پیر 29 دسمبر 2025 - 15:46
پاکستان کا بحران مذہبی نہیں، سیاسی ہے؛ اسے سیاسی ہی رہنے دیں!

حوزہ/امریکی ایماء پر ہونے والے رجیم چینج آپریشن کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والا سنگین بحران دراصل ایک سیاسی بحران ہے۔ یہ نہ کوئی دینی و مذہبی، نہ علاقائی و صوبائی اور نہ ہی قومی و لسانی نوعیت کا مسئلہ ہے۔

تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

حوزہ نیوز ایجنسی| امریکی ایماء پر ہونے والے رجیم چینج آپریشن کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والا سنگین بحران دراصل ایک سیاسی بحران ہے۔ یہ نہ کوئی دینی و مذہبی، نہ علاقائی و صوبائی اور نہ ہی قومی و لسانی نوعیت کا مسئلہ ہے۔

اس بحران میں ایک طرف بین الاقوامی سطح پر امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادی، اور اندرونِ ملک حکمران سیاسی جماعتوں کا اتحاد، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، اور اس کے پے رول پر موجود مختلف مذہبی و غیر مذہبی گروہ شامل ہیں۔

جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتیں ہیں، جن میں ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت تحریکِ انصاف بالخصوص اس کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کے سیاسی اتحادی شامل ہیں، جن میں سیاسی، مذہبی اور قومی جماعتیں بھی موجود ہیں۔

اربابِ اقتدار نے اس عرصے میں متعدد بیانیے گھڑے جو یکے بعد دیگرے بے بنیاد ثابت ہوتے گئے۔ پہلے کہا گیا کہ رجیم چینج میں کوئی امریکی مداخلت نہیں اور عمران خان کا سائفر بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے، مگر بعد ازاں ملکی و بین الاقوامی میڈیا پر سائفر منظرِ عام پر آ گیا۔ حتیٰ کہ حکومتِ وقت کی اعلیٰ قیادت نے دو مرتبہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں امریکی سازش کو رسمی طور پر تسلیم بھی کیا۔

اربابِ اقتدار سے وابستہ بعض علماء دین نے بھی اپنے خطبات میں ابتدا میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ امریکہ آخر کیوں پاکستان کی حکومت تبدیل کرے گا، اور یہ کہ عمران خان جھوٹا بیانیہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ امریکی تاریخ مختلف ممالک میں سیاسی تبدیلیاں لانے اور مخالف حکومتوں کے خلاف جنگیں مسلط کرنے سے بھری پڑی ہے۔ ان علماء نے امریکہ کو بری الذمہ قرار دے کر عمران خان کو جھوٹا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی، مگر خود امریکی حکمرانوں نے اعتراف کر کے سارا بھانڈا پھوڑ دیا کہ رجیم چینج آپریشن میں ان کا کردار موجود تھا۔

مقتدرہ نے اپنے منظور نظر حکمرانوں کو اقتدار میں لانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریکِ انصاف اور عمران خان کو سیاسی منظرنامے سے ہمیشہ کے لیے ہٹانے کا منصوبہ بھی بنا لیا، کیونکہ عمران خان جیسا مقبول لیڈر ان کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔ انہیں امریکہ، مغرب اور خطے میں اسرائیل سمیت امریکی اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ جب انہوں نے اپنی پشت پر بھاری بیرونی ہاتھ دیکھے تو ریاستی فورسز اور اداروں کی پوری طاقت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دی۔

نتیجتاً ریاستی ادارے اپنی ساکھ اور عوامی اعتماد کھو بیٹھے۔ عدلیہ کا وقار بری طرح مجروح ہوا، الیکشن کمیشن کھلی دھاندلی کے بعد عوام کی نظروں میں ایک متنازع ادارہ بن گیا، اور صحافت کا جنازہ نکل گیا۔ جو قلم اور زبانیں فروخت ہو گئیں وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھیں، اور جو ڈٹ گئیں انہیں یا تو توڑ دیا گیا یا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

قانون ساز اسمبلیاں محض ربڑ اسٹیمپ اور کھلونا بن کر رہ گئیں۔ اسمبلی کے تقدس کو بری طرح پامال کیا گیا، اور صرف اربابِ اقتدار کے مفادات کے تحفظ، کرپشن کو بچانے اور جرائم کو قانونی جواز دینے کے لیے دھڑا دھڑ قوانین اور ترامیم کی گئیں۔ ایسی دستوری ترامیم، جو نہ وطن کے مفاد میں ہوں اور نہ عوامی بھلائی کے لیے، بالآخر ردی کی ٹوکری ہی کا مقدر بنتی ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے، بالخصوص دفاعِ وطن کے ذمہ دار مقدس ادارے بھی بے دریغ استعمال ہونے سے نہ بچ سکے۔ پاکستانی عوام کی اپنی فوج سے جو دلی محبت تھی، اسے چند مفاد پرست عناصر نے شدید نقصان پہنچایا۔

اس تمام عرصے میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں، جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنتے رہے، اور عوام ظلم کی چکی میں پستے رہے، مگر اقوامِ عالم، اقوامِ متحدہ، اور انسانی، خواتین اور بچوں کے حقوق کے علمبردار بین الاقوامی ادارے خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ جس شخص اور جس جماعت کو کچلا جا رہا تھا، وہی شخص ایک غلام ملک کا سربراہ بن کر ان کے غرور و تکبر کو چیلنج کر چکا تھا اور ان کے سامنے جھکنے کے بجائے “Absolutely Not” کہہ چکا تھا۔

یہ وہ شخص تھا جس نے پاکستان پر ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دی، حالانکہ اس سے قبل جب چاہا جاتا حملے کر دیے جاتے تھے۔

یہ وہ شخص تھا جو اپنی زمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے، ملک میں غیر ملکی اڈے بنانے، اور خطے کی جنگوں میں اپنی فوج جھونکنے سے انکار کر رہا تھا۔

یہ وہ شخص تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو کل خدا کو کیا جواب دوں گا۔

اس نے بین الاقوامی فورمز پر اسلاموفوبیا کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی، حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ میں اسلاموفوبیا کے عالمی دن کی قرارداد منظور کروا کر دنیا کو شرمندہ کر دیا۔

وہ چاہتا تھا کہ پاکستان اپنے اہم فیصلے خود کرے، اسی لیے اسے ہٹانا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بن گیا۔

یوں جب اشارہ ملا تو ان کے غلاموں نے وہ سب کچھ کر دکھایا جو عالمی اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی، بلکہ وہ بھی کر گزرے جس کا تقاضا تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس رجیم چینج آپریشن کے ذریعے پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور معاشی ترقی کی جانب بڑھتے قدم روک دیے گئے۔

بعد ازاں وہ حکومت مسلط کی گئی جس نے تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا، غزہ کے معاملے میں ابرہام آکارڈ اور ٹرمپ پلان کے تحت فوج بھیجنے کی پیشکش کی، امریکہ کو گوادر اور ایران کے قریب بندرگاہی سہولتیں دیں، سی پیک جیسے منصوبے کو شدید نقصان پہنچایا، اور چین جیسے مخلص دوست سے فاصلے پیدا کیے۔ یوں ملک سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ شدید معاشی، اقتصادی، سلامتی اور سماجی بحرانوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔

جب اربابِ اقتدار کے تمام حربے ناکام ہو گئے تو اب وہ بند گلی سے نکلنے کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے بعض متشدد عناصر اس سیاسی بحران کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، کبھی فتنہ کا لیبل لگاتے ہیں اور کبھی کوئی اور بیانیہ گھڑتے ہیں۔ مگر یہ مذہبی انتہا پسندی کا کارڈ بھی ناکام ہو گا۔

کاش یہ حضرات اپنے گریبان میں جھانکیں اور جن طبقات کے مفاد میں بول رہے ہیں ان کی سیاہ تاریخ، جرائم، اسلامی تعلیمات کے خلاف دیے گئے استثنائی مراعات، خواتین پر تشدد، چادر و چار دیواری کی پامالی، بے گناہوں سے جیلیں بھرنے اور خوف و ہراس کی فضا قائم کرنے پر بھی بات کریں۔ مگر افسوس کہ اسلام آباد اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر بے گناہ عوام کا خون بہنے کے باوجود یہ خطیبانِ منبر خاموش رہتے ہیں، چاہے جرم صرف احتجاج ہو یا غزہ کی حمایت میں نکلنا۔

بعض علمائے دین کا مزاج بھی عملی طور پر مقتدرہ کے مزاج سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ ان حضرات کا عمومی مؤقف یہ ہوتا ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ان کی ترجیح محض علمِ دین کی تدریس، ترویج اور اشاعت ہے۔ یہ مؤقف بعینہٖ اسی طرز کا ہے جس طرح پاکستانی مقتدرہ مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مقتدرہ کے نمائندگان نہ صرف سیاست دانوں سے بڑھ کر سیاسی امور پر تبصرے کرتے رہے ہیں بلکہ سیاسی عمل میں ان کی مداخلت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

بالکل اسی طرح، یہ علماء بھی عملاً سیاسی عمل کا حصہ ہوتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا کسی سیاسی دھارے سے کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیانات، خطبات اور مؤقف واضح طور پر مقتدرہ کے بیانیے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ محض زبانی انکار اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ اگرچہ یہ حضرات اپنے پیش روؤں کی طرح بار بار سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتے رہیں، مگر ان کی فکری سمت، عملی کردار اور اختیار کردہ بیانیہ اس امر کی کھلی گواہی دیتا ہے کہ وہ غیر جانب دار نہیں بلکہ ایک مخصوص طاقتور سیاسی ڈھانچے کے فکری و بیانیاتی ترجمان بن چکے ہیں۔

آخر میں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ پاکستانی شیعہ، پاکستان کے بانیان کی اولاد ہیں۔ وہ خود کو پاکستان کا محافظ سمجھتے ہیں اور انہیں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیعہ کبھی بھی ملکی اداروں کے خلاف استعمال نہیں ہوئے، نہ ماضی میں اور نہ آج۔

پاکستان کا سیاسی بحران تمام شہریوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس بحران کو سیاسی ہی رہنے دیا جائے۔ اسے مذہبی رنگ دے کر، یا ملتِ تشیع پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر، اپنی ہی ملت کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ظلم، جبر اور استبداد کے تاریخی کرداروں کی مثالیں دینا پاکستان کے مذہبی اور ثقافتی شعور کا حصہ ہے، اور لوگ قرآن و تاریخِ اسلام کی روشنی میں حق و باطل کی پہچان خود کر لیتے ہیں۔

جن علماء کو عمران خان کی اتحادی سیاسی و مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین (MWM) اور اس کی قیادت کے آئینی کردار یا عوامی مقبولیت سے اختلاف ہے، یا وہ اسے ہضم نہیں کر پا رہے، تو بہتر ہے کہ اپنے “ہاضمے” کا علاج کروائیں۔ ایم ڈبلیو ایم قومی مفادات کے تحفظ اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

ایم ڈبلیو ایم اور پاکستانی عوام کا واضح مؤقف ہے کہ پاکستان کی فوج، پاکستانی عوام کے بیٹوں کی اپنی فوج ہے۔ خود عمران خان بھی کہتا ہے کہ یہ فوج میری فوج ہے، بلکہ میری ذات سے عزیز تر ہے۔ لہٰذا کسی خود غرض اور ناعاقبت اندیش فرد کو نہ کسی مذہب یا مسلک کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور نہ ہی ملک کے مقدس اداروں کی آڑ لینا چاہیے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha