منگل 4 نومبر 2025 - 15:53
نہج زندگی | پائیدار سکون کا فارمولا

حوزہ/ پائیدار سکون کی منزل تک پہنچنے کا راستہ صرف خدا سے تعلق میں ہے۔ وہی معبود ہے جس کے ہاتھ میں دلوں کی کنجیاں ہیں۔ وہ ہر دل اور ہر سوچ کو اُس بندے کی طرف موڑ سکتا ہے جس کا دل پوری طرح اپنے خالق کی طرف متوجہ ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی I امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کی ایک حکمت میں فرماتے ہیں:

«مَنْ أَصْلَحَ مَا بَیْنَهُ وَ بَیْنَ اللَّهِ، أَصْلَحَ اللَّهُ مَا بَیْنَهُ وَ بَیْنَ النَّاسِ؛ وَ مَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِهِ، أَصْلَحَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَ دُنْیَاهُ؛ وَ مَنْ کَانَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَاعِظٌ، کَانَ عَلَیْهِ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ.»

"جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان تعلق کو درست کرلے، خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو درست کردے گا؛ اور جو شخص اپنے آخرت کے امور کو سنوار لے، خدا اس کی دنیا کے معاملات کو درست کردے گا؛اور جس کے اندر خود ایک نصیحت کرنے والا موجود ہو، خدا اس پر اپنی خاص حفاظت مقرر کردیتا ہے۔"

(حکمت ۸۹)

تشریح:

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن میں کئی مقاصد اور تمنائیں ہوتی ہیں، مگر ان تک پہنچنے کا صحیح راستہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا، یا پھر ہم غلط راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔

زندگی میں بعض اوقات ایسے الجھاؤ پیدا ہوجاتے ہیں جو انسان کے تمام سکون کو چھین لیتے ہیں — کسی شخص، ادارے یا گروہ سے اختلاف، دل کے بوجھ اور بار بار کے تنازعات زندگی کو تلخ کردیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس سب کا حل کیا ہے؟

دنیوی پریشانیوں، رنجشوں اور بے سکونی سے نجات کا راستہ کیا ہے؟

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اصل اصلاح کا راستہ "خدا سے تعلق" کی اصلاح میں ہے۔

یعنی انسان اور خالق کے درمیان ایک رشتہ، ایک ذمہ داری اور ایک حق موجود ہے۔ جب بندہ اپنے اور خدا کے درمیان تعلق کو درست کر لیتا ہے، تو خداوند بھی وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اس کے اور لوگوں کے درمیان معاملات کو درست کر دے گا۔

اور چونکہ امام علیہ السلام خدا کے نمائندہ اور خلیفہ ہیں، اس لیے ان کا وعدہ دراصل خدا کا وعدہ ہے، اور خدا فرماتا ہے: "لَا یُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ" ۔ خدا کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (سورۂ روم، آیت ۶)

لہٰذا اگر انسان حقیقی سکون چاہتا ہے، تو اسے خدا سے جڑنا ہوگا۔ کیونکہ دلوں کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہی ہے جو لوگوں کے دلوں کو اس بندے کی طرف مائل کرتا ہے جس کا دل اس سے جڑا ہوا ہے۔

جو شخص خدا کی یاد اور اس کے احکام سے غافل ہے، وہ دنیا میں کبھی حقیقی اطمینان حاصل نہیں کر سکتا۔

حضرت علی علیہ السلام کا یہ کلام درحقیقت انسان کو ایک روحانی طاقت عطا کرتا ہے، ایسی طاقت جو دلوں اور ذہنوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔

جب انسان اپنا باطن نورِ الٰہی سے منور کر لیتا ہے، تو اس میں ایک خدائی کشش (جاذبیت) پیدا ہو جاتی ہے، جو لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف نرم اور مائل کر دیتی ہے۔

یوں بندہ خدا جب اپنے اور خالق کے درمیان تعلق کو درست کر لیتا ہے، تو خدا بھی اس کے اور دوسروں کے درمیان تعلقات کو درست فرما دیتا ہے۔

آخر کیوں ہم اس نورانی اور پُر برکت رابطے کو چھوڑ دیں؟

کیا ہم اپنی زندگی کے معاملات کی اصلاح نہیں چاہتے؟

کیا ہم دل کا سکون نہیں ڈھونڈ رہے؟

حقیقی سکون کا راز، صرف اور صرف، خدا سے تعلق کی درستگی میں ہے۔

حوالہ جات:

۱. نہج البلاغہ، حکمت ۸۹

۲. سورۂ روم، آیت ۶

۳. دعا: "یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ وَالأَبْصَارِ" — اے دلوں اور نگاہوں کو پلٹنے والے!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha