تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
حوزہ نیوز ایجنسی| عراق کی پارلیمنٹ نے 26 مئی 2022 کو ایک تاریخی فیصلے میں اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلق، تعاون یا رابطے کو جرم قرار دینے والا قانون متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کئی عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے تھے۔ بغداد کا یہ فیصلہ نہ صرف سیاسی جرأت کی علامت ہے، بلکہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کی ایک بلند اور بیدار آواز بھی ہے۔ضرورت ہے کہ اس فیصلے کی اہمیّت کو موجودہ حالات کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر جانچا جائے۔
عراق کی پارلیمنٹ نے 26 مئی 2022 کو ایک تاریخی اور غیر معمولی فیصلے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام، تعاون یا رابطے کو سختی سے جرم قرار دینے والا قانون متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف عراق کی داخلی سیاست میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اور مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں ایک جرأت مندانہ اور اصولی مؤقف کے طور پر سامنے آیا ۔ عراقی خبررساں ایجنسی کے مطابق جمعرات کے روز ہونے والے اجلاس میں ارکانِ پارلیمنٹ نے قانونِ تجریمِ تطبیع مع اسرائیل کے حق میں اتفاقِ رائے سے ووٹ دیا۔ یہ قانون پارلیمانی کمیٹی برائے امورِ قانون کی سفارش پر پیش کیا گیا تھا۔
قانون کے متن میں کہا گیا ہے کہ اس کی منظوری کا مقصد عراق میں قومی، اسلامی اور انسانی اصولوں کا تحفظ ہے، کیونکہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی درجے کے تعلق یا اس کی ترویج کو عراق کی سلامتی، نظریاتی تشخص اور اجتماعی وحدت کے لیے شدید خطرہ تصور کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ قانون کا ہدف ان تمام کوششوں کو روکنا ہے جو قابض صہیونی ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات یا رابطوں کے قیام کی راہ ہموار کر سکتی ہوں۔ قانون میں ایسے اقدامات کے مرتکب افراد کے لیے سخت اور عبرت ناک سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
ووٹنگ کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان میں جشن کا سماں تھا۔ اراکینِ پارلیمنٹ نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور نعرے بلند کیے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ارکان خوشی سے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے ہیں۔ صدرِ تحریک کے سربراہ مقتدی الصدر نے اس فیصلے کو عراق کی دینی غیرت اور قومی عزت کی جیت قرار دیا اور اپنے حامیوں سے اپیل کی کہ وہ ملک بھر میں جشنِ فتح کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔ عراق طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی نوع کے تعلقات کا منکر رہا ہے اور بیشتر سیاسی قوتیں اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کی تطبیع کو اسلامی اصولوں اور عربی وحدت کے منافی سمجھتی ہیں۔
عراق کی پارلیمنٹ کا یہ اقدام صرف ایک قانونی و وقتی پیش رفت نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی حرکیات میں ایک مضبوط اشارہ ہے۔ ایسے وقت میں جب کچھ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لا رہے تھے ، بغداد کا یہ فیصلہ محورِ مقاومت کی اخلاقی اور نظریاتی صف میں استقامت اور استقلال کی گونج بن کر سامنے آیا ۔ یہ قانون دراصل عراق کی اس تاریخی شناخت کو تازہ کرتا ہے جو فلسطین کے ساتھ یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی علامت رہی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف عراقی قوم کے اجتماعی شعور کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک سیاسی، فکری اور اخلاقی پیغام بھی رکھتا ہے کہ اصولوں پر قائم رہنا ممکن ہے، اگرچہ اس کی قیمت سفارتی تنہائی یا عالمی دباؤ کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔
یہ فیصلہ اپنی حیثیت میں جہاں ایک قانونی متن ہے وہیں امتِ مسلمہ کی عزت، غیرت اور وقار کا بیانیہ بھی۔ ایسے وقت میں جب کئی عرب ممالک تیزی کے ساتھ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر رہے تھے، عراق نے یہ اعلان کر کے ثابت کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ابھی بھی وہ آوازیں زندہ ہیں جو حق کے لیے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ اس قانون نے عراق کو صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی قیادت کی صفِ اول میں کھڑا کر دیا ۔
عراق کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب مسلم دنیا کا ایک بڑا حصہ سیاسی مصلحتوں اور معاشی مراعات کے دباؤ میں اپنی تاریخی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوتا جا رہا تھا، آج پھر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایسے ماحول میں بغداد کی پارلیمنٹ نے گویا ضمیرِ امت کی گمشدہ صدا کو پھر سے زندہ کیا ۔ یہ قانون محض اسرائیل و امریکہ کے خلاف ایک فکری بغاوت اور شعوری مزاحمت کی علامت بنا۔ "وائس آف نیشن" کے نزدیک یہ اقدام عراق کے عوامی شعور، دینی بیداری اور اصولی سیاست کا مظہر ہے۔ یہ فیصلہ ہمیشہ اقوامِ عالم کو یہ یاد دلاتا رہے گا کہ فلسطین صرف ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر بغداد اپنی مزاحمتی روح کے ساتھ ثابت قدم رہا تو تاریخ اسے صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک اصولی مؤقف کی علامت کے طور پر یاد رکھے گی۔









آپ کا تبصرہ