حوزہ نیوز ایجنسی | امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: تسبیح، خدا کے اسماء میں سے ہے اور اہلِ جنت کا نعرہ ہے۔ [۱]
علامہ طباطبائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تسبیح سے مراد وہی ہمارا «سبحان اللہ» کہنا ہے؛ لہٰذا تسبیح اور سبحان اللہ دونوں ایک ہی مادّہ اور اصل سے ہیں۔
لغت میں تسبیح کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں:
پہلا معنی: دور کرنا۔
قرآن کی آیات اور روایات میں تسبیح کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے عیب، نقص اور کمزوری سے پاک و منزّہ قرار دیا جائے۔
چنانچہ روایت میں ہے:«عن هشام الجوالیقی قال سألتُ ابا عبداللّه علیهالسلام عَنْ قَوْلِ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ سُبْحانَ اللّهِ ما یعنی بِه؟ قال تَنْزیهُهُ».
ہشام جوالیقی کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ عزّوجلّ کے اس فرمان «سبحان اللہ» کے بارے میں سوال کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟
امامؑ نے فرمایا: اس سے مراد اللہ کو ہر عیب سے پاک اور منزّہ قرار دینا ہے۔ [۲]
دوسرا معنی: پانی میں تیزی سے حرکت کرنا یا تیرنا۔
یہ معنی مادّہ سبح اور سباحت سے لیا گیا ہے۔
درحقیقت ان دونوں معنوں کو ایک ہی بنیادی مفہوم کی طرف لوٹایا جا سکتا ہے، اور وہ ہے تیز حرکت۔
خواہ یہ حرکت عبادت، بندگی، تنزیہ اور تقدیسِ الٰہی کے راستے میں ہو، یا پانی، ہوا یا زمین میں تیزی سے آگے بڑھنے کی صورت میں ہو۔
کیونکہ حرکت ایک طرف انسان کو کسی شے کے قریب کرتی ہے اور دوسری طرف کسی چیز سے دور۔
لہٰذا جب تسبیح کا مفہوم تنزیہ اور پاکیزگی ہو تو اس میں اللہ کو ہر نقص سے دور قرار دینے کا پہلو نمایاں ہوتا ہے، اور جب اس کا مفہوم تیرنا یا فضا و پانی کو چیرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو تو اس میں حرکت اور پیش رفت کا پہلو غالب ہوتا ہے۔
مؤسسۂ ثقافتی دارالعرفان
حوالہ جات:
[۱] تفسیر العیاشی، جلد ۲، ص ۱۲۰، حدیث ۹؛ بحارالانوار، جلد ۹۰، ص ۱۸۳، حدیث ۲۲
[۲] التوحید، شیخ صدوق، ص ۳۰۵، باب ۴۵، حدیث ۳









آپ کا تبصرہ