منگل 4 نومبر 2025 - 11:25
سی 5+1 فریم ورک؛ وسطی ایشیاء میں امریکی مفادات کی نئی ترجیحات

حوزہ/ قدیم شاہراہِ ریشم سے لے کر جدید راہداریوں تک، وسطی ایشیاء ہمیشہ سے طاقتوں کے مفادات کا مرکز رہا ہے۔ قدرتی وسائل، تیل و گیس کے ذخائر اور مشرق و مغرب کو ملانے والے محلِ وقوع نے اس خطے کو ہمیشہ عالمی توجہ میں رکھا۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں روس کا تاریخی اثر، چین کی اقتصادی موجودگی اور اب امریکہ کا سفارتی فریم ورک C5+1 Diplomatic Platform — ایک نئے توازن کی تلاش میں برسرِ عمل ہیں۔

تحقیق و تحریر: سید شجاعت علی

حوزہ نیوز ایجنسی| قدیم شاہراہِ ریشم سے لے کر جدید راہداریوں تک، وسطی ایشیاء ہمیشہ سے طاقتوں کے مفادات کا مرکز رہا ہے۔ قدرتی وسائل، تیل و گیس کے ذخائر اور مشرق و مغرب کو ملانے والے محلِ وقوع نے اس خطے کو ہمیشہ عالمی توجہ میں رکھا۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں روس کا تاریخی اثر، چین کی اقتصادی موجودگی اور اب امریکہ کا سفارتی فریم ورک C5+1 Diplomatic Platform — ایک نئے توازن کی تلاش میں برسرِ عمل ہیں۔

۲۰۱۵ء میں تشکیل پانے والا یہ فریم ورک امریکہ کے ساتھ وسطی ایشیا کی پانچ ریاستوں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان پر مشتمل ہے، جس کا مقصد بظاہر علاقائی تعاون، توانائی، تجارت اور سلامتی کے میدان میں رابطہ کاری ہے۔

قیام اور ارتقائی سفر

سی 5+1 کے سلسلہ میں اس کے رکن ممالک کی پہلی ملاقات ۲۶ ستمبر ۲۰۱۵ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران نیویارک میں ہوئی، جبکہ باضابطہ پہلا اجلاس ۱ نومبر ۲۰۱۵ء کو سمرقند (ازبکستان) میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں علاقائی خود انحصاری، استحکام، اقتصادی رابطوں اور ماحولیاتی چیلنجز پر مشترکہ تعاون پر زور دیا گیا۔

بعد ازاں، ۲۰۱۶ء میں واشنگٹن، ۲۰۱۸ء میں تاشکند، ۲۰۲۲ء میں قازقستان، اور ۲۰۲۳ء میں نیویارک میں سربراہی سطح کے اجلاس منعقد ہوئے۔ نیویارک اعلامیے میں سلامتی، توانائی اور اقتصادی استحکام کو تین بنیادی ستونوں کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

امریکی مقاصد اور حکمتِ عملی

امریکہ کے نزدیک، وسطی ایشیا میں استحکام کی نئی جہتیں دراصل علاقائی خود انحصاری اور چینی و روسی اثر و رسوخ کے توازن سے جڑی ہیں۔ واشنگٹن اس پلیٹ فارم کو سرمایہ کاری، ماحولیاتی تعاون اور نئی تجارتی راہداریوں کے قیام و احیاء کے ذریعے خطے کےلیے ایک "متبادل راستہ" کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

اسی تناظر میں امریکہ خاص طور پر ان ممالک کے ساتھ اپنی اقتصادی موجودگی بڑھانے پر توجہ دے رہا ہے جن کے پاس توانائی اور صنعتی پیداوار میں بنیادی اہمیت کے حامل قدرتی وسائل موجود ہیں۔ ان شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو خطے میں اس کے طویل المدتی تجارتی اور تکنیکی مقاصد کی عکاسی کرتا ہے۔

امریکی تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، وسطی ایشیا کے ساتھ مجموعی سالانہ تجارتی حجم گزشتہ چند برسوں میں مسلسل بڑھ رہا ہے، جس میں سب سے نمایاں حصہ اُن ممالک کے ساتھ تجارت کا ہے جن کی معیشت خطے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے یہ تاثر زائل ہوتا ہے کہ امریکہ یہاں محض سفارتی موجودگی رکھتا ہے — درحقیقت، وہ ایک فعال تجارتی و سرمایہ کاری شراکت دار کے طور پر اپنا مقام مستحکم کر رہا ہے۔

مزید برآں، امریکہ TITR (Trans-Caspian International Transport Route) یا مڈل کوریڈور کو ترجیح دے رہا ہے، جو چین اور یورپ کے درمیان زمینی تجارت کے بڑے حصے کو وسطی ایشیائی راستے سے گزارتا ہے۔ یہ راہداری نہ صرف روس اور ایران کے زیرِ اثر راستوں پر انحصار کم کرتی ہے بلکہ واشنگٹن کے لیے یوریشیائی رابطے کا ایک متبادل راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔

تاہم، خطے کے اندر خود وسطی ایشیائی ریاستوں کے مابین بعض دیرینہ تنازعات جیسے پانی کی تقسیم، سرحدی حد بندی، توانائی کے وسائل پر اختلافات اور قبائلی اثرات امریکی مفادات کے لیے ایک چیلنج بھی ہیں۔ ان تنازعات کے باعث علاقائی ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹیں موجود ہیں، جو C5+1 فریم ورک کے عملی نفاذ اور امریکی اہداف کے تسلسل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ واشنگٹن کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے کہ وہ ان ریاستوں کے تعلقات کو مستحکم کرتے ہوئے اپنے طویل المدتی مفادات کو محفوظ رکھ سکے۔

تاہم، اس فورم کا قیام کسی اچانک اقدام کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک تدریجی سفارتی عمل ہے، جس کا ہدف طویل مدت میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) اور روس کی اقتصادی بالادستی کے متوازی ایک رابطہ فریم ورک کی تشکیل ہے۔

اسی تسلسل میں آئندہ C5+1 اجلاس 6 نومبر 2025ء کو واشنگٹن میں منعقد ہونے جا رہا ہے، جسے امریکہ ایک نئے سفارتی سنگِ میل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس اجلاس کا ایجنڈا خطے میں اقتصادی شراکت داری، توانائی سلامتی، اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز پر مرکوز ہے۔ امکان ہے کہ واشنگٹن اس موقع پر “خطے کے مستقبل کے لیے مشترکہ وژن” کے عنوان سے ایک نیا اعلامیہ پیش کرے، جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ امریکی شراکت داری کے اگلے مرحلے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

چین، روس اور ایران کی جوابی حکمتِ عملیاں

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چین، روس اور ایران پہلے سے ہی اس امریکی حکمتِ عملی کا جواب اپنے اپنے دائرہ اثر میں دے رہے ہیں۔

چین نے C5+1 کے قیام کے فوراً بعد اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کو خطے میں مزید وسعت دی، اور قازقستان، ازبکستان، اور ترکمانستان میں بنیادی ڈھانچے، ریلوے اور توانائی منصوبوں پر سرمایہ کاری تیز کر دی۔ ۲۰۲۳ء میں چین نے “China–Central Asia Summit” کے ذریعے اسی نوعیت کا ایک متوازی پلیٹ فارم قائم کیا، جو علاقائی ملکیت اور "برابری کی بنیاد پر ترقی" کے اصول پر استوار ہے۔

روس نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور Eurasian Economic Union (EAEU) کے ذریعے خطے میں اپنے اثر کو مضبوط رکھنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ روس، وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے سلامتی کے لحاظ سے اب بھی بنیادی پارٹنر ہے — خصوصاً افغانستان کی سرحدی صورتحال اور انسدادِ دہشت گردی کے تناظر میں۔

ایران نے وسطی ایشیا میں تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ترکمانستان، قازقستان اور ازبکستان کے ساتھ نقل و حمل، توانائی اور تجارتی معاہدے کیے ہیں، اور چاہ بہار بندرگاہ اور شمال-جنوب کوریڈور کے ذریعہ خطے کو مشرق وسطیٰ، بھارت اور عالمی منڈی سے براہ راست جوڑا ہے، جس سے ایران ایک اسٹرٹیجک تجارتی اور توانائی کے مرکز کے طور پر ابھرتا ہے۔

وسطی ایشیاء میں عالمی و علاقائی طاقتوں کی سرد جنگ

وسطی ایشیا آج ایک ایسا میدان ہے جہاں بڑی طاقتیں ایک غیر مستقیم سرد جنگ کے ماحول میں سرگرم ہیں، اور ہر ملک اپنے اقتصادی، تجارتی اور سیکیورٹی مفادات کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے۔

چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے ذریعے بنیادی ڈھانچے، ریلوے اور توانائی منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ تجارتی راستے مضبوط اور خطے میں معاشی اثر قائم رکھے۔

روس شنگھائی تعاون تنظیم اور یوریشین اکنامک یونین کے ذریعے سیاسی اور دفاعی تعلقات کو مستحکم کر کے خطے میں اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہے، خصوصاً سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے تناظر میں۔

ایران توانائی، نقل و حمل، اور تجارتی معاہدوں کے ذریعے خطے کے ساتھ اپنی تجارتی رسائی برقرار رکھتا ہے، چاہ بہار بندرگاہ اور شمال–جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور عالمی منڈی سے ربط قائم کرتا ہے۔

ترکیہ لسانی و تہذیبی رشتوں اور تجارتی تعلقات کے بل پر ترک النسل ریاستوں کے ساتھ اقتصادی اور ثقافتی روابط مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان قدرتی پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان میں امن قائم ہونے اور افغان حکومت کے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے کی صورت میں پاکستان کی زمینی رسائی وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی اور اقتصادی رابطوں کو مؤثر اور کم لاگت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان کی ساحلی بندرگاہیں وسطی ایشیا کے لیے سب سے قریبی، آسان اور کم لاگت راستہ مہیا کرتی ہیں، جو توانائی اور تجارتی گزرگاہوں کے تبادلے کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔

بھارت بھی خطے کے ساتھ تاریخی اور تجارتی تعلقات رکھتا ہے اور ایران کے راستے وسطی ایشیاء تک تجارتی رسائی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر علاقائی رقابتوں اور جغرافیائی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کی رسائی محدود ہے۔

یہ تمام سرگرمیاں ایک غیر مسلح سرد جنگ کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں ہر طاقت اپنے مقاصد کے لیے اقتصادی اور تجارتی اقدامات کر رہی ہے، مگر کوئی براہِ راست تصادم نہیں ہو رہا۔

نتیجہ

وسطی ایشیاء میں کوئی طاقت مطلق برتری حاصل نہیں کر سکتی، کیونکہ چین اور روس کی گہری جڑیں، ایران و ترکیہ کی علاقائی وابستگیاں، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، بھارت کی محدود رسائی، اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی متنوع اقتصادی سوچ، بشمول امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارت، سب مل کر ایک ایسا توازن پیدا کرتے ہیں جو خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے فیصلہ کن ہے۔ اگر تمام طاقتیں باہمی احترام، اقتصادی تعاون اور خطے کے داخلی استحکام کو ترجیح دیں تو وسطی ایشیا توانائی، تجارت اور امن کا مرکز بن سکتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha