ہفتہ 8 نومبر 2025 - 16:05
عراقی انتخابات کے نتائج اور توازن کی مدیریت

حوزہ/ یکے بعد دیگرے منتخب ہونے والی عراقی حکومتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ علاقائی توازن کو احتیاط سے سنبھالیں گے اور عراق کے اندر سیاسی عمل کی تشکیل سے علاقائی اور بین الاقوامی اثرات مضبوطی سے مرتب ہو سکتے ہیں؛ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی لیڈرشپ عراق کو دوسرے محور کی طرف لے جا سکتے ہیں، کیونکہ علاقائی اور بین الاقوامی مداخلت عراقی فیصلہ سازی کے ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔

ترجمہ و تجزیہ: ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی

حوزہ نیوز ایجنسی|

یکے بعد دیگرے منتخب ہونے والی عراقی حکومتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ علاقائی توازن کو احتیاط سے سنبھالیں گے اور عراق کے اندر سیاسی عمل کی تشکیل سے علاقائی اور بین الاقوامی اثرات مضبوطی سے مرتب ہو سکتے ہیں؛ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی لیڈرشپ عراق کو دوسرے محور کی طرف لے جا سکتے ہیں، کیونکہ علاقائی اور بین الاقوامی مداخلت عراقی فیصلہ سازی کے ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔

یہاں اہم سوال یہ ہے:

کیا سیاسی قیادت کے پاس توازن کو کامیابی سے سنبھالنے کے اختیارات ہیں؟ اور وزیر اعظم ایرانی حکومت کو ناراض کیے بغیر، یا اس کے برعکس امریکیوں کو کیسے مطمئن کر سکتے ہیں؟

عراق میں ایرانی اثر و رسوخ ایک سیاسی، سماجی، اقتصادی اور مذہبی حقیقت ہے، جس کی آبیاری آبادیاتی اور گہرے مذہبی اور تاریخی رشتوں سے ہوئی ہے۔

اس کے برعکس امریکی موجودگی اور اثر و رسوخ کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ مسلسل دھمکیاں دیتا ہے کہ وہ عراقی حکومت پر مسلح دھڑوں کے پاس موجود ہتھیاروں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اقتصادی جبر کا راستہ استعمال کرے گا- ایک ایسا معاملہ جس کے بارے میں امریکی حکام نے بغداد میں اس سے نمٹنے کے طریقے سے بارہا عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

سیاسی توازن کی نزاکت

جیسے جیسے واقعات افسوسناک طور پر سامنے آتے ہیں اور سیکیورٹی اور معاشی خدشات بڑھتے ہیں، حریفوں کے درمیان سیاسی توازن بامعنی بن جاتا ہے اور ملک کے استحکام پر مثبت اثر ڈالتا ہے، بشرطیکہ اسے عاقلانہ گفتگو کے ذریعے، ملک کے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے، اور سیاسی فائدے کے لیے عہدوں کے استحصال سے گریز کیا جائے۔

تاہم شام میں بشار الاسد حکومت کے زوال اور 7 اکتوبر کے واقعات جیسے تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی واقعات کی روشنی میں یہ توازن ابھی تک نازک صورتحال میں ہے کیونکہ یہ ایک طویل المدتی سیاسی عمل کا نتیجہ نہیں ہے جو ایران اور امریکہ جیسے اہم کھلاڑیوں پر موقوف ہے۔

عراقی منظر نامے میں حقیقی توازن سیاسی پروگراموں اور قومی تجاویز کی گہرائی میں مضمر ہے جو عراق کو محوروں کی کشمکش میں دھکیلنے سے روکتے ہیں اور بیرونی وفاداریوں کے بجائے فکری نقطہ نظر میں مسابقت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

حل: ایک عقلمند قومی اتحاد کی ضرورت

اس غیر مستحکم علاقائی صورتحال میں، ہمیں ایک گہری سوچ رکھنے والی منجھی ہوئی لیڈرشپ کی ضرورت ہے، جس کی بصیرت انہیں واقعات کے غیر جانبدارانہ رویے اپنانے کے قابل بنائے، سیاسی عہدوں سے بے نیاز ہو۔

بلکہ سیاسی قیادت سے مطالبہ ہے کہ وہ سیاسی بیداری میں توازن پیدا کریں، خود غرضی، نمایاں مقام کی خواہش یا ذاتی مفادات کے لالچ میں آئے بغیر قومی نقطہ نظر پر ثابت قدم رہیں۔

اگر یہ راہ حل اختیار نہ کیا گیا تو ہم اعلیٰ ترین قومی مفاد کا تعین کرنے میں توازن کھو دیں گے اور ان تاریک سرنگوں میں داخل ہو جائیں گے جہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا، اور پھر صرف پشیمانی اور مایوسی ہمارا مقدر ہو گا۔

پہلا اثر انگیز عنصر: انتخابات میں بین الاقوامی اور علاقائی عنصر

انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ ہی، نتائج کی انجینئرنگ میں بین الاقوامی اور علاقائی عناصر شامل ہو چکے ہیں ۔ کچھ نے امریکی اور شاید اسرائیلی حمایت میں ناممکن کو ممکن کرنے کا عہد کیا، جو کہ ان کے مطابق ایران کے علاقائی کردار میں نمایاں کمی کے بعد ایران کے خلاف سازشوں کا نیا باب کھولیں گے۔

اس صورتحال کی روشنی میں، عراق ایک ایسے نازک مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جہاں علاقائی اور بین الاقوامی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایران اور امریکہ کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے کھلی مسابقت نظر آ رہی ہے ۔

آنے والے انتخابات ایک نئے اور آزاد خارجہ پالیسی والے عراق کی تشکیل دے سکتے ہیں، یا وہ بیرونی قوتوں پر انحصار کی پرانی پالیسی کو دوبارہ پیش کر سکتے ہیں۔

دوسرا اثر انگیز عنصر: عوامی جذبات کے چیلنجز اور اثر و رسوخ کی تبدیلی

طاقت کے توازن پر خود کو مسلط کرنے والا اصل چیلنج تہران اور اس کے مقامی اتحادیوں کی طرف عراقی عوامی جذبات میں تبدیلی ہے، اس کے ساتھ ساتھ عراقی ریاستی نظام کے اندر ایرانی اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کو روکنے میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی سنجیدگی ہے۔

البتہ یہ نیا امریکی نقطہ نظر براہ راست فوجی تصادم سے گریز کرتا ہے اور سیاسی دباؤ، اقتصادی پابندیوں کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جب کہ ایران کے پاس ایسے ٹولز کی کمی ہے، کیونکہ وہ براہ راست انسانی ترقی پر فوجی اور سیکورٹی حل کو ترجیح دیتا ہے۔

عراق میں ایران کے پاس جس اہم نکتے کی کمی ہے وہ خود غور و فکر اور تشخیص ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے آخری علاقائی مضبوط قلعوں کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

طاقت کے توازن میں ترکی کی موجودگی بھی شامل ہے، جو اقتصادی، پانی اور تزویراتی منصوبوں کے ذریعے خلا کو پر کرتا ہے۔

نتیجہ: خودمختاری کا امتحان

ان تمام قوتوں کے درمیان، عراقی حکومتوں کو آزاد خودمختاری اور ایک آزاد قومی فیصلہ سازی کے عمل کی تعمیر میں ایک مشکل امتحان کا سامنا ہے جو کسی خاص محور کے ساتھ نہیں بلکہ توازن کی مدیریت کرتا ہے۔

اس امتحان میں عراق لیڈرشپ کی کامیابی یہ ہے کہ کیا وہ دوسروں کے تابع عراقی حکومت کا قیام کرتے ہیں یا خطے کی بدلتے ہوئے طاقت کے توازن میں فعال کردار ادا کرنے والی عراقی قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

تازہ ترین سروے کے نتائج:

1/التنمیہ ( ترقی ): 50-55 (متوقع فقط ایک سال ساتھ چلیں گے) (السوڈانی)

2/ بدر: 22-25 (ہادی العامری)

3/ دولة القانون: 40-45 (المالکی)

4/ الصادقون: 22-24 (قیس الخزعلي)

5/ الخدمات: 8-10 (شبل الزیدی)

6/الحکمہ: 22 (عمار الحکیم)

7/ ابشر: 7 (المجلس الاعلى)

8/ الحقوق: 6 (کتائب)

9/اساس : 6 (المندلاوی)

10/ اشراق: 5 (العتبہ العباسیہ)

11/ تصميم: 8-9 (گورنر بصرہ)

نوٹ: یہ مضمون پروفیسر ڈاکٹر ھاشم الکندی (بغداد یونیورسٹی) نے لکھا ہے اور اس کا ترجمہ اور اس پر تجزیہ ڈاکٹر شفقت شیرازی نے کیا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha