حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے معروف عالم دین استاد معظم علامہ شیخ نوروز علی نجفی مرحوم کی برسی کی مناسبت سے ایک عظیم الشان مجلسِ ترحیم و تجلیل حسینیہ بلتستانیہ قم میں منعقد ہوئی، جس میں علمائے کرام اور طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کر کے شیخ صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
تجلیلی مجلس سے شیخ نوروز علی نجفی کے شاگرد خاص آیت اللہ شیخ غلام عباس رئیسی نے خطاب کیا اور اپنے استاد کی عظیم علمی، اخلاقی اور تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں علمائے کرام کے لیے نمونۂ عمل قرار دیا۔
انہوں نے شیخ نوروز علی نجفی کی علمی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شیخ نوروز علی نجفی ایک عظیم عالم دین تھے، ان کے علمی ثمرات آج بھی علماء کی شکل میں نظر آتے ہیں؛ انقلابِ اسلامی سے پہلے پاکستانی مدارس نیم جان تھے، لیکن شیخ صاحب نے ان مدارس میں روح پھونکنے کا کام کیا، ان کی کوششوں سے پاکستانی مدارس میں علمی اور روحانی تحریک پیدا ہوئی، شیخ صاحب علماء کے لیے ایک اسوہ اور نمونہ تھے، ان کی زندگی مثبت نکات سے بھرپور تھی، جو ہر انسان کے لیے قابل تقلید ہے۔
آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے شیخ نوروز علی نجفی مرحوم کے علمی سفر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شیخ نوروز علی نجفی نے 18 سال کی عمر میں تعلیم کا سفر شروع کیا، ابتداء میں انہیں گھر سے نکلنے کے بعد راستے میں روک لیا گیا، لیکن دوسری بار والدہ کی سفارش سے نجف اشرف جانے میں کامیاب ہو گئے، نجف اشرف میں انہوں نے علم کو اپنا ہدف بنایا اور ہمیشہ اس کے پیچھے لگے رہے، ابتدائی دنوں میں بیمار ہونے کی وجہ سے سامرہ چلے گئے، جہاں انہوں نے علامہ راستی سے بھرپور استفادہ کیا، بعد میں نجف اشرف واپس آ کر انہوں نے ہر قسم کے علمی امتحانات میں کامیابی حاصل کی، علامہ راستی نے انہیں کچھ اہم کتب اور اساتذہ کا تعارف کروایا تھا، جن سے شیخ صاحب نے بھرپور کسب فیض کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شیخ نوروز علی نجفی میں علمی جرأت اور استقلال کی بھرپور صلاحیت تھی، وہ اصولوں کے سخت پابند تھے اور کسی بھی مادی لالچ سے دور رہتے تھے، پاکستان میں حتیٰ کہ نکاح پڑھانے کے لیے پیسے قبول نہیں کرتے تھے، تاکہ کسی مادی فائدے کے سامنے بے بس نہ ہوں؛ ایک مرتبہ کسی نے انہیں کچھ پیسے دیئے اور شرائط رکھیں، تو انہوں نے فوراً وہ پیسے واپس کر دئیے اور اپنے استقلال کی حفاظت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شیخ صاحب طلباء سے بے حد محبت کرتے تھے، وہ ہر طالب علم کے مسائل سے آگاہ رہتے تھے اور انہیں تعلیم کا شوق دلاتے تھے، جامعہ جعفریہ کے طلباء اُنہیں جانتے ہیں، انہیں اپنی ذمہ داریوں کا بہت زیادہ احساس تھا، اسی لیے وہ کئی کئی دن تک مدرسے میں رہتے تھے اور طلباء کی تعلیم و تربیت ی نگرانی کرتے تھے۔
آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے شیخ نوروز علی نجفی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایمان اور تقویٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ شیخ صاحب ایمان اور تقویٰ کے بعد سب سے زیادہ تعلیم و تربیت پر تاکید کرتے تھے، وہ اپنے طلباء کو علم کا عاشق بناتے تھے، کیونکہ علم ہی فضیلت کا معیار ہے، ان کے مدرسے کے طلباء صرف و نحو میں بہت مضبوط ہوتے تھے، وہ طلباء کو خود سے مطالعہ کرنے کی ترغیب دلاتے تھے اور امتحانات میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے؛ کسی قسم کی سفارش قبول نہیں کرتے تھے اور ہر طالب علم کو اس کی صلاحیت کے مطابق داخلہ دیتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شیخ صاحب اسراف سے دور تھے اور فضول خرچیوں سے پرہیز کرتے تھے، وہ ضرورت کی چیزوں میں بخل نہیں کرتے تھے، لیکن غیر ضروری چیزوں میں سختی سے کام لیتے تھے، انہوں نے اپنے مدرسے کے طلباء کی اہم ضروریات کا بھرپور خیال رکھا اور غیر ضروری چیزوں کو کم کر دیا۔
انہوں نے استاد شیخ نوروز علی نجفی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا کہ شیخ صاحب احساساتی اور جذباتی نہیں تھے، بلکہ واقع بین تھے، وہ ہر طالب علم کو اس کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق تعلیم دیتے تھے، ان کا ماننا تھا کہ ہر شخص طالب علم نہیں بن سکتا، اس لیے وہ داخلہ دیتے وقت طالب علم کی شرائط کو دیکھتے تھے۔
آخر میں انہوں نے شیخ نوروز کے بلندی درجات کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ شیخ نوروز علی نجفی مرحوم ایک عظیم عالم دین، مخلص استاد اور بے مثال مربی تھے، ان کی زندگی علم، تقویٰ، استقلال اور سادگی سے بھرپور تھی، ان کی خدمات اور تعلیمات آج بھی علماء اور طلباء کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
آپ کا تبصرہ