حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبرِ انقلاب اسلامی حضرت آیت الله العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای نے حوزہ علمیہ قم کے سو سالہ یومِ تاسیس کے موقع پر ایک اہم پیغام جاری فرمایا۔ اس پیغام میں حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے لے کر آج تک کی خدمات، برکات اور آثار کا جامع تذکرہ موجود ہے۔ ہمارے اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد اس تناظر میں حوزہ علمیہ کی تاریخ اور خدمات سے مزید آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اسی سلسلے میں محقق و مترجم سید کوثر عباس موسوی نے اپنا ایم فل مقالہ بعنوان "حوزہ علمیہ قم کی علمی، معاشرتی اور سیاسی خدمات کا تحقیقی مطالعہ" ڈاکٹر سجاد علی (رئیس) کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔ اس مناسبت سے حوزہ نیوز نے ان سے ایک خصوصی گفتگو کی، تاکہ وہ اپنے مقالے کے اہم نکات اور رہبرِ انقلاب کے حالیہ پیغام کے تناظر میں اپنے خیالات قارئین تک پہنچا سکیں۔
یہ گفتگو سوال و جواب کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

حوزہ: آپ نے ایم فل کا مقالہ حوزہ علمیہ قم پر لکھا ہے۔ اس تحقیق کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
سید کوثر عباس موسوی: حوزہ علمیہ قم جمہوری اسلامی ایران میں واقع شیعہ علومِ دینیہ کا سب سے بڑا اور معتبر علمی مرکز ہے، جہاں دنیا بھر سے بالخصوص سیکڑوں پاکستانی طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں، اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
جس طرح کسی بھی علم کو حاصل کرنے سے پہلے اس کے موضوع، غرض و غایت اور فوائد سے آگاہ ہونا ضروری ہے، اسی طرح جس علمی مرکز سے علم حاصل کیا جا رہا ہے، اس کے معیار، تاریخ اور علمی خدمات سے واقفیت بھی ناگزیر ہے۔
اگرچہ انقلاب اسلامی کے بعد حوزہ علمیہ قم علمی و فکری قیادت کا مرکز بن گیا، لیکن اس سے پہلے بھی دنیا بھر کے طالبانِ علم یہاں کا رخ کرتے تھے، اور بلامبالغہ سینکڑوں پاکستانی طلبہ یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں ۔ باوجود اس کے، اردو زبان میں حوزہ علمیہ قم کی تاریخ، معیار، علمی، دینی، سماجی اور سیاسی خدمات پر کوئی جامع کتاب دستیاب نہیں تھی۔ اس کمی کو دیکھتے ہوئے، میں نے ایم فل تحقیق کے لیے اسی موضوع کا انتخاب کیا تاکہ اس عظیم مادرِ علمی کی تاریخ اور خدمات پر ایک منظم مطالعہ پیش کر سکوں۔
حوزہ: اس تحقیق میں آپ نے کن پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے؟
سید کوثر عباس موسوی: جیسا کہ مقالے کے عنوان سے ظاہر ہے، میں نے حوزہ علمیہ قم کے علمی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ تحقیق بنیادی طور پر تین ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کو مزید تین ذیلی فصلوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا باب: حوزہ علمیہ قم کا تاریخی پس منظر، شہر قم اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر روشنی۔
دوسرا باب: حوزہ علمیہ قم کا تنظیمی و انتظامی ڈھانچہ اور نظامِ تعلیم۔
تیسرا باب: حوزہ علمیہ قم کے علمی، معاشرتی اور سیاسی اثرات کا مطالعہ۔

حوزہ: کیا حوزہ علمیہ قم کا نظامِ تعلیم ہمارے دینی مدارس اور جامعات کے لیے رول ماڈل بن سکتا ہے؟
سید کوثر عباس موسوی: جی ہاں! حوزہ علمیہ قم کا تعلیمی و تربیتی نظام ہمارے مدارس و جامعات کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔
ہمارے یہاں بدقسمتی سے مدارس اور جدید جامعات کے درمیان گہرا فاصلہ ہے، یہاں تک کہ اکثر اوقات ایک دوسرے کی اہمیت کے بھی قائل نہیں۔ حالانکہ چند دہائیاں پہلے تک یہ فاصلے اتنے زیادہ نہیں تھے۔ حوزہ علمیہ قم نے ان فاصلوں کو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی مختلف جامعات میں حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل علماء خدمات انجام دے رہے ہیں، اور اسی طرح بعض جامعات کے اساتذہ حوزہ میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی مدارس و جامعات کے درمیان ایسے تعلقات قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ اسلام کے آفاقی پیغام کو بہتر طور پر عام کیا جا سکے۔
حوزہ: کیا آپ کی تحقیق میں جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کا ذکر بھی شامل ہے؟
سید کوثر عباس موسوی: جی ہاں! میں نے اپنے مقالے کے دوسرے باب کی ایک فصل کو حوزہ علمیہ قم کے ملحقہ اداروں اور تعلیمی مراکز کے تعارف کے لیے مختص کیا ہے، جس میں جامعۃ المصطفیٰ سمیت دیگر منسلک جامعات اور ان کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
حوزہ: رہبرِ انقلابِ اسلامی نے اپنے پیغام میں حوزہ علمیہ قم کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ اس بارے میں طلاب کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
سید کوثر عباس موسوی:
🔹حوزہ علمیہ قم کی تاسیسِ نو کے سو سال مکمل ہونے پر رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام دراصل تمام دینی مدارس کے لیے ایک ترقیاتی منشور ہے۔
🔹اس میں علماء و طلاب کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ حوزہ علمیہ قم نے دینی علوم جیسے فقہ، فلسفہ، کلام، عقائد، تفسیر، حدیث اور اخلاق کی تعلیم میں صدیوں تک اہم کردار ادا کیا ہے۔
🔹یہ پیغام نہ صرف حوزہ علمیہ کے مقام و اثرات کو اجاگر کرتا ہے بلکہ طلاب کو اس بات کی ترغیب بھی دیتا ہے کہ وہ علمی جدت اور خدمت کے سفر کو مزید آگے بڑھائیں۔
🔹رہبر معظم ہمیشہ حوزات علمیہ کی روحانی اور اخلاقی تربیت پر زور دیتے ہیں، اور اسی پیغام میں بھی طلاب کو یاد دلایا کہ علم محض اصطلاحات یاد کرنے کا نام نہیں بلکہ اسے عملی زندگی میں نافذ کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے اخلاق، تقویٰ اور تواضع کو طلبہ کی تربیت میں بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔
🔹یہ پیغام صرف حوزہ علمیہ قم تک محدود نہیں، بلکہ ایک آفاقی پیغام ہے، جو دنیا بھر کے مدارس کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اس میں حوزات علمیہ کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اپنی روایتی تعلیمات کو برقرار رکھتے ہوئے جدید چیلنجز کا سامنا کیسے کیا جا سکتا ہے۔










آپ کا تبصرہ