حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، خراسان رضوی میں نمائندہ ولی فقیہ آیت الله سید علم الہدیٰ نے نمازِ جمعہ کے خطبوں میں ہفتۂ دفاع مقدس کی مناسبت سے کہا کہ جہاد اور ایثار کی ثقافت عاشوراء سے لے کر آج تک زندہ ہے اور ایرانی قوم کی مزاحمت ہمیشہ عقلانیت، ایمان اور دفاع مقدس کی ثقافت پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاد اور شہادت کی ثقافت ہمارے معاشرے میں ایک زندہ حقیقت ہے جو عاشوراء سے لے کر آج تک جاری ہے۔ انقلابِ اسلامی کے 45 سالوں میں ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا کہ یہ ثقافت ختم ہو گئی ہو۔
آیت الله علم الہدیٰ نے مزید کہا کہ آٹھ سالہ دفاع مقدس میں مجاہدین کے جہاد سے لے کر حرم اور علم و دانش کے مدافعین اور حالیہ بارہ روزہ مزاحمت تک، یہ سب اسی ثقافت کا تسلسل ہے۔
امام جمعہ مشہد مقدس نے اس بات کی وضاحت کی کہ دفاع مقدس میں فتح، جنگی سامان اور وسائل سے حاصل نہیں ہوئی تھی، کیونکہ ہم کسی بھی میدان میں دشمن کے برابر نہیں تھے اور عالمی طاقتیں صدام کے پیچھے تھیں۔
آیت الله علم الہدیٰ نے مزید کہا کہ جو چیز فتح کا سبب بنی وہ ایمان، امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی قیادت اور عوام کی میدان میں موجودگی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے میدان میں الٰہی امداد واضح طور پر دکھائی دیتی تھی۔ پینٹاگون کے ایک ماہر نے اعتراف کیا تھا کہ ایرانیوں نے انسان کے گوشت کو ٹینکوں کے سامنے رکھا تھا؛ یعنی عوام نے اپنی جانوں سے دشمن کا راستہ روکا اور یہ اللہ کے وعدے کا مصداق تھا کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔
مجلسِ خبرگان رہبری کے رکن نے کہا کہ دفاع مقدس کو چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن مجاہدین کی عظمت اور قوت دشمنوں کی آنکھوں میں ابھی تک زندہ ہے اور حالیہ بارہ روزہ جنگ میں بھی یہی ایثار کی ثقافت دہرائی گئی۔
انہوں نے حالیہ بارہ روزہ جنگ کے بارے میں واضح کیا کہ دشمن نے یہ سوچا تھا کہ وہ کمانڈروں اور سائنسدانوں کے قتل سے ایران کو ختم کر دیں گے، لیکن ایرانی قوم نے سترہ گھنٹے سے بھی کم وقت میں دفاعی پوزیشن کو حملے میں تبدیل کر دیا اور دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔









آپ کا تبصرہ