تحریر: شیخ جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی| قرآنِ مجید بارہا انسان کو کائنات کی نشانیوں پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ کتابِ الٰہی محض اخلاقیات اور عبادات کا ضابطہ نہیں، بلکہ مظاہرِ فطرت کو بھی روشن انداز میں بیان کرتی ہے۔ سورج، چاند، اور دن و رات کا نظام ایسی ہی نشانیاں ہیں جو انسانی زندگی کو نظم اور ترتیب عطا کرتی ہیں۔ سورۃ البقرہ (2:189)، سورۃ یونس (10:5) اور سورۃ الاسراء (17:12) میں ان مظاہر کا ذکر آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہی وقت ناپنے، تقویم بنانے اور عبادات کی تعیین کے اصول ہیں۔ اس مقالے میں ہم ان آیات کا مطالعہ کلاسیکی تفاسیر، اہلِ بیتؑ کی روایات اور جدید فلکیاتی علوم کی روشنی میں کریں گے۔
قرآن اور قمری نظام
سورۃ البقرہ (2:189) میں ارشاد ہے:’’وہ آپ سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے: یہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت کی پیمائش کا ذریعہ ہیں۔‘‘
امام محمد باقرؑ نے (تفسیر قمی کے مطابق) فرمایا کہ ہلال انسان کے لیے روزوں، حج، نکاح اور مالی معاملات کا معیار ہے۔ مفسرین جیسے علامہ طباطبائی (المیزان) اور طبرسی (مجمع البیان) نے لکھا ہے کہ قرآن نے فلسفیانہ بحث میں الجھنے کے بجائے اس کی اصل غرض یعنی وقت کی تعیین کو واضح کیا۔
سائنس کے مطابق قمری چکر 29.53 دن میں مکمل ہوتا ہے، جو اسلامی قمری تقویم کی بنیاد ہے۔ اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ایک عام ناخواندہ شخص بھی بغیر کسی آلے کے ہلال کو دیکھ کر مہینے کا آغاز متعین کر سکتا ہے، جب کہ شمسی تقاویم کے لیے ماہرین اور پیچیدہ حسابات درکار ہیں۔
سورج، چاند اور روشنی کا فرق
سورۃ یونس (10:5) میں فرمایا گیا کہ سورج ’’ضیاء‘‘ ہے یعنی اپنی روشنی پیدا کرنے والا، جبکہ چاند ’’نور‘‘ ہے یعنی انعکاسی روشنی۔ صدیوں تک انسانی تاریخ میں یہ فرق واضح نہ تھا۔ لیکن آج سائنس نے ثابت کیا ہے کہ سورج ایک عظیم ستارہ ہے جو نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے روشنی اور حرارت پیدا کرتا ہے، جبکہ چاند محض سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔
ناسا کے مطابق سورج ایک G-type main sequence star ہے، جب کہ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں۔ نیل ڈگراس ٹائسن اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدان بھی اس حقیقت کو جدید فلکیات کی بنیادی معلومات میں شمار کرتے ہیں۔ اس طرح قرآن نے وہ حقیقت صدیوں پہلے بیان کر دی جو سائنس نے بعد میں دریافت کی۔
دن اور رات کا نظام
سورۃ الاسراء (17:12) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا۔‘‘
رات کو ’’محو‘‘ یعنی تاریکی کی علامت کہا گیا اور دن کو روشنی کی نشانی۔ مفسرین جیسے فخر رازی نے وضاحت کی کہ رات اپنی کوئی روشنی نہیں رکھتی جبکہ دن سورج کی روشنی سے منور ہے۔ سائنس کی زبان میں، یہ زمین کی گردش ہے جو دن و رات کا سبب بنتی ہے۔ یہی گردش اتنی منظم ہے کہ انسان سیکنڈ بلکہ ملی سیکنڈ تک وقت ناپنے کے قابل ہو گیا ہے۔ آج کی جدید ’’ایٹمی گھڑیاں‘‘ بھی اسی فلکی نظام پر مبنی ہیں۔
قمری تقویم پر اعتراضات اور ان کے جوابات
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قمری سال شمسی سال سے گیارہ دن چھوٹا ہے، کیا یہ ایک نقص نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’’نقص‘‘ نہیں بلکہ حکمت ہے۔ اس کی وجہ سے رمضان اور حج مختلف موسموں میں آتے ہیں، کبھی گرمی میں، کبھی سردی میں، اور کبھی بارش یا خزاں میں۔ اس طرح مسلمان مختلف حالات میں عبادات انجام دے کر یکساں آزمائش سے گزرتے ہیں۔ یہی اسلام کی آفاقیت اور مساوات ہے۔
نتیجہ
قرآنِ کریم نے وقت اور تقویم کے بارے میں ایک جامع اور سادہ نظام پیش کیا ہے: ہلال مہینے کی علامت ہے، سورج اور چاند سال اور حساب کے پیمانے ہیں، دن اور رات انسانی زندگی کے نظم کے ضامن ہیں۔
جدید سائنس انہی اصولوں پر چلتی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ قرآن ان مظاہر کو ’’خدا کی نشانیاں‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ سائنس انہیں قدرتی عوامل کے طور پر بیان کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن انسان کو نہ صرف عبادات بلکہ علم اور کائنات کی کھڑکیوں کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔









آپ کا تبصرہ