بدھ 3 دسمبر 2025 - 12:14
آیت اللہ العظمیٰ شیخ ابو القاسم قمی (رح)؛ سوانح و علمی کارنامے

حوزہ/ آیت اللہ العظمیٰ شیخ ابو القاسم قمی رحمۃ اللہ علیہ قم مقدسہ میں سنہ 1280 ہجری کو ایک دیندار اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مرحوم مُل٘ا محمد تقی رحمۃ الله علیہ بھی قم کے عظیم علماء میں شمار ہوتے تھے۔ البتہ آپ کا سنہ ولادت کسی ماخذ میں واضح طور پر ذکر نہیں ہوا ہے، لیکن چونکہ آپ سنہ 1353 ہجری میں 70 سال سے زیادہ عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے، اس لیے آپ کی پیدائش کا سال تقریباً 1280 ہجری قرار دیا جاتا ہے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی|

آیت الله العظمیٰ شیخ ابو القاسم قمی رحمۃ الله علیہ قم مقدسہ میں سنہ 1280 ہجری کو ایک دیندار اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مرحوم مُل٘ا محمد تقی رحمۃ الله علیہ بھی قم کے عظیم علماء میں شمار ہوتے تھے۔ البتہ آپ کا سنہ ولادت کسی ماخذ میں واضح طور پر ذکر نہیں ہوا ہے، لیکن چونکہ آپ سنہ 1353 ہجری میں 70 سال سے زیادہ عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے، اس لیے آپ کی پیدائش کا سال تقریباً 1280 ہجری قرار دیا جاتا ہے۔

آیۃ الله العظمیٰ شیخ ابو القاسم نے مقدماتی دروس، ادب اور ابتدائی سطوح کی تعلیم قم، کاشان اور اصفہان میں آیۃ اللہ شیخ محمد حسن نادی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب کتاب ردّ الشیخیہ)، آیۃ اللہ حاج شیخ محمد جواد قمی (قم کے جلیل القدر عالم)، آیۃ اللہ ملا محمد نراقی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ میرزا فخرالدین نراقی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ حاج آقا منیر الدین بروجردی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔

اس کے بعد آپ تہران تشریف لے گئے اور کتاب رسائل آیۃ اللہ میرزا محمد حسن آشتیانی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی۔ اسی دوران آپ نے ادب اور خوش‌نویسی جیسے فنون میں بھی مہارت حاصل کی۔

نجف اشرف کا سفر

تہران میں مدارج علمیہ طے کرنے کے بعد آپ نے باب مدینۃ العلم امیر المومنین علیہ السلام کے جوار کا رخ کیا اور سنہ 1305 ہجری میں نجفِ اشرف روانہ ہوئے اور وہاں کئی برسوں تک غربت، تنگ‌دستی اور دیگر پریشانیوں کے باوجود انتہائی محنت اور جفا کشی سے مدارج علمیہ کو طے کیا۔ نجف اشرف میں آیۃ اللہ العظمیٰ حاج آقا رضا ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب کتاب مصباح الفقیہ فی شرح شرایع الاسلام)، آیۃ اللہ العظمیٰ حاج میرزا حسین خلیلی تہرانى رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ محمد کاظم خراسانی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب کفایۃ الاصول و فوائد الاصول)، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب عروۃ الوثقى اور حاشیہ مکاسب) جیسے عظیم علماء، فقہاء سے کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ ابو القاسم قمی رحمۃ اللہ علیہ نے اصفہان، کاشان اور نجف میں دوران تعلیم آیۃ اللہ میرزا ابوالمعالی کلباسی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب الجبر و التفویض و الاستشفاء بالتربۃ الحسینیۃ)، آیۃ اللہ میرزا محمد ہاشم چہار سوقی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب مبانی الاصول، اصول آل الرسول)، آیۃ اللہ حاج آقا منیرالدین بروجردی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ سید محمد علوی بروجردی کاشانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ آخوند ملا محمد کاظم خراسانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم علماء و فقہاء سے اجازہ روایت حاصل کیا اور علومِ حدیث و فقہ میں بلند مقام پر پہنچے۔

آپ کے دوران تعلیم کے سخت حالات کے سلسلہ میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید موسی شبیری زنجانی دام ظلہ نے آقای حاج میرزا مہدی ولائی رحمۃ اللہ علیہ (کتب خانۂ آستانِ قدس رضوی کے خطی نسخوں کی فہرست کے فاضل مؤلف) کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ابو القاسم قمی رحمۃ اللہ علیہ نجفِ اشرف تشریف لائے اور باتوں ہی باتوں میں فرمایا: "آپ طلاب کا حال اب بہت شاہانہ اور پُرسکون ہے۔ ہمارے زمانے میں عام طالب علم ہفتہ میں ایک بار پکا ہوا کھانا کھاتے، امیر طلاب ہفتے میں دو بار اور غریب طلاب مہینے میں صرف ایک بار پکا ہوا کھانا کھاتے تھے۔ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ میں نے دو مہینے تک گوشت نہیں کھایا تھا۔ ایک دن میں ایک طالب علم کی حجرے کے پاس سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ وہ پتیلی سے گوشت کا سالن کٹورے میں انڈیل رہا ہے۔ گوشت کے سالن کی خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی، جس سے میرے قدم ڈگمگا گئے۔ اس طالب علم نے مجھے کھانے کی دعوت دی، مگر میں نے قبول نہ کیا اور کہا: میں دوپہر کا کھانا کھا چکا ہوں — حالانکہ اس سے پہلے میں نے چند مولیاں ہی کھا کر اپنی بھوک مٹائی تھی۔

قم واپسی

حوزہ علمیہ نجف اشرف میں عظیم علمی اور فقہی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے بعد آپ قم مقدسہ تشریف لائے۔ قم میں موجود اہل علم اور مومنین نے آپ کا پرجوش استقبال کیا اور آپ کو اپنا دینی پیشوا قرار دیا۔

آپ نے مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام قم میں نماز جماعت قائم کی، فقہ و اصول کی تدریس کی، لوگوں کے مسائل حل کئے، اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ضریح و حرم اور نفیسات کے خزانے کی نگہبانی، جو ایک آبائی منصب تھا، آپ کے سپرد ہوا۔ اسی وجہ سے آپ کا ایک معروف لقب "خازن الحرم" بھی ہے۔ قم اور اس کے اطراف کے لوگ آپ کی تقلید کرنے لگے۔

آپ نے قم مقدسہ میں طویل عرصہ تک فقہ تدریس فرمائی، حتیٰ پڑھے لکھے کاروباریوں کے لئے بھی کتاب مکاسب تدریس فرماتے تھے۔ آپ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح تدریس فرماتے کہ شاگرد آپ سے خوب مباحثہ کرتے تھے۔ بانی حوزہ علمیہ قم آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبد الکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ اپنے درس اصول میں آپ کے نظریات کا ذکر کرتے اور ان میں سے بعض کو قبول بھی کرتے تھے۔

آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جن میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا موسوی گلپائیگانی رحمۃ اللہ علیہ کے اسماء گرامی سر فہرست ہیں۔

اسی طرح آپ نے مختلف دینی اور علمی موضوعات پر کتابیں بھی لکھیں ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے اپنا رسالہ عملیہ طباعت کے لئے پریس میں بھیجا لیکن جیسے ہی آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبد الکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کے قم میں آنے کی خبر ملی فورا واپس منگا لیا تاکہ لوگ صرف ایک مرجع تقلید کی تقلید کریں۔ البتہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ حوزہ علمیہ قم کے قیام کے لئے آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبد الکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کو قم میں مستقل قیام کی سب سے پہلے دعوت بھی آپ نے ہی دی تھی اور جب وہ یہاں مقیم ہوئے تو تاسیس حوزہ علمیہ میں ان کی مکمل حمایت اور مدد کی۔

اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جب یوم عید غدیر مومنین مبارکباد کے لئے آپ کے بیت الشرف پر تشریف لائے تو آپ نے ان سے فرمایا: لوگو! ہم جہاں جا رہے ہیں آپ بھی وہیں چلیں۔ ہمارا ایک ہی علم اور علامت (آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبد الکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ) ہے اسی کے زیر سایہ رہیں اور اسی سے وابستہ رہیں۔ اور سب کو لے کر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبد الکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں تشریف لے گئے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ ابو القاسم قمی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی انتہائی سادہ تھی، عظیم علمی مقام و مرتبہ کے باوجود آپ کے یہاں کوئی خادم نہ تھا، سارے کام حتی بازار سے خریداری اور سامان خود ہی گھر لاتے تھے۔

البتہ طلاب کے وقت کو کافی اہمیت دیتے تھے بیان کیا جاتا ہے کہ جب نجف اشرف تشریف لے گئے اور طلاب حوزہ علمیہ نجف اشرف نے آپ سے ملاقات کرنی چاہی تو آپ نے اپنے فرزند کے ذریعہ پیغام دیا کہ جو آپ لوگوں کے چائے پینے کا وقت ہے، ہم اس وقت آپ کے پاس آئیں گے تاکہ درس و بحث میں خلل ایجاد نہ ہو۔

آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ ابو القاسم قمی رحمۃ اللہ علیہ ایمان و اخلاص کا کامل نمونہ تھے کہ اہل علم و نظر نے بیان کیا کہ ان کو دیکھ کر لوگ درس اخلاق حاصل کرتے تھے۔ آپ سادات کا بے انتہا احترام فرماتے تھے، دولت مندوں اور اہل حکومت سے دور رہتے تھے اور ان کے تحائف بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار حاکم قم نے آپ کو کچھ رقم (پیسے) بھیجے جسے آپ نے واپس کر دیا تو آپ کے فرزند نے عرض کیا: بابا! آپ نے رقم واپس کر دی جبکہ ہمارے حالات اچھے نہیں ہیں تو آپ نے فرمایا: خدا ہمیں عقل دے اور تمہیں دین عطا کرے، یہ ہمیں پیسے دیتے ہیں اور اس کے بعد ہم سے کچھ توقع کرتے ہیں، لہٰذا ہم ان کا پیسہ نہیں لے سکتے۔

اخلاص اور دنیا سے دوری آپ کا خاصہ تھا، ایک دن نماز جماعت کے لئے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نمازی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ بغیر جماعت قائم کئے فورا گھر واپس چلے گئے۔ جب لوگوں نے پوچھا تو فرمایا: نمازیوں کی کثرت سے میں خوش ہو گیا تھا، میں نے محسوس کیا کہ آج قصد قربت کا فقدان ہے لہذا واپس آ گیا۔

آخر 11 جمادی الثانی سن 1353 ہجری کو یہ آفتاب علم و فقاہت و اخلاص حرم اہل بیت قم مقدسہ میں غروب ہو گیا، غسل و کفن کے بعد کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک میں سپرد خاک ہوئے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha