تحریر:عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی| بھارت اور روس کے درمیان قدیم خوشگوار تجارتی اور سفارتی روابط رہے ہیں ۔ آزادیٔ ہند کے فوراً بعد یہ تعلقات قائم ہوئے جن میں وقت کے ساتھ استحکام آتا گیا۔ گوکہ سویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے زمانے میں بھارت نے غیر جانب دارانہ رویہ اپنایامگر ان کے تعلقات متاثر نہیں ہوئے ۔1950 اور 1960 کی دہائیوں میں سوویت یونین نے بھارت کی اقتصادی، دفاعی اور صنعتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بھاری مشینری، اسٹیل پلانٹس، اور ایٹمی توانائی کے کئی منصوبے روسی تعاون سے شروع کیے گئے۔ دفاعی شعبے میں بھی روس بھارت کا سب سے بڑا شراکت داررہا۔ — بھارت کے بیشتر جنگی طیارے، ٹینک، اور آبدوزیں روسی ساختہ ہیں۔فی الوقت بھارت کو جس میزائیل پر سب سے زیادہ ناز ہے اور پاکستان بھارت جنگ کے دوران جس میزائیل کی کامیابی پر بی جے پی حکومت آپے سے باہر رہی،اس کی تیاری میں بھی روس اہم شراکت دار ہے۔لیکن اب بھارت کی خارجہ پالیسی کروٹ بدلتی نظر آرہی ہے ۔امریکہ مسلسل یوکرین جنگ کے بہانے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کررہاہے جس کی زد میں بھارت بھی ہے ۔امریکہ چاہتاہے کہ بھارت روس اور چین کے خلاف اس کا اتحادی بنے مگر یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ ہمارے ملک کی توانائی کا بڑاانحصار روس پر ہے ۔امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت ’’انڈو پیسفک ‘‘خطے میں چین کے مقابلے میں اس کا قریبی اتحادی بنے۔ لیکن بھارت کی روس سے قربت اور کئی اہم منصوبوں میں شراکت داری امریکی حکمت عملی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ مسلسل تجارتی ٹیرف بڑھارہاہے تاکہ دبائو کی پالیسی کے تحت بھارت کو اپنی بساط پر مہرے کی طرح استعمال کرسکے ۔تجارتی ٹیرف کے علاوہ بھارت کی کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں تاکہ روس سے خام تیل کی درآمد کو متاثر کیاجاسکے۔
۱۹۷۱ء میں بھارت اور روس کی دوستی میں نیا موڑ آیا۔دونوں ملکوں کے درمیان ’بھارت -سویت دوستی معاہدہ ‘ ہوا جسے’’Indo-Soviet Treaty of Peace, Friendship and Cooperation ‘‘نام دیاگیا۔اسی سال بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہواجس میں امریکہ نے پاکستان اور روس نے بھارت کا ساتھ دیا۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی بھارت اور روس کے تعلقات میں استحکام برقرار رہا۔ دفاع، خلائی تحقیق، توانائی، اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدانوں میں دونوں ملک آج بھی قریبی شراکت دار ہیں۔روس بھارت کو جدید ہتھیار فراہم کرتا ہے، جیسے ’ایس-400 میزائل سسٹم‘، سخوئی اور مگ جنگی طیارے۔ساتھ ہی دونوں ملک باہمی شراکت سے براہموس میزائیل بھی تیار کررہے ہیں جسے بی جے پی دشمن کے خلاف بھارت کے اہم اسلحوں میں شمار کرتی ہے ۔ان کے علاوہ بھارت روس سے بھارتی رعایتی قیمتوں پر خام تیل بھی درآمد کرتاہے ۔خاص طورپر یوکرین جنگ کے بعد اس درآمد میں مزید رعایت کے ساتھ اضافہ ہواہے ۔ بھارت پہلے اپنی ضرورت کا دوفیصد سے کم تیل روس سے درآمد کرتاتھالیکن 2024 اور 2025 میں یہ شرح چالیس فیصد تک پہونچ گئی ۔عالمی منڈی میں جب تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی تھیں تب روس نے بھارت کو بھاری رعایت پر تیل درآمد کیاتھا۔اس رعایت سے بھارت کی مشکلات اور مہنگائی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ۔چونکہ امریکی پابندیوں کی بناپر بھارت نے ایران سے تیل کی درآمد کو معطل کردیاتھالہذا اگر وہ روس سے بھی تیل کی خرید کو روک دیتاہے تو اس کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی ۔بھارت اور ایران کے دیرینہ تعلقات تھے مگر امریکی دبائو کے سامنے بھارت کو جھکناپڑااور تیل کی تجارت موقوف کردی گئی تھی ،جس پر از سرنو کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکی پالیسیاں بھارت کی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوں گی ۔
دیوالی کے موقع پر امریکی صدر نے وزیر اعظم مودی کو مبارک باد دی جس کا ذکر انہوں نے وہائٹ ہائوس میں دیوالی کی تقریب میں بھی کیا۔انہوں نے کہاکہ ’ہم نے کئی مسائل پر بات کی، جس میں اہم تجارت ہے۔ وزیر اعظم مودی اس معاملے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں‘۔ان کے مطابق علاقائی امن پر بھی تبادلہ خیال ہوا،ظاہر ہے اس میں یوکرین جنگ کاذکر ضرور ہواہوگا۔ٹرمپ نے کہاکہ’’ہم نے اس مسئلے پر بھی گفتگو کی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہ ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ آج دونوں ممالک کے درمیان جنگی صورتحال نہیں اور یہ بہت خوش آئند ہے‘۔اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کن لہجے میں کہاکہ :’مستقبل میں بھارت روس سے بڑی مقدار میں تیل نہیں خریدے گا‘۔ان کے اس بیان کے بعد وزیر اعظم مودی نے سوشل میڈیا اکائونٹ پر ٹرمپ کے ذریعہ دیوالی پر دی گئی مبارک باد کی خبر شکریے کے ساتھ پوسٹ کی لیکن علاقائی امن اور روس سے تیل کی خرید پر انہوں نے کوئی بات نہیں کی ۔وزارت خارجہ گوکہ مسلسل روس کے ساتھ اپنے تجارتی روابط پر وضاحت پیش کررہاہے مگر وزیر اعظم مودی کی خاموشی پُراسرار ہے ۔امریکہ اور یوروپ کی روسی کمپنیوں پر پابندیوں کے بعد ریلائنس کی روس سے تیل درآمد متاثر ہوئی جس کے شواہد منصہ شہود پر آچکے ہیں ،لہذا اب ہمیں وزیر اعظم مودی کی خاموشی کی حقیقت کو سمجھناہوگا۔
بھارت اور روس کے درمیان قریبی تعلقات کئی وجوہ کی بناپر امریکہ کے لئے تشویش کا باعث ہیں ۔سب زیادہ تشویش یوکرین جنگ میں مغربی طاقتوں کی شکست ہے ۔امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں نے یوکرین جنگ میں اپنی پوری توانائی کوروس کے خلاف استعمال کیامگر اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔صرف اتناہی نہیں امریکہ عالمی سطح پر روس کو تنہا بھی نہیں کرسکا ۔یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر روس کو تنہاکرنے کے لئے علاقائی ملکوں پر تجارتی ٹیرف میں اضافہ کررہے ہیں تاکہ دبائو کی پالیسی کے تحت ان ملکوں کو اپنا اتحادی بنایاجاسکے ۔خاص طورپر بھارت کہ جس کی درآمد کا بڑا انحصار چین پر ہے جس میں خام تیل سب سے بڑامسئلہ ہے ۔دوسرے امریکہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرناچاہتاہے کیونکہ عالمی منڈی میں چین کی نمایاں حیثیت ہے جس نے امریکی موجودگی کے باوجود اپنی برآمدات کا لوہامنوایاہے۔
امریکہ اور یوروپی یونین نے بھارت اور روس کی اہم کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرکے دبائو کی پالیسی کو مزید سخت کردیاہے ۔ریلائنس سب سے زیادہ روس سے خام تیل درآمد کرتاہے اس لئے پابندیوں کا واضح اثر اس کمپنی پر نظر آئے گا۔روسی صدر نے تو واضح الفاظ میں کہاہے کہ کوئی بھی عزت دار ملک دبائو کے سامنے نہیں جھک سکتا،مگر وزیر اعظم مودی کی طرف سے ایساکوئی بیان سامنے نہیں آیاجس سے بھارت کی خودمختارانہ حیثیت ظاہر ہوسکے ۔روس پر اقتصادی پابندیوں اور اس کو عالمی سطح پر تنہاکرکے امریکہ یک قطبی نظام (Unipolar)کی بحالی اور مضبوطی کا خواہاں ہے جس پر روس ،چین ،ایران اور ان کے حلیف ملکوں نے کاری ضرب لگائی تھی ۔یہ ملک کثیر قطبی نظام(Multipolar) کے حامی ہیں ۔لہذا بھارت کا روس کی طرف جھکائو امریکی تضعیف کاسبب بنتاہے ۔
آسیان اجلاس میں شرکت کے لئے جاتے وقت امریکی صدر نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دعوے پر اصرارکیااور کہاکہ بھارت روس سے تیل کی خرید موقوف کرنے پر غورکررہاہے ۔شاید اسی بناپر وزیر اعظم مودی آسیان اجلاس میں شرکت کے لئے نہیں گئے تاکہ ٹرمپ سے سامنا نہ ہو۔ انہوں نے ڈیجیٹل موجودگی ضرور درج کرائی لیکن پاکستان کےساتھ جنگ بندی میں امریکی مداخلت اور روس سے تیل خریدار ی پر ٹرمپ کے دعوئوں پر وزیر اعظم نے اب تک کوئی بات نہیں کی ۔دیکھتے ہیں آگے بھارت کی خارجہ پالیسی میں کیا بدلائو آتے ہیں ،جس کے امکانات روشن ہیں ۔
بھارت اورروس کے تعلقات اعتماد، تاریخی دوستی، اور باہمی مفاد پر مبنی ہیں۔ اگرچہ امریکہ ان تعلقات کو محدودبلکہ ختم کرنا چاہتا ہے، لیکن بھارت ا بھی تک بظاہر ’خود مختار خارجہ پالیسی‘ کے نظریے پر قائم ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے تاکہ قومی مفاد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔لیکن آئندہ ان تعلقات میں برقی تبدیلی دیکھی جائے گی ۔موجودہ وقت بھارت کی خارجہ پالیسی کے سخت امتحان کاہے جس کا آغاز ہوچکاہے۔









آپ کا تبصرہ