جمعرات 4 ستمبر 2025 - 04:00
امام غائبؑ کے وجود مبارک سے زمین باقی ہے

حوزہ/اللہ تبارک و تعالٰی نے بشری سعادت اور انسانی ہدایت کے لیے انبیاء اور مرسلین علیہم السّلام کو مبعوث کیا اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت سے سلسلہ نبوت و رسالت اختتام پذیر ہوا تو حکم خدا سے ولایت و امامت کا سلسلۂ ہدایت و سعادت شروع ہوا‌۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| اللہ تبارک و تعالٰی نے بشری سعادت اور انسانی ہدایت کے لیے انبیاء اور مرسلین علیہم السّلام کو مبعوث کیا اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت سے سلسلہ نبوت و رسالت اختتام پذیر ہوا تو حکم خدا سے ولایت و امامت کا سلسلۂ ہدایت و سعادت شروع ہوا‌، جن میں یکے بعد دیگرے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانی ہدایت کی ذمہ داری قبول کی اور اسے انجام دیا۔ یہاں تک کہ 8 ربیع الاول سن 260 ہجری کو سامرا عراق میں گیارہویں امام حضرت ابو محمد امام حسن عسکری علیہ السلام کی زہر دغا سے شہادت ہو گئی۔ جس کے بعد خاتم الائمہ و الاوصیاء حضرت امام مہدی موعود عجل اللہ فرجہ الشریف کی امامت کا آغاز ہوا۔ اس آخری امامت کا آغاز غیبت صغری سے ہوا۔ جب 15 شعبان المعظم سن 329 ہجری کو آخری نائب خاص جناب علی ابن محمد سمری رضوان اللہ تعالی علیہ کی رحلت ہوئی تو غیبت کبریٰ کا دور شروع ہوا۔ جو ابھی تک جاری ہے اور تا ظہور جاری رہے گا۔

8 ربیع الاول سن 260 ہجری سے امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا دور امامت جاری ہے لیکن صدیاں گزرنے کے باوجود آپ پردہ غیبت میں ہیں۔ تو جب امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف غائب ہیں، ان تک ہر ایک کی رسائی ممکن نہیں ہے۔‌ اگرچہ اہل ایمان کا عقیدہ ہے کہ وہ ہمارے آخری امام ہیں اور ہم ان کی بیعت میں ہیں لیکن سوال کرنے والے سوال کرتے ہیں اور اعتراض کرنے والے اعتراض بھی کرتے ہیں کہ آخر اس وجود مبارک سے کیا فائدہ ہے جو غائب ہے اور جس تک عام بشر کی رسائی ممکن نہیں ہے؟

تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ اگر انسان نے امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے سلسلہ میں ان کے آبائے طاہرین یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث پر اجمالی نظر بھی کی ہوتی تو کبھی بھی ایسے سوالات زبان تو دور ذہن میں بھی نہ آتے۔ کیونکہ ان ہی احادیث سے ثابت ہے کہ امام غائب حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود پر نور و مبارک کے سبب یہ زمین باقی ہے۔ جیسا کہ باقر العلوم حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کی ولادت باسعادت سے برسوں پہلے ائمہ معصومین علیہم السلام کے وجود مبارک کی برکتوں اور فوائد کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا تھا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "لَو أنّ الإمامَ رُفِعَ مِنَ الأرضِ ساعةً لَماجَتْ بأهْلِها كَما يَمُوجُ البَحْرُ بأهلِهِ"(الكافی : 1 / 179 / 12) اگر ایک ساعت کے لئے بھی امام کو زمین سے اٹھا لیا جائے (زمین وجود امام سے خالی ہو جائے۔) تو جس طرح سمندر کی موجیں سمندر میں موجود لوگوں کو غرق کر دیتی ہیں اسی طرح زمین کا طلاطم اہل زمین کو ختم کر دے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے خصوصیات و صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: "جَعَلَهُمُ اللّه ُ عزّ و جلّ أركانَ الأرضِ أنْ تَمِيدَ بأهْلِها ، و عَمَدَ الإسلامِ ، و رابِطةً على سَبيلِ هُداهُ" (الكافی : 1 / 198 / 3) اللہ تعالی نے انہیں (ائمہ معصومین علیہم السلام) کو زمین کا رکن قرار دیا تاکہ زمین اپنے اہل کو ثابت رکھے۔ اور انہیں اسلام کا ستون اور راہ ہدایت کا پاسبان مقرر کیا۔

صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "لَو بَقِيَتِ الأرضُ بِغَيْرِ إمامٍ لَسَاختْ" (الكافی : 1 / 179 / 10) اگر زمین بغیر امام کے باقی رہے تو تباہ ہو جائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے وجود مبارک کی اہمیت کے سلسلہ میں فرمایا: "ما تَبْقَى الأرضُ يوما واحدا بِغَيْرِ إمامٍ مِنّا تَفْزَعُ إلَيْهِ الاُمّةُ"

(بحار الأنوار : 23 / 42 / 82)

اگر ہم میں سے کوئی ایک بھی امام (برحق) موجود نہ ہو کہ جس کی جانب امت رجوع کرتی ہے تو زمین ایک دن بھی باقی نہیں رہ سکتی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "إنّ الأرضَ لا تكونُ إلاّ و فيها حُجَّةٌ ، إنَّهُ لا يُصْلِحُ النّاسَ إلاّ ذلكَ ، و لا يُصْلِحُ الأرضَ إلاّ ذاكَ"

(بحار الأنوار : 23 / 51 / 101)

زمین بغیر حجت کے باقی نہیں رہ سکتی۔‌ بے شک لوگوں کی اصلاح حجت کے بغیر ممکن نہیں اور نہ زمین کا نظم بغیر حجت کے ممکن ہے۔

مذکورہ احادیث کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ امام معصوم کا وجود مبارک چاہے حاضر ہوں یا غائب ہوں بقائے کائنات کے لئے کتنا اہم ہے کہ اگر امام معصوم کے وجود مبارک سے ایک لمحے کے لئے بھی زمین خالی ہو جائے تو یہی زمین جو لوگوں کے لئے رہنے کی جگہ ہے وہ لوگوں کو اسی طرح ختم کر دے جس طرح سمندر کی موجیں اہل سمندر کو نابود کر دیتی ہیں۔ امام معصوم علیہ السلام کا وجود مبارک جس طرح لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لئے ضروری ہے اسی طرح بقائے کائنات کے لئے بھی لازمی ہے۔

جیسا کہ کتاب علل الشرائع (جلد2، صفحہ 556) میں روایت نقل ہوئی ہے کہ جب سقیفائی سلسلہ حکومت کے پہلے دور میں زلزلہ آیا، تمام لوگ پریشان ہو گئے، لوگ زلزلہ سے نجات کے لئے پہلے حاکم کے پاس گئے، پھر حاکم و رعایا سب مشکل کشاء امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے نجات کی درخواست کی تو مولا علی علیہ السلام نے اپنے لبوں کو جنبش دی، زمین پر ایک ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا: "تجھے کیا ہو گیا ہے، ساکن ہو جا۔" بس وہ ساکن ہو گئی۔ اس پر لوگوں کو بے حد تعجب ہوا۔

اسی طرح روایت کے مطابق امام علی نقی علیہ السلام کے لطف و کرم سے اہل اہواز کو زلزلے سے نجات و راحت نصیب ہوئی۔

اسی طرح دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے سلسلہ میں بھی روایات موجود ہیں کہ ان کے سبب انسانیت کو آسمانی اور زمینی آفات سے نجات ملی ہے۔ خاص طور سے بعض علمائے اعلام اور فقہائے کرام نے واقعات بیان کئے ہیں کہ منجی عالم بشریت امام مہدی موعود عجل اللہ فرجہ الشریف کے بابرکت وجود کے سبب لوگوں کو آفتوں اور بلاؤں سے نجات ملی۔

لہذا مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف اگرچہ غائب ہیں لیکن ان کے مبارک وجود کے سبب ہی یہ زمین اور نظام کائنات باقی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha