نفس کا محاسبہ کیسے کریں؟ ہم خود کو بہتر طور پر پہچاننے کے لیے کیا کریں؟

حوزہ/ محاسبہ نفس ایک ایسا موضوع ہے جس پر اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور علمائے اخلاق نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں انسان ہر روز اپنے اعمال کا جائزہ لیتا ہے، خود سے سوال کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو پہچان کر انہیں سدھارنے کی کوشش کرتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I آج کے تیز رفتار اور پرآشوب دور میں اندرونی سکون، کامیابی اور متوازن زندگی کے لیے "خودآگاہی" اور "اپنے آپ کو قبول کرنا" نہایت اہم عوامل ہیں۔ انسان جب اپنے اندر جھانک کر خود کو پہچان لیتا ہے، تو زندگی میں بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں سے بچ سکتا ہے۔ آئیے محاسبہ نفس اور خودشناسی(اپنے آپ کو پہچاننا) کے اصولوں کے ذریعے اس بامقصد سفر کا آغاز کریں۔

محاسبہ نفس: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

محاسبہ نفس ایک ایسا موضوع ہے جس پر اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور علمائے اخلاق نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں انسان ہر روز اپنے اعمال کا جائزہ لیتا ہے، خود سے سوال کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو پہچان کر انہیں سدھارنے کی کوشش کرتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "اے ابن جندب! ہر وہ مسلمان جو ہمیں پہچانتا ہے، اس پر لازم ہے کہ ہر دن اور ہر رات اپنے اعمال کا جائزہ لے۔ اگر نیکی دیکھے تو اس میں اضافہ کرے، اور اگر برائی دیکھے تو استغفار کرے، تاکہ قیامت کے دن رسوائی سے بچ سکے۔"

یاد رکھیں، روزِ قیامت کو "یوم الحساب" یعنی حساب کا دن کہا گیا ہے، اور اگر انسان کو اس بات کا احساس نہ ہو کہ ایک دن اس سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، تو وہ نہ اپنے رویے کو درست کرے گا، نہ غلطیوں پر نادم ہوگا۔ اسی لیے علمائے اخلاق نے محاسبہ نفس کو خودسازی، تربیت نفس اور خودآگاہی کا ایک لازمی مرحلہ قرار دیا ہے۔

محاسبہ نفس کے چار بنیادی مراحل:

1. مشارطہ – دن کے آغاز میں انسان خود سے وعدہ کرے کہ آج نیک عمل کرے گا اور گناہوں سے بچے گا۔

2. مراقبہ – دن بھر اپنے اعمال پر نظر رکھے تاکہ وعدہ خلافی نہ ہو۔

3. محاسبه – رات کو دن بھر کے اعمال کا جائزہ لے کہ کہاں نیکی کی، کہاں کوتاہی ہوئی۔

4. معاتبه – اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو خود کو تنبیہ کرے، عتاب کرے اور بہتری کی کوشش کرے۔

اپنے آپ کو قبول کرنا

خود کو قبول کرنا، خودآگاہی کا پہلا قدم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو تسلیم کرے۔ یہ مان لے کہ کبھی ہم غلطی کر بیٹھتے ہیں، کبھی کچھ کام ہمارے بس سے باہر ہوتے ہیں، اور ہر وقت دوسروں کو خوش کرنا ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں خود کو الزام دینا یا ضرورت سے زیادہ توقعات باندھنا صرف ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔

دوسروں کو قبول کرنا

خودشناسی (اپنے آپ کو پہچاننا)کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم دوسروں کو بھی جیسا وہ ہیں ویسا ہی قبول کریں۔ دنیا میں کوئی دو افراد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اگر ہم اس حقیقت کو مان لیں کہ ہر انسان منفرد ہے، تو ہمیں زندگی میں ایک نئی بصیرت حاصل ہوگی۔ دوسروں کے اختلافات کو تسلیم کرنا، خودآگاہی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

ذمہ داری قبول کرنا

خودآگاہ انسان اپنی ذات اور دوسروں کے لیے ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔ وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار نہیں کرتا بلکہ انہیں قبول کر کے اپنے اندر کی قوتوں کو متحرک کرتا ہے۔ کبھی کبھار خودآگاہی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں، لیکن بعض لوگ اس کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ تبدیلی محنت مانگتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص خود کو محض "تفریح پسند" کہہ کر ٹال دے، لیکن درحقیقت وہ کام چور اور وقت ضائع کرنے والا ہو، تو اسے خود سے سچ بولنے اور بدلنے کی ہمت کرنی چاہیے۔

صداقت اور شجاعت: خودشناسی کی بنیاد

حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے، یعنی خود کو پہچاننے کے لیے دو صفات لازمی ہیں: صداقت اور شجاعت۔ ہمیں اپنے بارے میں سچ بولنے اور سچ سننے کا حوصلہ رکھنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے نفس سے سچ نہ بولیں، ہم اپنی اصلاح نہیں کر سکتے۔

نتیجہ:

محاسبہ نفس، خودشناسی، خودقبولی، دوسروں کا احترام، ذمہ داری، صداقت اور شجاعت — یہ سب مل کر ہمیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیتے ہیں۔ آئیے آج سے ہی خود کا محاسبہ شروع کریں، تاکہ کل ہم ایک مطمئن، باشعور اور روشن دل انسان بن سکیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha