تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی پوری دنیا اور خاص طورپر مشرق وسطیٰ کے لئے خوش آئند مانی جارہی ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست دیکر جو ئےبائیڈن امریکی صدارت کی کرسی حاصل کرچکے ہیں ۔جبکہ ٹرمپ نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں اور انہوںنے انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاہے مگر انہیں اس سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔جوئےبائیڈین کی کامیابی کے بعدامید کی جارہی ہے کہ ٹرمپ کے دوراقتدار میںعالمی سطح پر جو بدامنی،ناچاقی ،سیاسی و تجارتی تعلقات میں کشیدگی، اور اقتصادی و معاشی بدحالی پھیل گئی تھی ،جو بائیڈن اس صورتحال پر جلد از جلد قابو پانے کی کوشش کریں گے ۔امریکہ ٹرمپ کو ان کے غیر عاقلانہ فیصلوں ،احمقانہ حرکتوں اور عالمی سیاست سے عاری سیاستمدار کی حیثیت سے کبھی بھلانہیں پائے گا ۔انہوںنے امریکی عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے تھے ،انکے پورے ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی اور عالمی سطح پر بھی انہوں نے امریکہ کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔یہ ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ امریکی داداگیری اور اس کی طاقت کا دبدبہ ختم ہوچکاہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن امریکی طاقت کے دبدبے کی بحالی اور عالمی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے کونسی نئی حکمت عملی اختیار کریں گے ۔
قابل ذکر یہ ہے کہ ہند نژاد امریکیوں نے بھی بائیڈن کی کھل کر حمایت کی ہے ۔انہوں نے ’ہائو ڈی مودی‘ اور ’نمستے ٹرمپ‘ جیسےسیاسی اور ذاتی مفاد پر مبنی پروگراموں کو زیادہ اہمیت نہیں دی ۔جس علاقے میں ’ہائو ڈی مودی ‘ پروگرام منعقد ہوا تھا ،وہاں بائیڈن کو اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔امریکی ہندوستانی عوام نے یہ ثابت کردیاکہ وہ جھوٹ اور فریب کی سیاست کو اکھاڑ پھینکنے میں یقین رکھتے ہیں ۔جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس پروگرام میں کھل کر ٹرمپ کی حمایت میں تقریر کی تھی ۔انہوں نے نعرہ دیا تھا کہ ’اس بار پھر ٹرمپ سرکار‘،مگر ٹرمپ کے حق میں وزیر اعظم مودی کی انتخابی تشہیر پر ہندوستانی عوام نے دھیان نہیں دیا ۔انہوں نے وہی فیصلہ لیا جو ان کے حق میں بہتر تھا ۔کیونکہ ٹرمپ کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ دوستی سے ہندوستان کو کوئی خاص اور بڑا فائدہ حاصل نہیں ہوا۔دونوں کے تعلقات ذاتی نوعیت کے تھے جس کا ہندوستانی مفادات کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔اس کے باوجود بھکتوں کی ٹولی ٹرمپ کی شکست سے آزردہ خاطر ہے ۔انہیں لگتاہے کہ بائیڈن ان کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوں گے ۔شاید انہیں علم نہیں ہے کہ ذاتی تعلقات اور دونوں ملکوں کی سالمیت پر مبنی سیاست دوالگ الگ چیزیں ہیں۔امریکہ نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیاہے ۔بارہا ٹرمپ نے بھی اس دوہرے رویہ کا اظہار کیا مگر وزیر اعظم مودی اپنی ٹرمپ نوازی میں ان کے اس دوہرے رویے سے چشم پوشی کرتے رہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی احمقانہ اور بصیرت سے عاری سیاست نے مشرق وسطیٰ کو بھی کم نقصان نہیں پہونچایا ہے ۔ایران اور چین کے ساتھ اس کے بگڑتے تعلقات پوری دنیا کے لئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پرکیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ساتھ ہی چین جیسے اقتصادی سُپر پاور کے ساتھ امریکی تعلقات میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ یہ دو اہم باتیں ہیں جن پر دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں ۔ٹرمپ نے یک طرفہ کاروائی کرتے ہوئے جوہری معاہدہ سے فرار اختیار کیا تھا ،جبکہ عالمی سیاست کے پیش نظر یہ فیصلہ درست نہیں تھا ۔عالمی سطح پر ٹرمپ کے اس فیصلے کی بھر پور مخالفت کی گئی مگر انہوں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی زحمت نہیں کی ۔ایران پر مسلسل معاشی پابندیوں کے اضافے نے ایرانی عوام کو امریکہ سےبددل کردیا ہے ۔ خاص طرپر عراق میں جنرل قاسم سلیمانی کے قافلے پر بزدلانہ اوردہشت گردانہ حملے نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھادی تھی۔جوابی کاروائی میں ایران نے عراق میں واقع امریکی’عن الاسد‘ ائیربیس پر میزائلوں سے حملہ کردیا تھا جس میں امریکی فوج کا بھاری نقصان ہوا تھا۔لہذا اب امریکہ ایران سے نرم گفتاری اور خارجہ سیاست میں تبدیلی کی امید نہیں کرسکتا جب تک اس کی طرف سے اس سلسلے میں پیش رفت نہیں ہوتی ہے۔ساتھ ہی روس کے بڑھتے ہوئے سیاسی و فوجی اثرات پر قابو پانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی صہیونت نوازی بھی کسی سے مخفی نہیں رہی ہے ۔وہ اپنے داماد جارڈ کشنز کی محبت میں صہیونی سیاست کا بری طرح شکار ہوئے ۔سب سے پہلے تو انہوں نے اسرائیل کو مستقل حیثیت دیکر عالم اسلام کے خلاف محاذ آرائی کی ۔یہ الگ بات ہے کہ اکثر مسلمان حکومتیں ان کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں اور انہوں نے بھی اسرائیل کی مستقل حیثیت کو قبول کرنے میں تأمل سے کام نہیں لیا ۔مگر عالمی سطح پر مسلمان امریکی سیاست سے بدظن ہوگئے ہیں اور یہ پہلی بار ہواہے کہ دنیا کے تمام مسلمانوں نے مشترکہ طورپر امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کے خلاف آواز احتجاج بلند کی ۔اس مخالفت کو مسلمان ممالک کی حمایت سے الگ ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف یروشلم کو اسرائیلی پایۂ تخت تسلیم کرنے کی امریکی سیاست کا اثر بھی مشرق وسطیٰ پر مرتب ہواہے ۔فلسطینی مقاومتی تنظیمیں اور فلسطین کے حامی دیگر ممالک بھی اس غیر سیاسی اقدام کے خلاف متحد ہوئے ہیں ۔جارڈ کشنز جو استعماری ایجنٹ ہے اور استعمار کے اشارے پر ہی اس نے ’صدی معاہدہ ‘ کا پلان ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ جاری کرواکے امریکہ کی صہیونیت نوازی کو طشت از بام کردیا تھا ۔’صدی معاہدہ‘ کو مقاومتی محاذ نےسراسر فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ قراردیا تھا مگر اسرائیل امریکہ کے تعاون سے اس معاہدہ کے نفاذ کے لئے ہاتھ پیر ماررہاہے ۔بائیڈن اس معاہدہ کے دورس نتائج سے باخبر ہیں۔اس معاہدہ پر ان کا مؤقف عالمی سیاست پر اثر انداز ہوگا ،اس لئے ابھی یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ جوئےبائیڈن فلسطین اور اسرائیل کو لیکر کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
عالمی و علاقائی مسائل سے ہٹ کر امریکہ کے داخلی مسائل بھی کم نہیں ہیں جن کو حل کرنا نومنتخب امریکی صدر کے لئے بڑا چیلینج ہوگا ۔کوڈ-19 ابھی ختم نہیں ہواہے ۔اس وباسے امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور اموات کی شرح بھی قابل تشویش ہے ۔ٹرمپ نے کوڈ -19پر کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا ۔وہ ہمیشہ کی طرح لاپرواہ اور غیر ذمہ دار نظر آئے جس کا خمیازہ امریکی عوام کو بھگتنا پڑرہاہے۔ایمگریشن قانون میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس پر بائیڈن نے انتخابی تشہیر کے دوران بھی کھل کر بات کی تھی ۔نسلی و صنعتی مساوات امریکہ کے لئے ایک اہم موضوع ہے ۔اسقاط حمل کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا ۔اقتصادی و معاشی بدحالی جو کورونا کے وبائی عہد میں اپنے عروج پر ہے ،ناٹو ممالک سے تعلقات میں کشیدگی جس کی ساری ذمہ داری ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ سیاست پر عائد ہوتی ہے ،روس کے ساتھ تعلقات کی اہمیت اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مد نظر سیاسی حکمت عملی کی ترتیب نو،پرانے اور نئے تجارتی معاہدات پر غوروخوض،اور ایران و چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ،ایسے مسائل ہیں جن پر جوئےبائیڈن کی خصوصی توجہ ہوگی ۔ظاہر ہے بائیڈن کے پاس الہٰ دین کا چراغ نہیں ہے کہ وہ ٹرمپ کی خراب کردہ صورتحال پر اچانک ایک آدھ دن میں قابوپالیں گے ،لیکن اگر بائیڈن ان مسائل پر ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو امید ہے کہ بہت جلد مثبت نتائج ظہور پذیر ہوں گے ۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔