تحریر: سید محمد طاها رضوی (سانکو کرگل)
حوزہ نیوز ایجنسی| آج کل ہمارے معاشرے میں شادیوں کا موسم ہے؛ گلیاں سجی ہیں، لائٹوں کی قطاریں ہیں، گاڑیوں کا جلوس اور ہر طرف شور و مسرت کی فضاء ہے۔ مگر لمحہء فکریہ یہ ہے کہ کیا یہ وہی شادی ہے جسے اسلام نے عبادت کہا تھا؟
کیا یہ وہی خوشی ہے جسے قرآن نے رحمت و مودت کا سرچشمہ قرار دیا تھا؟
نکاح کے بارے میں قرآن کہتا ہے: شادی سکون، محبت اور رحمت کے لیے ہے لیکن ہماری موجودہ شادیوں نے سکون کو شور میں، محبت کو نمائش میں، اور عبادت کو تماشے میں بدل دیا ہے۔ نکاح جو عفت، پاکیزگی اور ذمہ داری کا آغاز تھا وہ آج مقابلہ، دکھاوا اور اسراف کی علامت بن چکا ہے۔ فائر ورکس، ڈی جے، کیگ کٹنگ، مہنگے لباس، اور فوٹو شوٹس نے اس مقدس عبادت کی روح کو مسخ کر دیا ہے۔ محرم و نامحرم ایک ہی محفل میں، ایک ہی لائٹوں کے نیچے بیٹھے ہیں اور بعض والدین اس سب پر خاموش نہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں گویا بے حیائی اب کلچر بن چکی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ ہم نے اپنی نسلوں کو کیا سکھایا ہے؟ حیا ایمان کا جز ہے مگر ہماری شادیوں میں ایمان کا یہ جز غائب ہے۔ اسلام کہتا ہے: بہترین نکاح وہ ہے جو کم خرچ ہو مگر آج ہم کم خرچ شادی کو شرمندگی اور دکھاوے کو عزت سمجھتے ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ہم نے سنت کو رسم اور سادگی کو کمزوری بنا دیا افسوس یہ کہ علمائے کرام والدین اور روحانی حضرات جو معاشرے کے رہنما ہونے چاہییں وہ بھی اکثر انہی رسومات میں شریک نظر آتے ہیں، اس لیے اب اصلاح صرف وعظ سے نہیں، بلکہ عمل سے ہوگی ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے کرام اور مذہبی خاندان اپنے گھروں کی شادیوں کو سادگی سے منائیں تاکہ امت کے لیے عملی نمونہ بن سکیں۔ قومیں تقریروں سے نہیں کردار سے بدلتی ہیں اور اگر علمائے کرام سادگی کو دوبارہ زندہ کریں تو یہ قوم خود بخود سنت فاطمی کی طرف پلٹ آئے گی۔ اسلام خوشی سے نہیں روکتا وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ خوشی ایمان کے دائرے میں ہو وقار اور حیا کے ساتھ ہو۔ شادی اگر اللہ کے لیے ہو تو وہ جنت کا دروازہ کھولتی ہے اور اگر دکھاوے کے لئے ہو تو زوال کی راہ۔
پس آئیے ہم اپنے گھروں سے آغاز کریں اپنے بچوں کو دکھائیں کہ نکاح عبادت ہے فیشن نہیں، بندگی ہے مقابلہ نہیں اور سادگی کمزوری نہیں، بلکہ وقار ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو آج کے اس شور و رنگ کے موسم میں سب سے زیادہ سننے سمجھنے اور اپنانے کے قابل ہے۔









آپ کا تبصرہ