تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
حوزہ نیوز ایجنسی| امیر المؤمنین حضرت علیؑ کا فرمان ہے کہ: اِنَّمَا سُمِّیَتِ الشُّبْهَةُ شُبْهَةً لِأَنَّهَا تُشْبِهُ الْحَقَّ. یعنی شبہہ کو اس لیے شبہہ کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے مشابہت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر شبہات کا ردّ کرنا محض فکری ضرورت نہیں بلکہ ایک شرعی و اخلاقی ذمہ داری بھی ہے، اگرچہ اشخاص کو ہدفِ تنقید بنانا پسندیدہ نہیں ہے۔
آج کل زیر بعض سپر انقلابی خود کو انقلاب اسلامی، امام خمینیؒ، امام خامنہای اور شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے پیروکار کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر عملی و فکری میدان میں ان دعوؤں پر استقامت دکھائی نہیں دیتی۔
امام خمینیؒ اور امام خامنہای دونوں واضح طور پر عوامی تائید، رائے اور انتخابات کو اسلامی نظامِ حکومت کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔ اسلامی جمہوریۂ ایران گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی اصول پر قائم ہے، جہاں رہبر اور مراجع خود بھی ووٹ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کی جانب سے انتخابی عمل کو شرک سے تعبیر کرنا ایک سنگین فکری مغالطہ ہے، جو خود رہبر معظم کے اس واضح مؤقف سے متصادم ہے کہ "ہمارا نظام اسلامی بھی ہے اور جمہوری بھی، اور ہماری جمہوریت قرآن و اسلام کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔"
پاکستانی تناظر میں بھی فکری تضاد نمایاں ہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے مینار پاکستان پر اجتماع کے ذریعے انتخابی سیاست میں وارد ہونے کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ ایک مکمل روڈ میپ اور سیاسی منشور دیا جو اسی ملک کی رائج انتخابی سیاست سے متعلق تھا۔ انہوں نے انتخابی سیاست کو شجرہ ممنوعہ قرار نہیں دیا، بلکہ اسے قومی ملی ضرورت قرار دیا، جبکہ پاکستان میں بعض نام نہاد انقلابیوں کی طرف سے ایک طرف انتخابات کو ردّ کر کے ''انقلاب" کا نعرہ لگایا جاتا رہا اور دوسری طرف جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ حقیقی انقلاب کا رخ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہونا چاہیے تو مؤقف بدل کر "فوجی جمہوریت" کی حمایت شروع کر دی گئی، حتیٰ کہ اقتدار کو فوج کے پاس، ظہورِ امامؑ تک، سونپنے جیسے غیر علمی اور غیر ذمہ دارانہ تصورات پیش کیے گئے۔ یہ طرزِ فکر نہ انقلاب کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی امامت و ولایت کے مستند شیعی مفہوم سے۔
پاکستان ایک کثیرالمسلک معاشرہ ہے جہاں اکثریت اہلِ سنت کی ہے اور تاریخی و فقہی طور پر وہ نظامِ خلافت کے تصور سے وابستہ رہے ہیں، نہ کہ شیعی تصورِ امامت سے۔ اس تناظر میں "نظامِ امامت" کے نام پر سیاسی کھیل کھیلنا، کبھی اس کا مصداق کسی سیاسی رہنما کو بنانا اور کبھی خود کو اور كبھی اسماعیلی کمیونٹی کے نظام کو مثالی قرار دینا اور عصر غیبت میں تشیع کی امامت کو معطل و غیر مؤثر سمجھنا تشیع کا عقیدہ امامت و ولایت نہیں ہے، بلکہ اس سے انحراف ہے اور اصطلاحات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف عوام کو فکری ابہام میں مبتلا کیا جاتا ہے، بلکہ تشیع کے اندر تفرقہ اور معاشرتی سطح پر فتنہ بھی جنم لیتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ نظام اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود آئینی طور پر جمہوری ہے۔ 1973ء کا آئین تمام مکاتبِ فکر کے اکابر کی متفقہ دستاویز ہے۔ اس آئین کے تحت ہر شہری؛ خواہ شیعہ ہو یا سنی، مسلم ہو یا غیر مسلم؛ ووٹ کے ذریعے سیاسی عمل میں شریک ہوتا ہے۔
تاریخ کا تلخ تجربہ یہ ہے کہ آئین کو معطل کرنے اور سیاست میں مداخلت کرنے والے فوجی ادوار نے ہی ریاستی نظام کو مفلوج کیا، نہ کہ عوامی انتخابی عمل نے۔ اسلام میں عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کا حق دیا گیا ہے، جبکہ آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
شیعہ عقیدے کی اساس امامت و ولایت پر ایمان ہے، جو اصولِ دین میں شامل ہے۔ مگر کوئی بھی شیعہ نہ کسی خود ساختہ "سیاسی امام" کو مانتا ہے، نہ کسی ڈکٹیٹر کو اور نہ ہی امامت کے مقدس تصور کو وقتی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کو قبول کرتا ہے۔ لفظی و اصطلاحی موشگافیوں کے ذریعے سادہ لوح عوام اور نوجوانوں کو گمراہ کرنا ایک غیر ذمہ دارانہ روش ہے۔
آج اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام تمام دینی، مسلکی اور قومی تنوع کے ساتھ؛ متفقہ آئین اور جمہوری دستور کے تحفظ کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ملک عوام کا ہے اور وہی اس کے حقیقی وارث ہیں۔ عوامی جدوجہد کو کمزور کرنا یا مسلط قوتوں کی خوشنودی کے لیے اس پر حملہ آور ہونا نہ علمی دیانت کے مطابق ہے اور نہ دینی ذمہ داری کے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔









آپ کا تبصرہ