حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیرِ اطلاعات حجت الاسلام اسماعیل خطیب نے مشہد مقدس میں ہفتۂ دفاع مقدس اور نئے تعلیمی سال کے آغاز کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام میں ہونے والی پیشرفت میں اب کوئی تعطل نہیں آئے گا اور دشمنوں کی جانب سے ایران کو جھکانے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سادہ لوحی ہے کہ امریکہ سے تعلقات بہتر بناکر اور جوہری افزودگی کو ختم کرکے ایران کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
حجت الاسلام خطیب نے کہا کہ ایران اس وقت دنیا کے دس بڑے جوہری افزودگی والے ممالک میں شامل ہے اور دشمن صرف موجودہ جوہری سرگرمیوں کو ہی نہیں، بلکہ مستقبل میں ایرانی جوانوں کی ذہانت اور دیگر شعبوں میں کامیابیوں کو بھی روکنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ سادہ سیاسی تجربے کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ اگر ہم افزودگی صفر کردیں اور امریکہ سے معاملات سلجھائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن ہمیں مکمل طور پر جھکانا چاہتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ ایرانی قوم کبھی دباؤ یا جبر کے آگے نہیں جھکے گی۔
ایرانی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ حالیہ جنگ میں دشمن ناکام ہوئے۔ دشمن نے ان 12 دنوں میں وہ سب کچھ آزما لیا جو وہ انقلابِ اسلامی کے پچاس سالوں سے حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ ناکام رہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی مسلح افواج کی طاقت، سیکیورٹی اداروں کی ہوشیاری، عوام کی حمایت اور رہبرِ انقلابِ اسلامی کی رہنمائی کی بدولت دشمن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں بھی ناکام رہے، کیونکہ 120 ممالک نے ایران کی حمایت کا اعلان کیا۔
ایرانی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ خطے کے ممالک اب ایران کے ساتھ مل کر صیہونی خطرات کے خلاف تعاون کررہے ہیں اور یہاں تک کہ مغربی مبصرین بھی مانتے ہیں کہ صیہونی حکومت دنیا کی سب سے ناپسندیدہ حکومت بن چکی ہے۔
حجت الاسلام خطیب نے کہا کہ عالمی طاقتیں کئی دہائیوں سے ایران کے خلاف خوف پھیلانے کی مہم چلا رہی ہیں، لیکن میدان جنگ میں ناکامی کے بعد اب وہ سفارتی اور اقتصادی دباؤ بڑھا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کی مغرور طاقتیں جب یہ سمجھ گئیں کہ وہ ایران کے خلاف براہِ راست مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں تو اب وہ پابندیاں بڑھانے اور بین الاقوامی اداروں میں دباؤ ڈالنے کی راہ اختیار کررہی ہیں۔









آپ کا تبصرہ