منگل 12 اگست 2025 - 22:34
اربعین اسلامی ہم آہنگی اور اتحاد بین المسلمین کا عالمی اجتماع

حوزہ/ موجودہ دور میں امت مسلمہ کو سب سے خطرناک مرض جو لاحق ہوا ہے وہ ہے اختلاف اور مخالفت۔اسی چیز کے پیش نظر اس مقالہ میں مثبت پہلوؤں کے بارے میں اہم مباحث شامل ہیں۔

تحریر: سید شباب حیدر نقوی، طلبہ جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کراچی کیمپس

حوزہ نیوز ایجنسی | اربعین امام حسین ؑ ایک ایسی پیادہ روی ہے جس میں زائرینِ سیدالشہداؑ 20 صفر کو پیدل چلتے ہوئےنجف سےکربلاپہنچتے ہیں پیغمبر اسلامؐ کے مشہور صحابی جابر بن عبداللہ انصاری کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مشہور تاریخی اسناد کے مطابق جابر نے عطیہ عوفی کے ہمراہ 20 صفر سنہ 61 ہجری قمری کو کربلا آکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔یہی وجہ ہے کہ امام ؑکے چاہنے والوں کا ایک عظیم اجتماع دیکھنے کو ملتا ہے۔تمام مسلمان امام مظلوم کی خدمت میں ھدیہ تسلیت وتعزیت پیش کرتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں کہ مولا آپ کی قربانی کی بدولت آج ہمارا شمار اسلام کے ماننے والوں میں سے ہوتا ہے۔اگر آج مسجدوں میں آذانیں ہیں تو آپ کے ایثار کی بدولت ہیں۔امام حسین ؑ سے عقیدت رکھنے والے قافلوں کی صورت میں اس دن کربلا پہنچنتے ہیں اور آج پیدل چل کر سید الشہداء ؑ کی زیارت کیلئے جانا شیعوں کے اہم ترین اور عظیم ترین مراسمات میں شامل ہو گیا ہے یہاں تک کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تہواروں میں شامل ہونے لگا ہے۔زائرین کا اس موقع پر عزاداری اور عبادت میں مشغول ہونا امت مسلمہ کو ایک مثبت پیغام دیا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان معرفت توحید ورسالت حاصل کرتا ہے ۔جب زائر امام عالی مقامؑ یہ جان لے کہ سیدالشھداؑ نے حالتِ سجدے میں شہادت کا مرتبہ حاصل کیا تو انسان اس بات سے غافل نہیں ہو سکتا کہ خداوند ِ متعال ہی عبادت کے لائیک ہےاور حضرت محمدِ مصطفیٰﷺاللہ کے بھیجے گئے آخری نبیﷺ ہیں حسین ؑابن علیؑ نے اپنےنانا کی شریعت بچا کر بتلایا کہ تا قیامت خدا نے دین اسلام اور شریعت محمدی کی حفاظت کے لیے بارہ جانشین بھیجے ہیں اورکوئی بھی زمانہ حجت خدا سے خالی نہیں۔

مظلوم کربلا کی عزاداری کی زندگی کو نیا رخ دیتی ہے۔اربعین حسینی پر عشق اہل بیت کے ناقابل یقین مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ہر طرف روحانیت سے فضا میں عجب کیفیت پائی جاتی ہے امام عالی مقام علیہ السلام کے مصائب پر ہر آنکھ اشک بار ہوتی ہے ۔ زائرین حسینیت زندہ باد یزیدیت مردہ باد کے نعرہ کی صدا بلند کرتے ہوے امام حسین کے روضہ مبارک پر لبیک کہتے ہیں۔ سیدالشهدا کی قربانی فقط اسلام کی بقا کی خاطر تھی اور بیشک کربلا کی سر زمین پر حسینی کردار میں مکمل اسلام کی عکاسی کی گئی ہےجو کہ آلم اسلام میں ہم آہنگی کو بلند ترین سطح پر لانے کے لیے بہترین درس گاہ ہے۔

اس اہم موضوع پر یہ ایک مبارک اور اطمینان بخش کوشش ہے جس سے تعلیم یافتہ مسلمان اچھی طرح سمجھ لے گا کہ استنباط مسائل کے لیے علماء کا طریقہ کار کیا تھا۔ کن اصولوں پر ان کے اجتہاد کی عمارت کھڑی تھی اور ان کے اختلاف کی تعمیری بنیاد کیا ہوا کرتی تھی۔ اسلام میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کربلا کی سرزمین کیسے نمونہ عمل ہے؟کیا کربلا کے حقیقی مقصد سے اسلامی معاشرہ آشنا ہے ۔اسلامی اتحاد کو بہتر کرنے کے لیے معاشرے میں حسینیت کی حقیقت سے شناسائی ممکن ہے؟

موجودہ دور میں امت مسلمہ کو سب سے خطرناک مرض جو لاحق ہوا ہے وہ ہے اختلاف اور مخالفت۔اسی چیز کے پیش نظر اس مقالہ میں مثبت پہلوؤں کے بارے میں اہم مباحث شامل ہیں۔

اربعین حسینی پس منظر

چہلم جسے عربی زبان میں اربعین بھی کہا جاتا ہے یہ قدیم زمانہ سے شیعوں کے درمیان رائج ایک رسم ہے۔اب چاہے ہر سال سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کا منایا جانے والا چہلم ہو یا پھر ایصال ثواب کی خاطر مرحوم ہو جانے والے مومنین کے لئے مجالس یا خیرات کا سلسلہ۔مگر دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے چہلم کو شرعی اعتبار سے ایک قانونی حیثیت حاصل ہے جبکہ دیگر مرحومین کے لئے چہلم کے عنوان سے ہونے والے پروگرام کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔اس معنیٰ میں کہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں آپ کے چہلم منانے پر تاکید ملتی ہے۔جبکہ دیگر تمام مرحوم ہو جانے والے مومنین اور حتیٰ دیگر معصومین علیہم السلام کے لئے ہمیں روایات کے آئینہ میں چہلم کی رسم نظر نہیں آتی۔امام حسین علیہ السلام کے خاص اور منفرد امتیازات میں سے ایک یہی ہے کہ معصومین علیہم السلام نے آپ کی رسم چہلم کی جانب عالم اسلام کو متوجہ فرمایا اور اسے ایک خاص اہمیت کی نظر سے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے زیارت اربعین کو مومن کی علامتوں میں شمار فرمایا ہے۔آپ ایک بندہ مومن کی علامتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مومن کی پانچ علامتیں ہیں؛دن بھر میں ۵۱ رکعت نماز پڑھنا (نماز پنجگانہ،انکی نوافل اور نماز شب)،اربعین کی زیارت پڑھنا،سیدہے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا،خاک پر سجدہ کرنا اور نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنا۔تاریخ بتاتی ہے کہ۲۰ صفر سنہ ۶۱ ہجری کو مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی جناب جابر بن عبدالله انصاری،سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ سے سر زمین کربلا پر تشریف لائے۔اس تاریخ میں شام سے اہل حرم کے کربلا پہونچنے کے سلسلہ میں تاریخ میں مختلف اقوال ذکر ہوئے ہیں۔بعض علماء نے راستہ کی طولانی مسافت اور بعض دیگر وجوہات کے پیش نظر ۲۰ صفر سنہ ۶۱ کے دن اہل حرم کے کربلا پہونچنے کو معتبر روایت کرار دیا۔

اس تاریخی گفتگو سے قطع نظر جو بات مسلم ہے وہ یہ کہ ۲۰ صفر سید الشهدا امام حسین علیہ السلام کا یوم چہلم ہے اور اس دن کے لئے معصومین علیہم السلام نے ایک زیارت کی تعلیم دی ہے جو زیارت اربعین کے نام سے معروف ہے۔

اس موقع پر ایک اور خاص رسم جو حالیہ برسوں میں بہت زیادہ نمایاں طور پر سامنے آئی ہے اور ہر سال اسکی رونق میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ کربلا کی جانب حسینی پروانوں کا ہجوم ہے جو پاپیادہ راہ کربلا کی طولانی مسافت کو طے کرکے اپنے مولا کے حضور اپنی لبیک درج کراتے ہیں۔پاکیزہ جذبات اور معنویت و روحانیت سے لبریز یہ عالیشان رسم گزشتہ صدیوں کے دوران بھی رائج رہی ہے مگر کچھ سالوں سے جو شکل اس رسم نے اختیار کی ہے اسکی نظیر نہیں ملتی۔

ماضی میں بھی سید الشہدا علیہ السلام کے چاہنے والے چہلم کے موقع پر پاپیادہ کربلا مشرف ہوتے رہے ہیں۔متعدد علما اور مراجع کرام کی سوانح حیات میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ یہ حضرات گذشتہ صدیوں میں بھی اپنے اعزاء و اقارب یا مریدوں کے ہمراہ اس روح پرور اور معنوی رسم پر خود بھی عمل پیرا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ مومنین کو بھی اس میں شریک ہونے کی ترغیب دلائی ہے۔جیسے دنیا میں حسینیت کی حقیقت آشکار ہو رہی ہے اسی طرح ہر سال اربعین کے موقع پر ناقابل یقین اجتماع دیکھنے کو ملتا ہے۔لوگ جوک در جوک چہلم امام حسین علیہ السّلام میں شریک ہو کر معنویت حاصل کرتے ہیں جس سے زائر امام حسین علیہ السلام اپنے اندر ایک خاص تبدیلی دیکھنےکو ملتی ہے جیسے کہ اس عطائے خاص کا عرصہ دراز سے نیازمند تھا۔انسان مقصد حسین علیہ السّلام سے آشنا ہو جاتا ہے امام عالی مقام علیہ السلام اسے اپنے در پر حاضری کا شرف بخشتے ہیں ۔

گذشتہ دھائیوں اور عصر حاضر میں زیارت اربعین چودہویں صدی کے آخر اور 15ویں صدی کے اوائل میں، عراقی بعث پارٹی نے اربعین کے دن عراقی عوام کی زیارت اور جلوسوں پر پابندی لگا دی تھی، جس کی وجہ سے یہ زیارت جوش و خروش کے ساتھ انجام نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس دوران حکومت کے اس اسلام دشمن اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے آیت اللہ شہید سید محمد صدر نے پیدل زیارت اربعین کو واجب قرار دیا ۔ شہید آیت اللہ سید محمد باقر حکیم نے بھی لوگوں کو زیارت اربعین کی ترغیب دلانے اور عراقی حکومت کے اس حکم کو عوام کے ذریعے مسترد کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔ امام خمینی (رح) نے بھی لوگوں کو اس عمل میں ترغیب دینے کی کافی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں نجف کے لوگوں نے 15 صفر 1398 ہجری کو اجتماعی زیارت کا فیصلہ کیا اور دسیوں ہزار افراد قافلوں کی شکل میں کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔ حکومتی افواج نے پہلے اس شاندار قافلے کا سامنا کر کے متعدد زائرین کو شہید کیا اور آخر کار نجف سے کربلا جاتے ہوئے لوگوں پر حملہ کر کے ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا۔ 2003 میں صدام حسین کے زوال کے بعد اربعین کا جلوس بڑی شان و شوکت کے ساتھ دوبارہ شروع ہوا اور اس کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوتا گیا، جس کی وجہ سے آج ایک اندازے کے مطابق زائرین کی تعداد لاکہوں تک جا پہنچی ہے۔ موجودہ دور میں یہ زیارت دنیا کے سب سے عظیم ترین اجتماع کی حیثیت حاصلی کرچکی ہے۔

محبت حسین کا حقیقی اثر

محبت اہل بیت علیہم السلام ایک راہ نجات ہے ۔ایک بٹھکے ہوئے انسان میں اگر محبت اہل بیت علیہم السلام پیدا ہو جائے تو اس راہ نجات کا ملنا یقینی ہے۔حسین ابن علی علیہ السّلام کی محبت آب حیات ہے یعنی یہ محبت ابدی زندگی دیتی ہے۔ایسی محبت ہے کہ جو انسان کو منزل مقصود تک رسائی دے پھر یہ ہدایت یافتہ انسان کبھی نہیں مرتا،یہاں موت سے مراد ظاھری موت نہیں ،اس سے مراد ایک کامل مومن کی زندگی ہے جو ہمیشہ باقی رہتی ہے۔

سیدالشھدا علیہ السّلام کی محبت اکسیر ہے یعنی وہ دوا ہے جو دنیا کی ہر مرض کا علاج کر سکتی ہے یہ دوا سب سے بڑی بیماری کا علاج کرتی ہے جیسا ک دنیا کی محبت ہے۔یہ دوا انسان کی معنویت کو قوت بخشتی ہے ۔

اسی طرح سید الشہداء کی محبت ایک ایسا کیمیا ہے جو کسی بھی دھات پر ڈالنے پر سونے کی شکل اختیارکرلیتا ہے۔ عشق حسین علیہ السّلام ایسا کیمیا ہے جو مسلمان انسان کے مقام و مرتبہ کو پستی سے بلندی تک لے جاتا ہے۔ جب ہر مرد مومن میں عشق حسیں علیہ السلام بستا ہو گا تو اس معاشرے کا نعمل بدل نہیں ہو گا اس کی زندگی مثال اربعین حسینی پر دیکھنے کو ملتی ہے جہاں مذھب و فرقے کی کوئی قید نہیں۔ حسینی عشق کو عملی جامہ پہنا کر ایک کامل اسلامی اتحاد پر مشتمل معاشرتی قائم کیا جا سکتا ہے۔رسول خدا سے تمام انبیاء کرام کا خدا کی وحدانیت کو آل آدم تک پہنچانا تھا لیکن رسول خدا کے بعد خداوند آل محمد میں سے آئمہ علیھم السلام کو منتخب کیا اور اسلام کی کشتی کو پار لگانے کی ذمہ داری معصومین علیھم السّلام کے سپرد کی۔ہر معصوم کا خاص قربانی رہی ہے لیکن فرزند رسول جگر گوشہ بتول سلام اللہ علیہا نے جو قربانی دی تاریخ میں آج تک دین خدا کے دفاع کے لیے ایسی قربانی نہیں ہے۔آج ہر کلمہ گو حسین ابنِ علی علیہ السلام کا احسان مند ہے جس انسانیت کو بھٹکنے سے بچایا ۔یقیںاً یہ عظیم شخصیت ہی انسان کو انسان کا احساس دلانے کے لیے مشعل راہ ہے۔امام حسین علیہ السلام نے سکھایا کہ مظلوم کا ساتھ دینا ہے اور ظالم کے خلاف قیام کرنا ہے

اولیائے الٰہی کے قبور کی زیارت علمائے اہل سنت کی نظر میں

شیعوں کے علاوہ، اہل سنت علماءبھی قبروں، خاص طور پر پیغمبر اور اولیای کرام کی قبروں کی زیارت پر یقین رکھتے تہے، ۔ یہ مسئلہ مختلف سنی روایات کی کتابوں میں مذکور ہے، جیسے کہ کتاب «موسوعة الفقیة الکویتیہ» میں سنی فقہی کے آراء اس موضوع کے بارے میں موجود ہیں جو کہ عصر حاضر کے سنی علماء کی نظر میں قابل قدر ہے کیونکہ یہ کتاب ایک سنی فقہی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں زیارت کے بارے میں درج ذیل بیان کیا گیا ہے: بڑے سنی علماء حج کے لیے سفر کو جائز سمجھتے ہیں۔ کیونکہ شواہد کی عمومیت سفر کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے، خصوصاً نبی اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا، ان کی زیارت کے لیے سفر کرنا یقیناً جائز ہے۔ نیز بہت سے اہل سنت علماء نے کربلا کے واقعات کو نقل کیا ہے جیسا کہ ابن الجوزی نے اپنی کتاب میں عاشورہ کے دن پیش آنے والے واقعات و حوادث کو سوگ کی صورت میں بیان کیا ہے۔ان مصائب کوبیان کرتے ہوئے کچھ افراد نے گریہ بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر عاشورہ کے دن دمشق کے لوگوں نے سبط بن الجوزی سے کہا کہ وہ منبر پر چڑھ کر امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بتائیں۔ اس نے قبول کر لیا۔ پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ایک طویل خاموشی کے بعد منہ پر رومال رکھ کر رونے لگے اور روتے ہوئے آپ نے ایک نظم کے دو اشعار پڑہے جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:

"افسوس ہے اس شخص کے لیے جس کا شفاعت کرنے والا قیامت کے دن اس کا دشمن ہو، آخر کار قیامت کے دن فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا محشر میں داخل ہوں گی جب کہ ان کی قمیص حسین کے خون سے رنگی ہوئی ہو گی۔" پھر وہ منبر سے نیچے اترے اور روتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے۔

اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ

دین اسلام کو مکمل طور پر سمجھنے کا راستہ اللہ تعالیٰ کی لاریب کتاب قرآن مجید اور محمد و اہل بیت محمد ہیں۔افتراق پید اکی وہاں سے ہے جھاں محمد و اہل بیت کی رسی کو چہوڑ دیا جائے۔یہی نظریہ دوسرے گروہ کے ماننے والے بھی اپنا زیارتِ امام حسین علیہ السلام کا شرف حاصل کرتے ہیں اور اظہار عقیدت پیش کرتے ہیں .اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت رکھتے ہیں اور آپ کو اپنی اولاد اور ناموس سے بھی زیادہ دوست رکھتے ہیں ۔ آپ امت کے باپ ، نبی رحمت اور سر تا پا رؤوف و مہربان تہے ۔ اگر ایک خاندان میں ، فرزندوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور لڑائی جھگڑا کر یں ، تو بے شک خاندان کے سر پرست کے دل میں غم و ملال پیدا ہوگا اور وہ دل آزردہ ہوں گے ۔ کیا وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق کرکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشحال کر دیں جواسلامی معاشرہ کی سر بلندی کے لئے اتنی کوشش کرتے تہے کہ خدا وند متعال نے فرمایا :

"طٰه مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰ

" یقینا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اختلاف و افتراق سے راضی نہیں ہے۔"

مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں خدا وند متعال فرماتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪

"اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو "

اتحاد فقط عشق حسینی سے ممکن ہے کیونکہ ایک حسینی کبھی دوسرے مسلمان کا برا نہیں سوچتا حسین ابنِ علی علیہ السلام کی قربانی پر آنسوں بہانے والا مومن دوسروں کے لیں ایثار کے لیے ہر وقت آمادہ ہوتا ہے۔پھر کیونکر ممکن نہیں کہ قرآن و اہلبیت علیہ السّلام کو بتائے ہوئے راستے میں مومن کو ابدی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

إِنّ حُبّنَا لَتُسَاقِطُ الذّنُوبَ كَمَا تُسَاقِطُ الرّيحُ الْوَرَقَ

"ہم اہلبیت کی محبت گناہوں کو ویسے ہی گرا دیتی ہے جس طرح (تیز) ہوا (درخت کے) پتوں کو گرا دیتی ہے۔"

آخری بات:

آخر میں اس مقدس نظریہ کے مخالفین سے نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ زمان و مکان کے حالات کو درک کریں ۔ سرحدوں کے کھلنے اور حالات بدلنے کے پیش نظر آج جو باطل افراد بدظنی اور دشمنی پھیلاتے ہیں ، وہ ننگے ہو چکے ہیں اور یہ لوگ صرف اسلامی فرقوں میں موجود جاہل اور تنگ نظر افراد ہیں جو اتحاد و اتفاق کے دشمنوں سے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ آج دشمن اسلامی قوت کو کمزور کرنے کی خاطر اسلام کے منانے والوں کو اندر سے کہوکلا کر رہا ہے اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر رہا ہے ہمیں چاہیے کہ محمد و آل محمد کی دی گئی.قربانیوں سے سبق حاصل کریں اور ان کی سیرت اپنا کر ایک متحد قوم بن کر دشمن کو ذلت کی خاک چٹائیں۔

آیئے ! ہم اپنے آپ کو جاہلوں کی صف سے جدا کرکے مستقبل قریب میں دنیا بھر میں چھا جانے والے دین ، پر یقین کرکے اپنے پروگرام مرتب کریں ، جس کے پھیلاؤ کے احتمال سے دشمن پریشان ہیں ۔ اس دن کی امید کے ساتھ ، جب اسلام کا پرچم پوری دنیا میں سر بلند ہوگا ۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha