تحریر : ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
حوزہ نیوز ایجنسی| پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے سنگین ترین سیاسی و آئینی بحران سے گزر رہا ہے۔ 2022 کی سیاسی تبدیلی اور بالخصوص 8 فروری 2024 کے انتخابات کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات نے عوامی مینڈیٹ اور جمہوری تسلسل پر گہرے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ایک ایسا نظام رائج کر دیا گیا ہے جو بظاہر پارلیمانی ہے، لیکن عملاً ایک 'ہائبرڈ' طرزِ حکمرانی کی عکاسی کرتا ہے، جس سے ملک ایک 'پولیس اسٹیٹ' کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔
آئینی ترامیم اور اداروں کی بے توقیری
حالیہ آئینی ترامیم کے ذریعے حکمران طبقے نے مبینہ طور پر خود کو قانون سے بالا تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان ترامیم کے نتیجے میں احتسابی عمل مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، جس سے کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف قانونی گرفت کمزور پڑنے کا خدشہ ہے۔ ریاستی ستونوں کا توازن اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور صحافت جیسے آزاد ادارے اپنی خود مختاری کھوتے نظر آ رہے ہیں۔
مذہبی کارڈ کا استعمال اور 'خلافت' کا بیانیہ
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والا مخصوص مذہبی و سیاسی ایجنڈا اب ایک نئی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے بعض مذہبی طبقات کی سرپرستی اور 'بیعت' جیسے اصطلاحات کا استعمال سیاسی اقتدار کو مذہبی جواز فراہم کرنے کی ایک دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے۔ محراب و منبر، جو کبھی انسانی حقوق اور اسلامی اقدار کے امین تھے، اب ریاستی دباؤ یا مفادات کی بھینٹ چڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
خارجہ پالیسی اور اسرائیل کا ناجائز وجود
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک غیر معمولی تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات اور عالمی دباؤ کے تحت، اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کے روایتی موقف میں لچک اور بین الاقوامی فورمز پر بعض متنازع ووٹنگ کے عمل نے عوامی سطح پر تشویش پیدا کی ہے۔ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ ملکی مفادات کو بین الاقوامی قوتوں کے ایجنڈے کے تابع کیا جا رہا ہے۔
معاشی استحصال اور عوامی بے چینی
داخلی سطح پر عوام معاشی جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ٹیکسوں کے بھاری بوجھ، بے روزگاری اور مہنگائی نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔ انتظامی سطح پر جرمانہ سازی اور غیر ضروری ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام میں ریاست کے خلاف بیزاری پیدا کر دی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا یہ عالم ہے کہ شہریوں کی نقل و حرکت (ٹریول ہسٹری یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر) محدود کی جا رہی ہے، جس سے ملک میں گھٹن زدہ ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
ظاہری طور پر اگرچہ عوام خاموش نظر آتے ہیں، لیکن یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ناانصافی، معاشی بدحالی اور عوامی رائے کی تذلیل سے پیدا ہونے والا لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست طاقت کے بل بوتے پر نظام چلانے کے بجائے آئین کی بالادستی اور عوامی امنگوں کو ترجیح دے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔









آپ کا تبصرہ