تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| الحمد للہ! اس بار ماہِ ربیع الاول کی 17 تاریخ 1447 ہجری کو نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کو 1500 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ 53 سال ہجرت سے پہلے اگر جوڑ دئیے جائیں تو یہ عدد نکل آتا ہے۔ گردشِ وقت کی رفتار کتنی ہی تیز کیوں نہ چلے، زمانے کی طنابوں میں وقت کے خانے میں حالات و واقعات کو اگر قلم بند کیا جائے تو دنیا کو معلوم ہوگا کہ جسے خالق و مالک نے سب سے پہلے زیورِ وجود سے آراستہ و پیراستہ کیا تھا: «أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ نُورِي»(1) سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا کیا۔
اللہ نے اُسے خاتم الانبیاء بنا کر سب سے آخر میں مبعوث فرمایا۔ یہ نور جلی ذبیح و خلیل کی پیشانیوں سے گزرتا ہوا، اصلابِ شامخہ سے ارحامِ مطہرہ تک کا پاکیزہ سفر طے کرتا رہا۔
﴿قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ﴾(2) (ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا نور سجدہ گزاروں میں گردش کر رہا ہے۔)
جب یہ نورانی سفر مسیح و کلیم کی آنکھوں کا تارا، انبیاء و رسل کا دلارا بنتا ہوا سرزمینِ مکہ پر اختتام پذیر ہوا تو قدرت نے جس پاکیزہ ہستی کا انتخاب کیا، اس کا نام حضرت آمنہ خاتون رکھا۔ "آمنہ" امن سے مشتق ہے، یعنی عرب کے خونخوار اور قتل و غارت گری کے ماحول میں کوئی امن کا پیغمبر ہوگا، کوئی صلح کا داعی ہوگا، اور کوئی سکون و اطمینانِ حیات کا خوگر ہوگا۔ وہ اسی آغوشِ امن کا تربیت یافتہ شہزادہ ہوگا، جو رحم مادر سے شیرِ مادر تک اور لوریوں سے تربیت کی راہوں تک امن و امان حاصل کرے گا۔ جسے گھٹی میں صلح و آشتی کا شربت پلایا جائے گا، وہ قیامت تک داعیِ امن و امان رہے گا، نفرتوں کے شہر میں محبتوں کی شمعیں روشن کرے گا۔
اسی طرح جن اصلابِ شامخہ میں اُسے رکھا گیا، ان میں والد کا نام "عبداللہ" رکھا گیا تاکہ عبدیت کی مصداقیت کا لباسِ حسنہ اس کے جسمِ نازنیں پر سجایا جائے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کائنات میں عبدیت سے بڑا شاید کوئی شرف نہیں ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ تشہد میں پہلے عبدیت کی گواہی ہے، بعد میں رسالت کی۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ معراج پر عبدیت کو بلایا گیا، رسالت یا نبوت کو مخاطب نہیں بنایا گیا۔ ارشادِ رب العزت ہے:
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا﴾(3)
"پاک ہے وہ ذات جو لے گئی راتوں رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک، جس کے گرد ہم نے برکت رکھی ہے، تاکہ ہم اُسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔"
یعنی معراج میں عبدیت کو بلایا گیا، ورنہ قدرتِ عظمٰی نے "طٰہٰ" کا تاج سرِ اقدس پر سجا دیا تھا، "مزمل" کی قبا دوش پر ڈال دی تھی، "مدثر" کی چادر آپ کے جسمِ اقدس پر اوڑھا دی تھی، "بشیر و نذیر" کے تمغے آپ کے بازوؤں پر آویزاں کر دئیے تھے، کائنات کا مخملی فرش اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ محمد عربیؐ کے قدموں میں بچھایا جا چکا تھا، "سراج منیر" اور "داعی اللہ" کی اسنادِ عالیہ سے سرکار کو مشرف کیا جا چکا تھا۔
شق القمر کا معجزہ، جس کی انگشتِ شہادت تھی، منصۂ شہود پر آ چکا تھا۔ دستِ مقدس پر سنگریزے تلاوت کرتے تھے، لعاب دہن سے خشک کنویں چشمۂ فیضانِ کرم بن جاتے تھے، ابرِ رحمت کا سایہ ہمیشہ آپ کے وجودِ مبارک پر معلق رہتا تھا۔ آپ کے دسترخوان کا کھانا برکتوں کی ضمانت بن چکا تھا۔
جس نبی رحمت کی تمنا میں ساری فضیلتیں اور منقبتیں دستِ طلب پھیلائے کھڑی ہوں، عظمتیں جس کا طواف کر چکی ہوں، اُسے عبدیت کی نرالی صفت سے متصف کر کے بلایا گیا تاکہ کائنات میں عہدے کی ناز برداری سے کہیں زیادہ عبدیت کی ناز برداری ہو جائے۔
اسی لیے نازشِ تاریخ، انسانیت کے شہریار، ثقافت کے معلم، اخلاقیات کے پیغمبر، کائنات کے مبلغ، دین کے ناشر، فقراء و غرباء کے انیس، عارفین کے تاج، سالکین کے قدوہ، اور رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔
آپ کی 40 برس کی رفتار کو اہلِ بیت کے سانچے میں ڈھالا گیا، اور 23 برس کی گفتار کو قرآنِ حکیم کے پیرائے میں سمایا گیا۔
نبی رحمت حضرت رسولِ اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت صرف مسلمانوں کے اذہان اور قلوب میں نہیں، بلکہ دنیا کے بڑے بڑے غیر مسلم دانشوروں، مورخین اور مفکرین نے بھی آپ کی سیرتِ طیبہ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ذیل میں چند نامور غیر مسلم مفکرین کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں:
1. جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw)
"I believe that if a man like him were to assume the dictatorship of the modern world he would succeed in solving its problems in a way that would bring it much needed peace and happiness."
(4)
"میرا یقین ہے کہ اگر محمدؐ جیسے شخص کو جدید دنیا کی قیادت سونپ دی جائے تو وہ اس کے مسائل ایسے حل کر دے گا کہ دنیا کو وہ امن و سکون نصیب ہوگا جس کی آج اسے سخت ضرورت ہے۔"
2. ایڈورڈ گیبن (Edward Gibbon)
"The greatest success of Mohammad’s life was effected by sheer moral force without the stroke of a sword."
(5)
"محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی خالص اخلاقی قوت کے ذریعے حاصل ہوئی، تلوار کے ایک وار کے بغیر۔"
3. گوئٹے (Goethe) – جرمن شاعر و فلسفی
"If this is Islam, do we not all live in Islam?"(6)
"اگر یہ اسلام ہے تو کیا ہم سب اسلام میں زندگی نہیں گزار رہے؟"
4. ایچ۔ جی۔ ویلز (H. G. Wells)
"Mohammad was the man who stood up against the whole world and succeeded in bringing a revolution in human thought."(7)
"محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہستی ہیں جو پوری دنیا کے خلاف کھڑے ہوئے اور انسانی فکر میں انقلاب لے آئے۔"
5. لیمارٹن (Alphonse de Lamartine) – فرانسیسی مورخ
"If greatness of purpose, smallness of means, and astonishing results are the three criteria of human genius, who could dare to compare any great man in modern history with Muhammad?"(8)
"اگر انسانی عظمت کے معیار مقصد کی بلندی، وسائل کی قلت، اور حیرت انگیز نتائج ہوں تو تاریخِ انسانی میں کون ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمسر قرار دیا جا سکے؟"
6. مائیکل ہارٹ (Michael H. Hart) – امریکی مصنف (کتاب: The 100)
"My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.(9)
"دنیا کی سب سے بااثر شخصیات میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلا مقام دینا کچھ لوگوں کو حیران کرے گا، لیکن وہ تاریخ میں واحد انسان ہیں جو مذہبی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں اعلیٰ ترین کامیاب ہوئے۔"
یہ وہ چند روشن مثالیں ہیں جو اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے سر چشمۂ ہدایت اور امن و سکون کا پیغام ہیں۔ آپ کی ذات اقدس وہ آفتاب ہے جس کی روشنی میں ہر مفکر، ہر مورخ اور ہر عاقل انسان اپنے لیے رہنمائی تلاش کرتا ہے۔
حوالہ جات
(1):بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ج 25 ص 22
(2) سورہ شعراء آیت 219 (3) سورہ الاسراء آیت 1
(4) Bernard Shaw, The Genuine Islam, Singapore, Vol. 1, No. 8, 1936.
(5) Edward Gibbon, The Decline and Fall of the Roman Empire, Vol. 5.
(6)Goethe, West-östlicher Divan, 1819.
(7) H. G. Wells, A Short History of the World, 1922.
(8). Alphonse de Lamartine, Histoire de la Turquie, Paris, 1854.
(9)Michael H. Hart, The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History, 1978.









آپ کا تبصرہ