاہ کریں؟
محترم سید ذوالفقار علی زیدی:
انسانی زندگی کا اصل مقصد حق و حقیقت تک رسائی ہے اور اس تک پہنچنے کا بنیادی ذریعہ کتاب ہے۔ خداوندِ متعال نے انسان کی ہدایت کے لیے کتاب کو محور بنایا، بلوغت کے بعد اسی کے مطابق عمل کا مطالبہ ہے اور قیامت میں بھی اسی بنیاد پر محاسبہ ہوگا۔ اگرچہ علم کے دیگر ذرائع موجود ہیں، مگر بنیادی حیثیت ہمیشہ کتاب ہی کو حاصل رہی ہے۔
افسوس کہ ہمارے معاشرے میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث کتاب کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں تہذیبی زوال پیدا ہو رہا ہے۔ جاپان اور ایران جیسے ممالک میں جدید ترقی کے باوجود کتاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، جو ان کی تہذیبی پختگی کا سبب ہے۔

حوزہ: آپ کی نظر میں ہمارے معاشرے میں تحقیق کے عمل کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
محترم سید ذوالفقار علی زیدی:
ہمارے معاشرے میں معیاری تحقیق ناممکن نہیں، مگر مشکل ضرور ہے۔ وسائل کی کمی اور سماجی مسائل تحقیق کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں لیکن ایک محقق کو ہمیشہ خدا پر توکل کرنا چاہئے اور ان موانع سے کبھی بھی گھبرانا نہیں چاہئے۔
حوزہ: آپ کے تحقیقی و ترجماتی کام کا بنیادی محرک کیا ہے؟ تحقیق و تالیف کے علاوہ آپ نے کون سے علمی و تعلیمی امور انجام دیے؟
محترم سید ذوالفقار علی زیدی:
میں نے ترجمے کو اس لیے اختیار کیا کہ فارسی اور عربی میں موجود قیمتی علمی سرمایے کو عوام تک منتقل کیا جا سکے۔ اس کا مقصد عوام میں علمی شعور، فکری بیداری اور مطالعے کا ذوق پیدا کرنا ہے۔
ادارہ الحرمین کے تحت ضلع استور میں ایک لائبریری قائم کی گئی ہے، جہاں ساڑھے چار ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ یہ دور افتادہ علاقے کے علم دوست افراد کے لیے ایک قیمتی علمی سرمایہ ہے۔

اسی طرح ادارے کے تحت “الحرمین” کے نام سے ایک علمی مجلہ بھی شائع کیا گیا، جو چند وجوہات کی بنا پر کچھ عرصے بعد بند کرنا پڑا۔ مزید برآں کراچی میں ایک اسکول قائم کیا گیا، جو اب اشتراکی نظام کے تحت بہتر انداز میں کام کر رہا ہے، جبکہ ایک اور تعلیمی ادارہ بھی دیگر افراد کے تعاون سے چل رہا ہے۔
یہاں یہ بھی عرض کروں کہ ادارہ کا نام “الحرمین” رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ادارے کی خدمات تمام مسلمانوں تک پہنچیں۔ یہاں کسی ایک مسلک کی نمائندگی نہیں، بلکہ تمام مسالک کے لیے قابلِ قبول علمی مواد فراہم کرنا ہدف ہے۔ اسی لیے میری کتب چلاس، دیامر اور دیگر علاقوں تک بھی پہنچائی گئیں، اگرچہ ابھی مزید کام کی گنجائش موجود ہے۔
حوزہ: تحقیق و تالیف کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
محترم سید ذوالفقار علی زیدی:
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ایک محقق اور مؤلف کو مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اللہ پر توکل کے ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق قدم بڑھانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے کہ اخلاص اور استقامت کے ساتھ کیا گیا کام بالآخر ثمر آور ہوتا ہے۔










آپ کا تبصرہ