بدھ 24 دسمبر 2025 - 10:00
خواہشاتِ نفسانی پر قابو؛ تقویٰ کی پہلی شرط: آغا سید علی رضوی

حوزہ/جامعۃ المصطفیٰ شعبۂ کراچی پاکستان میں سلسلۂ وار درسِ اخلاق سے ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے صدر حجت الاسلام والمسلمین آغا سید علی رضوی نے خطاب کرتے ہوئے طالبِ علمی، تقویٰ اور تزکیۂ نفس کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفیٰ شعبۂ کراچی پاکستان میں سلسلۂ وار درسِ اخلاق سے ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے صدر حجت الاسلام والمسلمین آغا سید علی رضوی نے خطاب کرتے ہوئے طالبِ علمی، تقویٰ اور تزکیۂ نفس کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

خواہشاتِ نفسانی پر قابو؛ تقویٰ کی پہلی شرط: آغا سید علی رضوی

طالبِ علمی اور واضح ہدف کی اہمیّت

آغا علی رضوی نے درس اخلاق کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انسان فطری طور پر ترقی، بہتری اور کمال کی طرف بڑھنا چاہتا ہے اور حقیقی عقل مندی یہ ہے کہ انسان اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے واضح اہداف مقرر کرے۔

انہوں نے ترقی یافتہ اقوام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔

انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم علم کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ ہمارا مقصد کیا ہے اور ہم آگے کیا بننا چاہتے ہیں۔ جو شخص اپنا ہدف متعین کر لیتا ہے وہ جلد اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔

تقویٰ؛ عبادت کا محور اور اصل سرمایہ

آغا علی رضوی نے تقویٰ کو کامیابی کی اصل کنجی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تقویٰ دراصل ہدف تک پہنچنے کا وسیلہ ہے؛ اگر تقویٰ کا ہدف واضح نہ ہو تو عبادت بھی اپنی حقیقی روح کھو دیتی ہے۔

انہوں نے تقویٰ کو گاڑی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح منزل کے بغیر گاڑی بے سمت ہو جاتی ہے، اسی طرح ہدف کے بغیر عبادت بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ عبادات کا اصل محور تقویٰ ہے اور انسان کا سب سے اعلیٰ ہدف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔

خواہشاتِ نفسانی پر قابو؛ تقویٰ کی پہلی شرط: آغا سید علی رضوی

خواہشاتِ نفسانی پر قابو؛ تقویٰ کی پہلی شرط

انہوں نے کہا کہ تقویٰ ایک بلند صفت ہے جو محنت، مجاہدت اور ضبطِ نفس سے حاصل ہوتی ہے۔ قیامت کے دن یہ ندا بلند ہوگی: “اے اہلِ تقویٰ!” ائمہ معصومینؑ نے ہمیشہ تقویٰ پر زور دیا ہے اور تقویٰ کا پہلا مرحلہ نفس پر قابو پانا ہے۔ محض نماز، روزہ اور زکوٰۃ کافی نہیں، بلکہ خواہشاتِ نفس کو کنٹرول کرنا ہی حقیقی تقویٰ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر تعلیم کا مقصد تقویٰ ہو تو علم کا ذائقہ، اثر اور برکت سب کچھ بدل جاتا ہے۔

طالب علم کی ذمہ داریاں

آغا سید علی رضوی نے طلبہ کی ذمہ داریوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح اسکول میں داخلے کا مقصد تعلیم ہوتا ہے، اسی طرح دینی اداروں میں تعلیم کے ساتھ تقویٰ بھی لازم ہے۔ اپنے اساتذہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی طالب علم مستحب اعمال کی وجہ سے اپنے واجب تعلیمی فرائض میں کوتاہی کرے تو یہ درست نہیں۔

انہوں نے تاکید کی کہ اگر کسی جگہ یا ماحول سے انسان کی روحانیت اور تقویٰ کو نقصان پہنچتا ہو تو فوراً وہاں سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔

علم، فقر اور تزکیہ

انہوں نے حضرت امیرالمؤمنین علیؑ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ “علم خالی پیٹ حاصل ہوتا ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کو بھوک کے ساتھ رکھا ہے۔

انہوں نے نجف کے علماء کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بزرگ نجفی علماء نے سخت ترین حالات میں بھی تقویٰ اور علم کا دامن نہیں چھوڑا۔

خواہشاتِ نفسانی پر قابو؛ تقویٰ کی پہلی شرط: آغا سید علی رضوی

انہوں نے واضح کیا کہ تمام ائمہؑ نے تزکیۂ نفس پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ طالب علم کی اولین صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نگاہ، زبان اور خواہشات پر قابو رکھے۔ اگر کسی طالب علم کے پاس علم ہو، لیکن تقویٰ نہ ہو تو حقیقت میں اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔

خواہشاتِ نفس اور عملی مثالیں

آغا علی رضوی نے نفس پر قابو پانے سے متعلق متعدد واقعات بیان کیے، جن میں ایک طالب علم اور حضرت امیرالمؤمنین علیؑ کے واقعات شامل تھے۔ ان واقعات کے ذریعے انہوں نے صبر، قناعت اور ضبطِ نفس کی عملی تصویر پیش کی۔

آخر میں ایک نجفی عالم کا واقعہ بیان کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ علم کی خاطر وقتی خواہشات کو قربان کرنا ہی انسان کو بلند مقامات تک پہنچاتا ہے۔

آغا سید علی رضوی نے درس کے اختتام پر امتِ مسلمہ، پاکستان، فلسطین، حزب اللہ، اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی اور رہبرِ انقلاب کی صحت و سلامتی کے لیے خصوصی دعا کی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha