تحریر : مولانا محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی| دعا انسان کے اور اس کے خالق کے درمیان وہ روحانی رشتہ ہے جو انسان کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشنی عطا کرتا ہے۔ یہ محض الفاظ کا تکرار نہیں بلکہ قلب و روح کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ایک صدا ہے، جو بندے کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ کائنات میں ایک ایسی لامحدود طاقت موجود ہے جو اس کی فریاد سننے والی ہے۔ یہی احساس انسان کے اندر امن و سکون، حوصلہ اور نئی توانائی پیدا کرتا ہے۔
دعا کا فلسفہ
فلسفیانہ اعتبار سے دعا اس حقیقت کی نشانی ہے کہ انسان اپنی محدودیت کا اعتراف کرتا ہے اور ایک لامحدود طاقت کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔ دعا اس بات کا اقرار ہے کہ انسانی عقل اور وسائل کے باوجود ایسے امور ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ قرآن کریم اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
"أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ" النمل: 62۔ یعنی "کون ہے جو مضطر کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے؟"
یہ آیت دعا کو ایک فلسفیانہ بنیاد دیتی ہے کہ انسان جب اپنی بے بسی کا اعتراف کرتا ہے تو وہ خالقِ حقیقی کے سامنے جھکتا ہے، اور یہی جھکاؤ اس کے روحانی ارتقاء کی بنیاد ہے۔
دعا کے نفسیاتی اثرات
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ دعا انسان کو عملی جدوجہد سے ہٹا کر ماورائی سہارے پر لگا دیتی ہے۔ یہ سوچ حقیقت سے ناآشنا ہے۔ دعا محض الفاظ نہیں بلکہ ایک روحانی سہارا ہے جو انسان کے دل میں امید، شجاعت اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔ جدید ماہرینِ نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ دعا اور عبادت اضطراب، خوف اور ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں۔ ایک ماہر کے مطابق:
"دعا کے بغیر معاشرے کا زوال یقینی ہے، کیونکہ یہ انسان کے اندرونی سکون کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔"دعا کے اثرات صرف روحانیت تک محدود نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی بے پناہ مثبت نتائج مرتب کرتی ہے:
اطمینانِ قلب اور ذہنی سکون
دعا انسان کو دل کی گہرائیوں میں سکون عطا کرتی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے:
"اَلا بِذِكرِ اللهِ تَطمَئِنُ القلوب"الرعد: 28
یعنی "خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔"
امید اور رجائیت (Optimism)
دعا انسان میں امید کی کرن جگاتی ہے۔ ایک مایوس دل جب اللہ کو پکارتا ہے تو اس کے اندر مستقبل کے لیے ایک نئی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ یہ امید زندگی کو جینے کے قابل بناتی ہے۔
خوف اور اضطراب کا خاتمہ
ماہرینِ نفسیات مثلاً ڈاکٹر الیکسس کارل نے لکھا ہے کہ: "دعا انسان کے اندرونی تناؤ کو ختم کر کے اسے نفسیاتی سکون عطا کرتی ہے، اور یہ سکون دواؤں سے زیادہ مؤثر ہے۔"
قوتِ ارادی اور حوصلہ
دعا انسان کے اندر جرات اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ جب انسان اپنے مسائل اللہ کے سپرد کرتا ہے تو اس کے اندر مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔
سماجی اور اخلاقی اثرات
دعا انسان کو عاجزی، شکر گزاری اور صبر جیسی صفات سکھاتی ہے۔ ایک دعا کرنے والا انسان دوسروں کے ساتھ ہمدرد اور نرم خو بن جاتا ہے، جس سے معاشرتی سطح پر بھی سکون اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
دعا انسان اور اس کے خالق کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ یہ مومن کا سب سے مضبوط ہتھیار، مشکلات کا سہارا اور دل کا سکون ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾
البقرہ: 186۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت کا وعدہ کیا ہے اور دعا کو قبول کرنے کی ضمانت دی ہے۔ اس حقیقت کو امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان کیا:الدّعاء يردّ القضاء بعد ما أبرم إبراماً۔ یعنی: دعا تقدیرِ محتوم کو بھی بدل دیتی ہے۔
دعا کا حقیقی مفہوم
دعا کبھی بھی اسبابِ طبیعی کی نفی نہیں کرتی۔ بلکہ یہ انسان کو یہ یاد دلاتی ہے کہ تمام اسباب اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ دعا اس وقت مستجاب ہوتی ہے جب انسان اپنی سعی و کوشش کر لینے کے بعد عاجزی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے۔ یہ رجوع انسان کے دل کو تازہ توانائی بخشتا ہے اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی ہمت عطا کرتا ہے۔
دعا اور رضا بالقضا
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دعا قضا و قدر کے خلاف ہے۔ حقیقت میں دعا انسان کو زیادہ لیاقت اور قابلیت عطا کرتی ہے تاکہ وہ الٰہی فیض کا مستحق ہو سکے۔ امام صادقؑ کا فرمان ہے:
"إنّ عند الله عزّ وجلّ منزلة لا تُنال إلّا بمسألة"
یعنی اللہ کے ہاں کچھ مقامات ایسے ہیں جو صرف دعا کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔
دعا اور سائنسی نقطۂ نظر
جدید سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ دعا انسان کو کائنات کی لامحدود طاقت سے جوڑتی ہے۔ نفسیات کی جدید ترین شاخیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ دعا اور ایمان سے انسان کے دل سے بےچینی اور خوف دور ہوتے ہیں، اور یہ اکثر بیماریوں کے بنیادی اسباب ہیں۔
دعا کی قبولیت کی شرائط
اسلامی روایات کے مطابق دعا کی قبولیت کے چند شرائط ہیں:
قلب و روح کی تطہیر: دعا سے قبل توبہ، حمدِ باری تعالیٰ اور درود ضروری ہے۔
رزق کی پاکیزگی: حلال کمائی اور پاک غذا دعا کی استجابت کے لیے بنیادی شرط ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر: نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے والا معاشرہ ہی دعاؤں کی قبولیت کا اہل بنتا ہے۔
عہدِ الٰہی کی پاسداری: وعدہ خلافی اور گناہوں سے آلودہ دل دعا کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
ایک شخص امیر المؤمنین حضرت علی علیہالسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ امام نے فرمایا:
"تمہارے دل آٹھ باتوں میں خیانت کر چکے ہیں:
تم نے اللہ کو پہچانا لیکن اس کا حق ادا نہ کیا جیسا کہ تم پر لازم تھا، لہٰذا تمہاری معرفت تمہارے کچھ کام نہ آئی۔
تم نے رسولؐ پر ایمان لایا لیکن ان کی سنت کی مخالفت کی، ان کی شریعت کو مردہ بنا دیا، تو پھر تمہارے ایمان کا کیا فائدہ؟
تم نے اس کی کتاب پڑھی جو تم پر نازل کی گئی تھی، لیکن اس پر عمل نہ کیا، زبان سے کہا "ہم نے سنا اور اطاعت کی"، لیکن عمل میں مخالفت کی۔
تم کہتے ہو کہ دوزخ سے ڈرتے ہو، لیکن ہر وقت اپنے گناہوں کے ذریعے اس کی طرف بڑھتے ہو، تو پھر تمہارا خوف کہاں ہے؟
تم کہتے ہو کہ تمہیں جنت کی خواہش ہے، لیکن ہر وقت ایسے اعمال کرتے ہو جو تمہیں اس سے دور کرتے ہیں، تو پھر تمہاری خواہش کہاں گئی؟
تم نے خدا کی نعمتیں کھائیں لیکن ان کا شکر ادا نہ کیا۔
اللہ نے تمہیں شیطان کی دشمنی کا حکم دیا اور فرمایا: "بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، پس تم بھی اسے دشمن بنا لو" لیکن تم نے زبانی دشمنی کی اور عملی طور پر اس کی دوستی اختیار کر لی۔
تم نے لوگوں کے عیوب کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا اور اپنے عیوب کو پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا، دوسروں کو ملامت کرتے ہو حالانکہ ملامت کے سب سے زیادہ حقدار تم خود ہو۔ایسی حالت میں کون سی دعا قبول ہو سکتی ہے جبکہ تم نے اس کے دروازے اور راستے خود بند کر لیے ہیں؟ لہٰذا اللہ سے ڈرو، اپنے اعمال درست کرو، اپنے دلوں کو خالص بناؤ، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو تاکہ اللہ تمہاری دعائیں قبول کرے۔"
عمل کے ساتھ دعا: دعا بغیر عمل کے ایسے ہے جیسے کمان کے بغیر تیر۔
نتیجہ
دعا انسان کو بےعملی کی طرف نہیں لے جاتی بلکہ اس کے اندر بیداری، شعور اور عمل کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ دل کو سکون، ذہن کو وضاحت اور شخصیت کو مضبوطی عطا کرتی ہے۔ لہٰذا دعا کو "نشہ آور" قرار دینا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا ہر امت اور ہر فرد کی حیاتِ معنوی کا لازمی جز ہے اور
یہی روحانی ہتھیار انسان کو مشکلات میں سنبھالتا ہے۔









آپ کا تبصرہ