ہفتہ 29 نومبر 2025 - 06:30
پاکستان کا سیاسی بحران: کیا داخلی خلفشار یا بیرونی غلامی کا پردہ؟

حوزہ/کسی بھی قوم کے استحکام کے لیے جمہوری اقدار اور عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم، حالیہ حکومتی بیانات ان ہی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ دعویٰ کہ عمران خان کو اقتدار میں لانا ایک غلطی تھی جس کے ذمہ دار ان کے حامی بھی ہیں، درحقیقت ووٹ کے جمہوری حق کو مجرمانہ فعل قرار دینے کے مترادف ہے۔ یہ بیان واضح طور پر اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جہاں عوام کی رائے کو ایک قابلِ سزا جرم سمجھا جاتا ہے۔

تحریر: مولانا سید تقی رضا عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی|

تعارف

پاکستان اس وقت ایک شدید سیاسی تناؤ کی گرفت میں ہے، جس کی تازہ ترین مثال وزیراعظم کا یہ متنازعہ بیان ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والے ووٹرز بھی قصوروار ہیں۔ یہ بیان محض ایک سیاسی غلطی نہیں بلکہ ایک گہری اور سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد جمہوری اصولوں کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔ یہ بیانیہ محض سیاسی بیان بازی نہیں، بلکہ پاکستان کی قومی خودمختاری کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ داخلی انتشار کو ہوا دے کر قوم کی توجہ ملک کی بیرونی طاقتوں کے سامنے غلامی اور فلسطین جیسے اہم ترین بین الاقوامی مسائل سے ہٹانے کے لیے ایک پردے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

1. جمہوری اصولوں کی پامالی

کسی بھی قوم کے استحکام کے لیے جمہوری اقدار اور عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم، حالیہ حکومتی بیانات ان ہی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ دعویٰ کہ عمران خان کو اقتدار میں لانا ایک غلطی تھی جس کے ذمہ دار ان کے حامی بھی ہیں، درحقیقت ووٹ کے جمہوری حق کو مجرمانہ فعل قرار دینے کے مترادف ہے۔ یہ بیان واضح طور پر اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جہاں عوام کی رائے کو ایک قابلِ سزا جرم سمجھا جاتا ہے۔

اس قسم کی جمہوریت مخالف بیان بازی کے مضمرات محض داخلی سیاست تک محدود نہیں۔ یہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت امریکہ اور اسرائیل کی غلامی پوری طرح قبول کر چکی ہے، اور اس کا ہر اقدام جمہوریت اور انسانیت کے منافی ہے۔ یہ نہ صرف عوام میں خوف کی فضا پیدا کرتی ہے بلکہ پورے انتخابی عمل کے جواز پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ حکومت عوامی امنگوں کی نمائندہ نہیں بلکہ ان کی مخالف ہے۔ جمہوری عمل کو بدنام کرنے کے بعد، عوامی غصے کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک نیا ہدف درکار ہوتا ہے—اور عمران خان کا معمہ اسی مقصد کو پورا کرتا ہے۔

2. عمران خان کا معاملہ: ایک سوچی سمجھی خلفشار کی حکمت عملی؟

عمران خان کی موجودہ حیثیت کے گرد چھائی غیر یقینی کی فضا محض ناقص ابلاغ کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک مؤثر سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ یہ حکمت عملی داخلی سیاسی خلفشار کو قابو میں رکھنے کی ایک ایسی مثال ہے جہاں ابہام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کرنا عوام کی توجہ ایک واحد، غیر حل شدہ داخلی مسئلے پر مرکوز رکھنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔

حکومت کے سامنے دو ہی راستے ہیں: اگر عمران خان زندہ نہیں رہے، تو اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے؛ اور اگر وہ حیات ہیں، تو انہیں عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار نہ کرنا اس شبہ کو تقویت دیتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر قیاس آرائیوں اور عوامی اشتعال کو ہوا دے رہی ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد پاکستان کے کروڑوں "غیور" اور "غیرت مند" مسلمانوں، جو اپنے رہنما سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، کو ایک نہ ختم ہونے والے داخلی بحران میں الجھائے رکھنا ہے۔ اس خلفشار کا اصل ہدف بڑا اور کہیں زیادہ سنگین ہے۔

3. اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش: فلسطین، غزہ اور لبنان

فلسطین کا مسئلہ پاکستان اور عالم اسلام کے عوام کے لیے ایک انتہائی حساس اور اہم معاملہ ہے۔ داخلی انتشار پیدا کرنے کا بنیادی مقصد ان کروڑوں پاکستانیوں کی توجہ بھٹکانا ہے جو فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ عوام کی توانائی اصل مسائل یعنی فلسطین، غزہ اور لبنان پر مرکوز ہونے کے بجائے اندرونی سیاسی خلفشار میں ضائع ہو جائے۔

اس حکمت عملی کی دوسری کڑی افغانستان کے ساتھ تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ عمران خان کے معاملے کے ساتھ ساتھ، حکومت پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بے بنیاد تنازعے کو ہوا دے کر خطے کو "لایعنی بحثوں" اور ایک "بے مقصد کی جنگ" میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ یہ خلفشار کی ایک اور تہہ ہے جس کا مقصد قوم کو عالمِ اسلام کے مرکزی مسائل سے دور رکھنا ہے۔ جو بھی رہنما اس ایجنڈے کی مخالفت کرتا ہے، اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4. آزادی کی آواز اٹھانے کی قیمت: ایک تاریخی تناظر

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں، ایک آزاد خارجہ پالیسی کی محض زبانی حمایت کی قیمت بھی بہت بھاری ہے۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اس حقیقت کی واضح مثال ہے کہ یہاں آزادی کی بات کرنا بھی ایک ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔ ان کی حکومت کو صرف اس لیے گرا دیا گیا کہ انہوں نے "لفظوں میں" امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کی اور قومی خودمختاری کا نعرہ بلند کیا۔

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان "غلامی کی زنجیروں" میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ وہ کسی ایسے رہنما کو بھی برداشت نہیں کر سکتا جو محض زبانی طور پر آزادی کا اظہار کرے۔ ملک کی حالت شاہِ ایران جیسی بنا دی گئی ہے، جو امریکہ اور سعودی عرب کی غلامی میں تو مبتلا تھا لیکن اپنے عوام سے کٹ چکا تھا۔ یہ تاریخی مماثلت اس گہری غلامی کی نشاندہی کرتی ہے جس نے ملک کی خودمختاری کو مفلوج کر دیا ہے اور اسے اپنی مرضی سے ایک جملہ کہنے کی بھی اجازت نہیں۔

اختتامیہ: غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی پکار

خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، داخلی بحرانوں کو جان بوجھ کر ایک حکمت عملی کے تحت ہوا دی جا رہی ہے تاکہ عوام کی توجہ فلسطین، غزہ اور لبنان جیسے اہم ترین مسائل سے ہٹائی جا سکے، اور قومی آزادی کی بات کرنے کی سزا حکومت کا خاتمہ ہے۔ یہ تمام عوامل ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جہاں ملک کی قیادت بیرونی طاقتوں کے مفادات کی نگہبان بنی ہوئی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کو غلامی کی ان زنجیروں سے آزاد کرایا جائے تاکہ پاکستان کا وقار اور خودمختاری بحال ہو سکے۔ یہ ملک کے لیے ایک پکار ہے کہ وہ خود کو، خاص طور پر یورپ کی غلامی کی زنجیروں سے، آزاد کرے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha