منگل 22 اپریل 2025 - 09:00
اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو نیک اور مستحکم کریں، دلوں کا اختیار خدا کے ہاتھ میں ہے

حوزہ / حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: جو شخص معاشرے میں کسی مشکل کا سامنا کر رہا ہو اور چاہتا ہو کہ اس کے اور دوسروں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اور خدا کے درمیان تعلق کو نیک اور مستحکم بنائے کیونکہ دلوں کا اختیار خدا کے ہاتھ میں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے "خدا سے تعلق میں بہتری" کے موضوع پر ایک تحریر میں کہا: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «مَنْ أَصْلَحَ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الله، أَصْلَحَ اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّاسِ»۔

یہ نورانی حدیث معاشرتی امور کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ جو شخص معاشرے میں کسی مشکل کا سامنا کر رہا ہو اور چاہتا ہو کہ اس کے اور دوسروں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اور خدا کے درمیان تعلق کو نیک اور مستحکم بنائے کیونکہ دلوں کا اختیار خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسروں سے تعلقات کی بہتری کا انحصار اس بات پر ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے تعلق کو درست کرے۔ اس اعلیٰ مقصد تک پہنچنے کا راستہ "تفکر" ہے۔

اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام نے ہمیں تفکر کا طریقہ بھی سکھایا ہے اور فرمایا ہے: تفکر یہ ہے کہ انسان کسی ویران سرزمین یا کھنڈر پر پہنچے اور (اس سے مخاطب ہو اور) کہے: «أینَ ساکِنوک؟ أینَ بانوُک؟» یعنی: تیرے رہنے والے اور بنانے والے کہاں گئے؟ یہ سوچ انسان کو متنبہ کرتی ہے۔

یہ ایک مثال ہے، ورنہ آباد گھر بھی نسل در نسل اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ویران مکانات زیادہ گویا پیغام رکھتے ہیں لیکن انسان کی نظر سے جو کچھ بھی گزرتا ہے، وہ پند و نصیحت کا سبب ہے۔

جیسا کہ امام کاظم علیہ السلام نے ہارون کے جواب میں فرمایا: «ما مِنْ شیءٍ تَراهُ عینُکَ إلّا وَفیهِ موعِظَة» یعنی: تمہاری آنکھ جو کچھ بھی دیکھتی ہے، اس میں وعظ اور نصیحت موجود ہے۔ تفکر کا ایک لمحہ انسان کو بیدار اور ہوشیار کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

حوالہ: مبادی اخلاق در قرآن، ص ۲۱۹، ۲۲۰

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha