تحریر: عارف بلتستانی
حوزہ نیوز ایجنسی|
بے ساختہ قلم اٹھ گیا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا کے اسکرین پر جو کچھ گزشتہ چند دنوں سے گزر رہا تھا، اسے دیکھ کر خاموش رہنا ممکن نہیں تھا۔ جامعۃُ المصطفیٰ العالمیہ (پاکستان) کے شعبۂ تحقیق کی جانب سے شیخ محسن علی نجفیؒ کی دوسری برسی اور ہفتۂ تحقیق پر منعقدہ تین روزہ کتب میلے کی تصاویر، ریلس، رپورٹس اور اپڈیٹس نے ایک ایسی حقیقت سامنے رکھ دی جسے نظرانداز کرنا قوم کی علمی ترقی سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔
میں وہاں موجود تو نہیں تھا، لیکن محقق، خسته ناپذیر شخصیت برادر سکندر بہشتی اور دیگر احباب کے کیمرے اور قلم نے جو منظر پیش کیا، وہ گویا ایک زندہ دستاویز تھی۔ کتابوں سے لدا ہال، نوجوان طلبہ کے چہروں پر علمی تجسس، ملت جعفریہ کے اکثر علما و اسکالرز کے ایک ہی چھت تلے مجمع، نایاب مخطوطات اور جدید تحقیق کے درمیان مکالمہ… یہ سب کچھ اسکرین کے پار سے ہی سہی، لیکن حقیقت کا پورا ادراک کرانے کے لیے کافی تھا۔
قائد ملت علامہ سید ساجد علی نقوی، آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، علامہ افتخار نقوی، علامہ انور علی نجفی، علامہ اسحاق نجفی جیسے شخصیات اور دیگر علماء و سکالرز کے بیانات، کلپس، تجاویز، ان کی جانب سے شیئر کیے گئے تبصرے اور مختلف حلقوں سے حوصلہ افزائی نے مل کر ایک تصویر بنائی۔ ایک ایسی علمی تحریک جو نہ صرف زندہ ہے، بلکہ منظم ہو کر پھیل رہی ہے۔
سوشل میڈیا کی اس دنیا میں جہاں اکثر سطحی اور منفی مواد ہی وائرل ہوتا ہے، وہاں یہ علمی میلہ اور اس سے جڑی خبریں ایک خوشگوار اور حوصلہ افزا استثنا تھیں۔ ان پوسٹس، اسٹیٹس اور تصاویر نے یہ پیغام دیا کہ ہماری زمین میں علم کا بیج ابھی مُردہ نہیں ہوا، بس اسے سینچنے والے ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر المصطفی انٹرنیشنل یورنیورسٹی پاکستان کے "شعبہ تحقیق" کے پلیٹ فارم سے ملک بھر کے گمنام محققین، مصنفین اور مترجمین کے کام کو جو نمایاں کیا گیا، اس سے یہ احساس ہوا کہ یہ محض ایک میلہ نہیں، بلکہ ایک احترامِ علم کی مہم ہے۔ جب ایک ریسرچ اسکالر کے کام کو اس طرح نمائش دی جاتی ہے، تو یہ نہ صرف اس کے لیے بلکہ آنے والی پوری نسل کے لیے حوصلے کا سامان ہوتا ہے۔
یہ رپورٹس دیکھ کر سب سے اہم بات جو سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ یہ کاوش ایک ادارے یا ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ اس میں سندھ، گلگت بلتستان، پنجاب، کراچی اور اسلام آباد تک کے علمی حلقوں کا تعاون اور نمائندگی نظر آتی ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس نے اسے ایک قومی علمی سرگرمی کا درجہ دے دیا۔ اس تمام منظرنامے کو دور بیٹھے دیکھ کر محسوس ہوا کہ قوموں کا عروج ان کے علمی اقدار کے تحفظ سے ہی ممکن ہے اور جامعۃُ المصطفیٰ العالمیہ کی یہ کوشش اسی سمت میں ایک مضبوط، ٹھوس اور روشن قدم ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس میلے تک محدود حلقوں سے باہر رسائی نے اس کے اثر کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ یہ وہ مثبت اور تعمیری استعمال ہے جس کی ہمارے علمی اور دینی میڈیا کو شدید ضرورت ہے۔
یہ تحریر اسی "دوری کے قریب ہونے" کے احساس کا نتیجہ ہے، کیونکہ آج کی دنیا میں فاصلے محض جغرافیائی ہیں، فکری قربت تو ایک کلک پر حاصل ہو جاتی ہے۔ اور آپ سب کی اس شاندار کاوش نے ہزاروں میل دور بیٹھے ایک قاری کے دل میں بھی علم کی اس شمع کو روشن کر دیا ہے۔ ہمیں جامعۃُ المصطفیٰ کے ان گمنام خادمینِ علم کے دست و بازو بن کر، تمام مکاتبِ فکر کے درمیان تعصب کی عینک کو اتار کر علم و تحقیق کی بنیاد پر ایک ایسا مشترکہ علمی ماحول تشکیل دینا ہے جہاں حبِّ وطن، احترامِ آدمیت اور فکری تکثیریت ہماری اجتماعی زبان بن جائے تاکہ ہماری جغرافیائی و نظریاتی حدود ہمارے خوابوں کی حد نہیں، بلکہ ایک باعزت، روشن خیال اور علم پرور معاشرے کی تعمیر کی ابتدائی لکیر ثابت ہوں، جہاں ہر محقق کا کام قدر کی نظر سے دیکھا جائے، اور ہر علمی خزانہ پوری قوم کی مشترکہ میراث بنے یہ ہماری تاریخی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم اس ذمہ داری کو نبھانے کےلئے آمادہ ہیں؟









آپ کا تبصرہ