تحریر : سکندر علی بہشتی
حوزہ نیوز ایجنسی| جامعہ المصطفیٰ پاکستان کے شعبۂ تحقیق کے زیرِ اہتمام منعقدہ تین روزہ کتب میلے میں گلگت بلتستان کے علماء کے کثیر علمی و تحقیقی آثار نے علمی دنیا کے سامنے اس خطے کے اہلِ علم کا ایک نیا، روشن اور ہمہ گیر چہرہ پیش کیا۔
عموماً مختلف ادارے اپنی انفرادی یا ادارہ جاتی علمی سرگرمیوں کو نمایاں کرتے ہیں، تاہم صوبۂ سندھ اور گلگت بلتستان کے اسٹال کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ یہاں ایک ہی پلیٹ فارم پر صوبے کے مختلف اداروں، محققین اور مترجمین کے علمی آثار کو یکجا کیا گیا تھا۔ یہ اقدام اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد، بامقصد اور نہایت قابلِ تحسین تھا۔
گلگت بلتستان کے محققین کے لیے قائم کیے گئے علٰیحدہ اسٹال پر علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی کی چھ سے زائد زبانوں میں تصنیف و تحقیق پر مبنی کتب نمایاں تھیں۔ کتب میلے میں مرحوم علماء کی وہ نایاب تصانیف بھی شامل تھیں جو اب بازار میں دستیاب نہیں رہیں اور علمی و تاریخی اعتبار سے نہایت قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
قلمی آثار اور کتب کی کثرت کے پیشِ نظر جامعہ النجف سکردو کے لیے ایک الگ اسٹال قائم کیا گیا تھا، جہاں اس ادارے کے اساتذہ کی تصانیف، طلبہ کے تحقیقی مقالات، تھیسس اور فارغ التحصیل طلبہ کی علمی کاوشیں یکجا کی گئی تھیں۔ اسی اسٹال پر حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی (جو ملک کے ممتاز مترجمین اور اہلِ قلم میں شمار ہوتے ہیں) کی ۸۰ سے زائد تراجم پر مشتمل علمی خدمات بھی نمایاں تھیں، جنہیں مختلف علمی اداروں نے شائع کیا ہے۔

جامعۃُ النجف کا تحقیقی مجلہ ’’حیاتِ طیبہ‘‘ بھی اس اسٹال پر موجود تھا، جو علمی تحقیق کے میدان میں ایک معیاری اور قابلِ قدر کاوش کی حیثیت رکھتا ہے۔
بچوں اور نوجوان نسل کی فکری و اخلاقی تربیت کے لیے نصابی کتب کا مجموعہ ’’قرآن: دستورِ زندگی‘‘ اور دیگر تربیتی تصانیف، جو شیخ سجاد مفتی کی مسلسل علمی محنت کا ثمر ہیں، قارئین کی خصوصی توجہ کا مرکز بنیں۔
جامعۃُ النجف کے اسٹال کی ایک نمایاں اور منفرد خصوصیت بلتستان کی علمی و دینی شخصیات پر کی گئی تحقیقی کاوشیں تھیں۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بیس سے زائد علماء کی زندگی، خدمات اور تاریخی کردار کو باقاعدہ تحقیقی انداز میں محفوظ کیا گیا، جو بلتستان کی علمی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ اس سے قبل یہاں کے علماء کی خدمات زیادہ تر زبانی روایت تک محدود تھیں، جو وقت گزرنے کے ساتھ فراموش ہو جاتی تھیں۔ اس تحقیقی سلسلے کا دائرہ دیگر علماء تک بھی پھیلنا چاہیے، تاکہ اس خطے کی تہذیب، ثقافت اور دینی خدمات آئندہ نسلوں تک محفوظ طور پر منتقل ہو سکیں۔

اسی طرح سے گلگت سے تعلق رکھنے والے شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی اور استاد غلام حسین انجم کی تصانیف بھی نمایاں انداز میں پیش کی گئیں، جو اس خطے کے فکری و دینی ورثے کا اہم حصہ ہیں۔
علاوہ ازیں جامعۃُ المنتظر کے اسٹال پر بھی گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم کی متعدد کتب موجود تھیں۔ اس موقع پر جامعۃُ المنتظر کے نمائندے برادر مولانا زاہد نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جامعۃُ المنتظر ہر قسم کی وابستگی اور تفریق سے بالاتر ہو کر علمی و تحقیقی کتب شائع کرتا ہے، جن میں بلتستان سے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم، خصوصاً جامعۃُ المنتظر کے فارغ التحصیل علماء کی تصانیف کی بڑی تعداد شامل ہے۔
صوبۂ سندھ کے اسٹال پر بھی سندھ میں مقیم محققین اور مترجمین کے علمی آثار نمایاں تھے۔ ان میں آیت الله عباس رئیسی، حجت الاسلام شیخ حسن صلاح الدین، سید کوثر عباس موسوی، سید ذوالفقار علی زیدی، شیخ ذاکر مدبر، شیخ جواد حافظی، پروفیسر ڈاکٹر سجاد رئیسی اور مولانا جواد نوری کے علاوہ جامعہ کراچی اور شاہ عبد اللطیف یونیورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز کے متعدد تحقیقی تھیسس بھی نمائش میں شامل تھے۔
اردو زبان کے علاوہ بلتی زبان میں شائع ہونے والی کتب بھی خاص توجہ کا مرکز رہیں، جن میں قرآنِ مجید کا ترجمہ، نہج البلاغہ کے کلماتِ قصار، صحیفہ مہدیہ اور دیگر دینی و فکری کتب کے تراجم شامل تھے۔
یہ کتب میلہ اس اعتبار سے نہایت اہم ثابت ہوا کہ اس کے ذریعے گلگت بلتستان کے علماء کی دینی، تدریسی اور تبلیغی خدمات کے ساتھ ساتھ تحقیق، تالیف، تصنیف اور ترجمہ کے وسیع علمی کاموں سے عام قارئین اور اہلِ علم کو آگاہی حاصل ہوئی۔

مولانا جان حیدری نے نہایت محنت اور لگن کے ساتھ گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں سے ان علمی آثار کو جمع کیا، جو بجا طور پر قابلِ تحسین اقدام ہے۔ اگرچہ وقت کی کمی کے باعث تمام دستیاب مواد اکٹھا کرنا ممکن نہ ہو سکا، تاہم یہ حقیقت واضح ہے کہ اس خطے کے علماء اور اہلِ قلم کی مزید گراں قدر تصانیف مختلف مقامات پر محفوظ ہیں، جن کی منظم جمع آوری اور حفاظت آئندہ ایک اہم علمی ذمہ داری ہے۔

بلاشبہ گلگت بلتستان کے علمی، دینی اور ادبی آثار کی طرف سنجیدہ توجہ، اسلامی ثقافت کے احیاء، علمی ورثے کے تحفظ اور عالمی سطح پر یہاں کے اہلِ علم کی تحقیقی خدمات کے تعارف کے لیے ایک بابرکت اور دیرپا قدم ثابت ہوگی۔










آپ کا تبصرہ